بے رحم صحرا کے قیدی
تھرپارکر میں موت کا رقص جاری ہے، بچے بھوک سے مرر ہے ہیں، حکمران بدستور خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
تھر سندھ کے جنوب اور مشرق میں ہندوستان کی سرحد پر واقع ایک صحرائی علاقہ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد تھر کا ضلع پاکستان کے سب سے بڑے اضلاع میں شمار ہوتا تھا لیکن بعد میں اسے نوکر شاہی کی انتظامی سہولت کے لیے تین حصوں میں بانٹ دیا گیا جس سے میرپور خاص، عمرکوٹ اور تھرپارکر وجود میں لائے گئے، مگر اس علاقے کی قسمت میں کوئی مثبت تبدیلی لانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی بلکہ اس بدنصیب علاقے کے مشکل حالات اور زیادہ مشکل اور صبر آزما ہوتے چلے گئے، جن کی زد میں یہاں کے غریب باشندے اور ان کے مویشی آئے۔
تھرپارکر کا رقبہ 19 ہزار مربع کلومیٹر ہے جہاں تین ہزار سے زیادہ دیہات ہیں، 16 لاکھ سے زیادہ لوگ تھر کی قدیم روایات کو سینے سے لگائے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس ضلع کے قرب و جوار میں مٹھی، اسلام کوٹ، ننگرپارکر، چھاچھرو اور ڈیپلو جیسے علاقوں میں ریتیلے میدانوں اور کنوؤں سے پانی نکال کر سروں پر تین تین مٹکے اٹھائے خواتین پسماندہ ترین زندگی کے مناظر پیش کرتی ہیں۔ ترقی یافتہ اور خوشحال علاقوں میں تھر اپنی بھوک، پیاس اور غربت کی بیماریوں کے لیے مشہور ہے۔
کسی بہتر متبادل نظام حیات کی عدم موجودگی میں یہاں کے لوگ ہزاروں سال پرانی روایات میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔ آج کل ایک مرتبہ پھر تھرپارکر میں موت کا رقص جاری ہے، بچے بھوک سے مرر ہے ہیں، حکمران بدستور خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ کون کہتا ہے کہ تھر انسانوںکی بستی ہے؟ وہ تو جانوروں سے بھی بدتر زندگی بسر کرنے والوں کی بستی ہے، ان کے رنگ دھوپ میں سڑ سڑ کے کوئلے سے بھی زیادہ سیاہ ہوچکے ہیں۔ ہائے انسان کی بے بسی اور حسرتیں، حسرت اور یاس کے مارے یہ لوگ، جنہوں نے زندگی بھر کبھی صاف اور میٹھا پانی نہیں پیا ہو گا؟ جن کی آنکھوں میں زندگی نہیں ہر وقت موت رقص کرتی نظر آتی ہے۔
ارباب اختیار کی بے حسی کی انتہا تو دیکھیے کہ امدادی گندم کے نام پر مٹی سے بھری بوریاں تھر پہنچا دی گئیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور منظور وسان کو تھر میں قحط سالی پر شوکاز نوٹس بھیجا جو کہ بعد ازاں یہ کہہ کر واپس لے لیا گیا کہ میڈیا میں آنے والی غلط رپورٹ کی وجہ سے شوکاز نوٹس جاری کیا، لیکن حقیقت سامنے آنے پر واپس لے لیا گیا۔ ایسے اقدامات کسی کی غربت، بے بسی اور بے کسی کے ساتھ بھیانک مذاق نہیں تو کیا ہے؟
چند ماہ پہلے سندھ فیسٹیول پر کروڑوں روپے خرچ ڈالے۔ ایک طرف موت کا رقص برپا تھا تو دوسری جانب آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کا رقص تھا۔ موہن جو دڑو کے آثار کو بچانے کے لیے اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں کیونکہ اس کام میں کئی لوگوں کی دہاڑی لگے گی۔ دوسری جانب انسانی زندگی مٹ رہی ہے، اس سے کسی کو سروکار نہیں۔
حکومت سندھ کے تین ادارے تھر میں زندگی کو بچانے کے لیے کام کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور ان کے پاس فنڈز کی وافر مقدار ہے لیکن یہ فنڈز تو کہیں اور کسی اور طرح خرچ ہو جائیں گے۔ تھر کی 99 فیصد آبادی کے پاس پختہ مکان بھی نہیں، گھاس پھوس کی بنی گول کھٹیاری میں رہنے والوں کو کیا پتہ کہ ان سے صرف تین سو میل دور ہر سہولت موجود ہے اور تھر کے لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔
تھر کی زمین میں بے شمار کوئلہ اور تھر کی ریت کے نیچے گریفائٹ، سنگ مرمر، چائنا کلے اور دیگر قیمتی معدنیات بھی موجود ہیں اور کہا جاتا ہے کہ تھر کے کوئلے سے سالانہ 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ تھر میں قحط کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں بلکہ یہاں پر سیکڑوں سال سے یہ سلسلہ جاری ہے، کیونکہ اس کی تاریخ کوئی چار ہزار تو کوئی دس ہزار سال پرانی بتاتا ہے۔
