کچھ مہمانوں اور میزبانوں کے بارے میں
میری شاعری کے دیگر یورپی زبانوں میں ترجمے ہیں‘ فرانسیسی میں‘ ہسپانوی میں‘ المانوی میں وغیرہ وغیرہ۔
اس وقت لندن سے آنے والی ایک مہمان کا ذکر مقصود ہے۔ کیا ضرور ہے کہ لندن سے' نیو یارک سے' ٹورنٹو سے' دبئی سے' بحرین سے آنے والے مہمانوں کی اطلاع آپ کو ہمیشہ امجد اسلام امجد کے کالموں ہی سے ملے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے کالم زیادہ معلومات افزا ہوتے ہیں۔ انھیں کے کالموں سے یہ پتہ چلا کہ یہاں سے جتنے لوگ ان دور کے شہروں میں جا کر آباد ہوئے ہیں وہ سب شاعر ہیں۔ اچھی غزلیں کہتے ہیں اور مشاعرے کرتے ہیں۔ اور ان کی بیگمات کھانے بہت اچھے پکاتی ہیں۔ پکاتی ہی نہیں کھلاتی بھی ہیں۔
امجد اسلام کے ذکر پر یاد آیا کہ ابھی پچھلے دنوں انھوں نے ہمیں اپنے کلام کا ایک مجموعہ عنایت کیا۔ امجد اسلام کی شاعری بزبان اطالوی۔ ہم نے اس پر اس کالم میں اپنی مسرت کا اظہار کیا تھا۔ اب انھوں نے ہمیں یہ نوید سنائی کہ میں ابھی چند اور مجموعے بھی نذر کرنے والا ہوں۔ یہ میری شاعری کے دیگر یورپی زبانوں میں ترجمے ہیں' فرانسیسی میں' ہسپانوی میں' المانوی میں وغیرہ وغیرہ۔ بس اسی طرح ہمارے امجد اسلام امجد گلوبل شاعر بن جائیں گے یا شاید بن چکے ہیں۔ بس ہم ہی سے کوتاہی ہوئی ہے کہ اس پر انھیں داد نہیں دی ہے۔
بہر حال ادھر سے جو مہمان آتے ہیں ان کا ذکر امجد اسلام کے وسیلہ سے ان کے کالموں میں پڑھتے ہیں اور ان سے ملاقات کا شرف حاصل کرتے ہیں عطاء الحق قاسمی کی طرف سے ہونے والی دعوتوں میں۔
لو اپنے مہمان کا ذکر تو رہا ہی جا رہا ہے۔ ارے وہ ہماری مہمان کہاں تھیں۔ ہوا کے گھوڑے پر سوار آئی ہیں۔ ہم نے پوچھا کہ اتنی عجلت میں کیوں ہو۔ کب آئیں کہاں ٹھہری ہو۔ کل ہی آئی ہوں۔ ٹھہری ہوں۔ گورنر ہاؤس میں۔ یہ سن کر ہم محتاط ہو گئے۔ سوچا کہ امجد اسلام والے مہمان نباشد۔ لندن کی معتبر شخصیت ہیں۔ ادبی امی' ایم بی امی والی قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔ جب ہم کسی بھلے زمانے میں لندن گئے تھے تو وہ بی بی سی میں بچوں کے پروگرام کرتی تھیں۔ رضا علی عابدی نے تعارف کرایا کہ یہ ہیں دردانہ انصاری۔ اور اب جو پچھلے دنوں ہم لندن گئے تو پتہ چلا کہ اب وہ ادبی امی' ایم بی امی والی کلاس میں ہیں اور لندن کی معتبر شخصیتوں میں گنی جانی چاہئیں۔ خیر سے اب جو ہمارے صوبے کے گورنر ہیں وہ بھی تو لندن کی معتبر شخصیتوں میں ہیں۔ تو دردانہ انصاری کو ادھر ہی مہمان ہونا تھا۔
مگر اچھی بات یہ ہے کہ دردانہ انصاری شاعر نہیں ہیں۔ جو کتاب لکھ رہی ہیں وہ نثر میں ہے۔ جس دوسرے مہمان کا ذکر ہم کرنے لگے ہیں وہ بھی حسن اتفاق سے شاعر نہیں ہیں۔ اسکالر البتہ ہیں۔ پروفیسر محمد عمر میمن اور ایسے اسکالر جس نے ہم جیسے کتنے اردو لکھنے والوں کو انگریزی میں ترجمہ کر کر کے مغرب کی علمی ادبی دنیا میں متعارف کرایا ہے۔
وسکانسن یونیورسٹی میں رہتے ہوئے اردو اسٹڈیز' کے نام سے سال کے سال ایک نہایت قیمتی رسالہ نکالتے تھے جس میں اردو ادب کو اس کے نئے پرانے لکھنے والوں کو متعارف کرایا جاتا تھا۔ اب وہاں سے ریٹائر ہو کر ایک آزاد اسکالر کی حیثیت میں مصروف کار ہیں۔ خیر ابھی تو وہ اسلام آباد میں ہیں۔ لاہور میں لمس کے مہمان ہوں گے جہاں انھیں کچھ لیکچر دینے ہیں۔ ہاں ادھر امریکا ہی سے ایک مہمان اور بھی تو آئی ہوئی ہیں۔ وہ ہیں عشرت آفرین۔ اردو کی بہت اچھی شاعرہ ہیں۔ غیر مشاعراتی شاعرہ۔ ان کی شاعری کا ذکر بھی وقت پر آئے گا۔ مہمان تو خیر یہ لوگ بھی اسی دیار مغرب سے آئے ہیں ع
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
امجد اسلام جن مہمانوں کا ذکر کرتے ہیں جو بالعموم ان کے میزبان ہوتے ہیں ان کی شان ہی اور ہے۔
ابھی رضا علی عابدی کا اڑتا سا ذکر ہوا تھا۔ ہیں تو وہ بھی لندن ہی کے باسی۔ مگر اب ان کے بارے میں یہ طے کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کب لندن میں ہوتے ہیں اور کب پاکستان میں۔ اپنے کالم کے حساب سے وہ اب پاکستان ہی میں رچے بسے نظر آتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں ہم ان کا ایک کالم پڑھ رہے تھے جس میں انھوں نے یہ مژدہ جاں فزا سنایا تھا کہ اردو میں کچھ نئے گل کھلے ہیں' نئے نوخیز شاعر نمودار ہوئے ہیں۔ ان تازہ واردان بساط شاعری کا انھوں نے ایسا نقشہ کھینچا تھا کہ حیرت بھی ہو رہی تھی اورمسرت بھی۔ سوچ رہے تھے کہ ارے یہ شاعر کدھر ہیں۔ انھیں سر آنکھوں پہ بٹھائیں' گل پھول ان پر نثار کریں۔ ہم ڈھونڈھتے ہی رہ گئے کہ ع
کہاں ہیں' کس طرف ہیں اور کدھر ہیں
مگر عابدی صاحب نے نہ کسی کا نام بتایا نہ کسی کا نمونہ کلام پیش کیا۔ خاتمہ کلام کچھ اس رنگ سے کیا ہے بوجھو تو جانیں۔ یعنی پورا کالم ان نو واردان کے بارے میں اس ادا سے لکھا ہے کہ قارئین کو تلملاتا چھوڑ دیا ہے۔
خیر دنیا زاد' کے نئے شمارے میں چھپنے والے ایک مضمون میں اس کی تلافی ہو گئی ہے۔ مگر وہاں روئے سخن رضا علی عابدی کی طرف نہیں ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کی طرف ہے جنہوں نے کہیں یہ لکھا ہے کہ ''وہ کونسی ایسی نئی بات ہمارے نئے شاعر لکھ رہے ہیں جس کی طرف سے سماعتیں توجہ دیں''۔ مگر ان سے زیادہ ظفر اقبال کو اس لکھنے والے نے جس کا نام تصنیف حیدر ہے لتاڑا ہے۔
انھوں نے بھی ہندوستان میں ہونے والی آج کی شاعری پر اسی طرح کا محاکمہ کیا ہے مگر تصنیف حیدر صاحب کہتے ہیں کہ خود ظفر اقبال کے کالموں میں ''طرح طرح کے خراب شاعروں کا کلام پڑھ پڑھ کر میں اُوب گیا ہوں''۔ جواب میں انھوں نے نو واردان شعر کی غزلوں کا ایک پورا سلسلہ پیش کر ڈالا ہے۔ گویا ظفر اقبال پر جتایا جا رہا ہے کہ دیکھو ایسے شعر کہہ رہے ہیں ہندوستان کے نئے شاعر۔
ظفر اقبال کو ہم نے سمجھایا تھا کہ ہاتھیوں سے گنے نہیں کھایا کرتے۔ ویسے بھی غالب کا اور تمہارا مسئلہ۔ آج کا تو نہیں ہے۔ یہ تو بقول تمہارے پچاس سال بعد طے ہو گا کہ کون بڑا شاعر تو پچاس سال بعد جو ہونا ہے' غالب یا ظفر اقبال۔ اس کا راگ الاپ کر ہمیں کیوں خراب کر رہے ہو۔ آج کی بات کرو۔ آج کی بات انھوں نے اس طرح کی کہ ہندوستان کے ایک نوخیزیے کو تاؤ آ گیا اور اس نے غزلوں کا ایک دفتر پیش کر ڈالا ہے کہ دیکھو ہم ایسی شاعری کر رہے ہیں۔