ہمیں اس سے بحث نہیں کہ تھر کی تاریخ کتنی قدیم ہے، اصل بات یہ ہے کہ ہماری حکومتوں نے اس خطے کے باسیوں کے لیے کیا کیا؟ ایک انگریز کرنل تھروٹ نے 1882ء میں تھر میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کئی تالاب بنائے۔ کسی حکومت نے ان تالابوں کی تعداد میں اضافہ کیا؟ کسی نے نئے تالاب بنائے؟ یہ خطہ ہزاروں من دودھ اور گوشت حیدرآباد اور کراچی کو فراہم کرتا ہے، کیا حکومت سندھ اپنی اس غفلت کے بارے میں کچھ بتا سکتی ہے؟ کیا تعلیم، صحت، صاف پانی اور زندگی کی دوسری سہولتیں اس علاقے کے لوگوں کا حق نہیں؟ نیلسن منڈیلا نے واقعی سچ کہا تھا کہ ''جس قوم میں تعمیر، تعلیم اور صحت کے شعبے منافع بخش کاروبار بن جائیں اسے دنیا کی کوئی طاقت تباہی سے نہیں بچا سکتی۔''
پیپلز پارٹی کی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبے پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی، لیکن تھر کے لوگ چیخ رہے ہیں کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، وہ دوائیں کہاں سے لیں۔ سرکاری اسپتالوں کی یہ صورتحال ہے کہ وہاں لوگوں کو ایک چار آنے کی گولی بھی نہیں ملتی ہے۔ تھر میں بچے دوائیں نہ ملنے کے باعث موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اگر سرکاری ریکارڈ میں دیکھا جائے تو دواؤں کی خریداری پر سالانہ اربوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں۔
تھرپارکر کے بے رحم صحرا میں مرنے والے بچوں کے بارے میں قلم مزید لکھنے سے قاصر ہے کیونکہ ہمارے سیاستدان اور بیورو کریسی والے کرپٹ ہونے کے ساتھ ساتھ بے رحم بھی ہو چکے ہیں۔ ابھی کل تک جہاں جشن منایا جا رہا تھا آج وہاں جنازوں کی قطاریں لگی ہے کہ پاکستان جل رہا ہے اور یہاں کے نیرو آرکسٹرا بجا رہے ہیں یا پھر چالاکیاں دکھا رہے ہیں۔
بھوک اور غذائی قلت سے ایک ایسے صوبے میں اموات ہو رہی ہیں جس کے بارے میں حکومت سندھ کا دعویٰ ہے کہ یہ صوبہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد گندم برآمد کر سکتا ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ اسی صوبے میں بھوک سے اموات ہو رہی ہیں۔ اکیسویں صدی کے اس عہد جدید میں اس طرح کی خبروں پر جس قدر افسوس کیا جائے، وہ کم ہے۔ اگر پورے ملک میں غذائی قلت کا مسئلہ درپیش ہو تو پھر تھر جیسی صورتحال سمجھ میں آتی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور غذائی اجناس میں خودکفیل ہے۔
پاکستان کی مرکزی حکومت اور سندھ حکومت کے پاس اس طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے وسائل بھی موجود ہیں۔ تھر میں اس طرح کی صورتحال پہلی مرتبہ پیدا نہیں ہوئی ہے، ہر چند سال کے بعد وہاں کے لوگوں کو اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ضلع تھر کے 166دیہہ میں سے صرف 9 دیہہ بیراج کے کمانڈ ایریا میں ہیں، باقی علاقوں میں پانی کی فراہمی کا کوئی مستقل انتظام نہیں ہے، وہ صرف بارشوں پرانحصار کرتے ہیں۔ سالہا سال کے تجربے کے بعد حکومت سندھ کے اداروں کو ایسی صورتحال کی مانیٹرنگ اور اس سے نمٹنے کے لیے ایک مستقل حکمت عملی وضع کرنی چاہیے تھی لیکن سارا مسئلہ گڈ گورننس نہ ہونے کا ہے اور اس کی سب سے زیادہ ذمے داری حکومت سندھ پر عائد ہوتی ہے۔
گڈ گورننس کے حوالے سے سندھ حکومت پر ہمیشہ تنقید ہوتی رہتی ہے لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ خشک سالی اور قحط کی صورت حال ایک دن میں پیدا نہیں ہوتی ہے۔ علاقے کی انتظامیہ کو زمینی حقائق کا علم ہوتا ہے لیکن کسی کو اس بات کا خوف نہیں ہے کہ اس سے پوچھ گچھ ہو سکتی ہے یا اس کا احتساب ہو سکتا ہے۔ آج تھر کی ہر ماں اور ہر باپ کے دل سے حکمرانوں کے لیے بددعائیں نکل رہی ہیں، حاکم وقت ہیں کہ میڈیا کے سامنے ڈھٹائی کے ساتھ بیان بازی کرتے ہیں۔ تھر پارکر کے غریب لوگوں اور بچوں کا خون کس کے سر پر ہے؟ اس خون کا حساب کون دے گا؟