اب ظفر اقبال اس بھلے مانس سے نبٹیں۔ اور اس سے پوچھیں کہ ان غزلوں میں کونسی نئی سوغات ہے۔ ساتھ میں اسے سمجھائیں کہ جن خراب شاعروں کو ہم تم داد دیتے ہیں۔ وہ اتنے خراب نہیں ہیں کہ ظفر اقبال کی داد سے محروم ہو جائیں۔
امجد اسلام کے ذکر پر یاد آیا کہ ابھی پچھلے دنوں انھوں نے ہمیں اپنے کلام کا ایک مجموعہ عنایت کیا۔ امجد اسلام کی شاعری بزبان اطالوی۔ ہم نے اس پر اس کالم میں اپنی مسرت کا اظہار کیا تھا۔ اب انھوں نے ہمیں یہ نوید سنائی کہ میں ابھی چند اور مجموعے بھی نذر کرنے والا ہوں۔ یہ میری شاعری کے دیگر یورپی زبانوں میں ترجمے ہیں' فرانسیسی میں' ہسپانوی میں' المانوی میں وغیرہ وغیرہ۔ بس اسی طرح ہمارے امجد اسلام امجد گلوبل شاعر بن جائیں گے یا شاید بن چکے ہیں۔ بس ہم ہی سے کوتاہی ہوئی ہے کہ اس پر انھیں داد نہیں دی ہے۔
بہر حال ادھر سے جو مہمان آتے ہیں ان کا ذکر امجد اسلام کے وسیلہ سے ان کے کالموں میں پڑھتے ہیں اور ان سے ملاقات کا شرف حاصل کرتے ہیں عطاء الحق قاسمی کی طرف سے ہونے والی دعوتوں میں۔
لو اپنے مہمان کا ذکر تو رہا ہی جا رہا ہے۔ ارے وہ ہماری مہمان کہاں تھیں۔ ہوا کے گھوڑے پر سوار آئی ہیں۔ ہم نے پوچھا کہ اتنی عجلت میں کیوں ہو۔ کب آئیں کہاں ٹھہری ہو۔ کل ہی آئی ہوں۔ ٹھہری ہوں۔ گورنر ہاؤس میں۔ یہ سن کر ہم محتاط ہو گئے۔ سوچا کہ امجد اسلام والے مہمان نباشد۔ لندن کی معتبر شخصیت ہیں۔ ادبی امی' ایم بی امی والی قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔ جب ہم کسی بھلے زمانے میں لندن گئے تھے تو وہ بی بی سی میں بچوں کے پروگرام کرتی تھیں۔ رضا علی عابدی نے تعارف کرایا کہ یہ ہیں دردانہ انصاری۔ اور اب جو پچھلے دنوں ہم لندن گئے تو پتہ چلا کہ اب وہ ادبی امی' ایم بی امی والی کلاس میں ہیں اور لندن کی معتبر شخصیتوں میں گنی جانی چاہئیں۔ خیر سے اب جو ہمارے صوبے کے گورنر ہیں وہ بھی تو لندن کی معتبر شخصیتوں میں ہیں۔ تو دردانہ انصاری کو ادھر ہی مہمان ہونا تھا۔
مگر اچھی بات یہ ہے کہ دردانہ انصاری شاعر نہیں ہیں۔ جو کتاب لکھ رہی ہیں وہ نثر میں ہے۔ جس دوسرے مہمان کا ذکر ہم کرنے لگے ہیں وہ بھی حسن اتفاق سے شاعر نہیں ہیں۔ اسکالر البتہ ہیں۔ پروفیسر محمد عمر میمن اور ایسے اسکالر جس نے ہم جیسے کتنے اردو لکھنے والوں کو انگریزی میں ترجمہ کر کر کے مغرب کی علمی ادبی دنیا میں متعارف کرایا ہے۔
وسکانسن یونیورسٹی میں رہتے ہوئے اردو اسٹڈیز' کے نام سے سال کے سال ایک نہایت قیمتی رسالہ نکالتے تھے جس میں اردو ادب کو اس کے نئے پرانے لکھنے والوں کو متعارف کرایا جاتا تھا۔ اب وہاں سے ریٹائر ہو کر ایک آزاد اسکالر کی حیثیت میں مصروف کار ہیں۔ خیر ابھی تو وہ اسلام آباد میں ہیں۔ لاہور میں لمس کے مہمان ہوں گے جہاں انھیں کچھ لیکچر دینے ہیں۔ ہاں ادھر امریکا ہی سے ایک مہمان اور بھی تو آئی ہوئی ہیں۔ وہ ہیں عشرت آفرین۔ اردو کی بہت اچھی شاعرہ ہیں۔ غیر مشاعراتی شاعرہ۔ ان کی شاعری کا ذکر بھی وقت پر آئے گا۔ مہمان تو خیر یہ لوگ بھی اسی دیار مغرب سے آئے ہیں ع
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
امجد اسلام جن مہمانوں کا ذکر کرتے ہیں جو بالعموم ان کے میزبان ہوتے ہیں ان کی شان ہی اور ہے۔
ابھی رضا علی عابدی کا اڑتا سا ذکر ہوا تھا۔ ہیں تو وہ بھی لندن ہی کے باسی۔ مگر اب ان کے بارے میں یہ طے کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کب لندن میں ہوتے ہیں اور کب پاکستان میں۔ اپنے کالم کے حساب سے وہ اب پاکستان ہی میں رچے بسے نظر آتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں ہم ان کا ایک کالم پڑھ رہے تھے جس میں انھوں نے یہ مژدہ جاں فزا سنایا تھا کہ اردو میں کچھ نئے گل کھلے ہیں' نئے نوخیز شاعر نمودار ہوئے ہیں۔ ان تازہ واردان بساط شاعری کا انھوں نے ایسا نقشہ کھینچا تھا کہ حیرت بھی ہو رہی تھی اورمسرت بھی۔ سوچ رہے تھے کہ ارے یہ شاعر کدھر ہیں۔ انھیں سر آنکھوں پہ بٹھائیں' گل پھول ان پر نثار کریں۔ ہم ڈھونڈھتے ہی رہ گئے کہ ع
کہاں ہیں' کس طرف ہیں اور کدھر ہیں
مگر عابدی صاحب نے نہ کسی کا نام بتایا نہ کسی کا نمونہ کلام پیش کیا۔ خاتمہ کلام کچھ اس رنگ سے کیا ہے بوجھو تو جانیں۔ یعنی پورا کالم ان نو واردان کے بارے میں اس ادا سے لکھا ہے کہ قارئین کو تلملاتا چھوڑ دیا ہے۔
خیر دنیا زاد' کے نئے شمارے میں چھپنے والے ایک مضمون میں اس کی تلافی ہو گئی ہے۔ مگر وہاں روئے سخن رضا علی عابدی کی طرف نہیں ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کی طرف ہے جنہوں نے کہیں یہ لکھا ہے کہ ''وہ کونسی ایسی نئی بات ہمارے نئے شاعر لکھ رہے ہیں جس کی طرف سے سماعتیں توجہ دیں''۔ مگر ان سے زیادہ ظفر اقبال کو اس لکھنے والے نے جس کا نام تصنیف حیدر ہے لتاڑا ہے۔
انھوں نے بھی ہندوستان میں ہونے والی آج کی شاعری پر اسی طرح کا محاکمہ کیا ہے مگر تصنیف حیدر صاحب کہتے ہیں کہ خود ظفر اقبال کے کالموں میں ''طرح طرح کے خراب شاعروں کا کلام پڑھ پڑھ کر میں اُوب گیا ہوں''۔ جواب میں انھوں نے نو واردان شعر کی غزلوں کا ایک پورا سلسلہ پیش کر ڈالا ہے۔ گویا ظفر اقبال پر جتایا جا رہا ہے کہ دیکھو ایسے شعر کہہ رہے ہیں ہندوستان کے نئے شاعر۔
ظفر اقبال کو ہم نے سمجھایا تھا کہ ہاتھیوں سے گنے نہیں کھایا کرتے۔ ویسے بھی غالب کا اور تمہارا مسئلہ۔ آج کا تو نہیں ہے۔ یہ تو بقول تمہارے پچاس سال بعد طے ہو گا کہ کون بڑا شاعر تو پچاس سال بعد جو ہونا ہے' غالب یا ظفر اقبال۔ اس کا راگ الاپ کر ہمیں کیوں خراب کر رہے ہو۔ آج کی بات کرو۔ آج کی بات انھوں نے اس طرح کی کہ ہندوستان کے ایک نوخیزیے کو تاؤ آ گیا اور اس نے غزلوں کا ایک دفتر پیش کر ڈالا ہے کہ دیکھو ہم ایسی شاعری کر رہے ہیں۔
اب ظفر اقبال اس بھلے مانس سے نبٹیں۔ اور اس سے پوچھیں کہ ان غزلوں میں کونسی نئی سوغات ہے۔ ساتھ میں اسے سمجھائیں کہ جن خراب شاعروں کو ہم تم داد دیتے ہیں۔ وہ اتنے خراب نہیں ہیں کہ ظفر اقبال کی داد سے محروم ہو جائیں۔