اندھیر نگری چوپٹ راج

اس نگری میں بے روزگاروں کی تعداد میں دن دوگنا رات چو گنا اضافہ ہوتا، بھوک اور غربت کے ستائے کئی افرادروزخودکشی کرلیتے۔


نجمہ عالم November 14, 2014
[email protected]

بچو! آج ہم آپ کو'' اندھیر نگری چوپٹ راج'' کی اصلی کہانی سناتے ہیں۔ ہم نے تو اپنے بچپن میں نانی اماں سے اس کہاوت کی نقلی کہانی سنی تھی جو کچھ یوں تھی کہ ایک راجہ تھا جس کے بہت سے مشیر اور وزیر باتدبیر تھے، وہ اپنے محل میں آرام سے رہتا تھا۔

وہ جب بھی محل سے باہر نکلنے کا ارادہ کرتا تو اس کے مشیر پرخلوص مشورہ دیتے کہ جہاں پناہ! آپ اتنی گرمی یا سردی یا برسات (جو بھی موسم ہو) میں محل سرا سے نکل کر کیوں موسم کی سختیاں برداشت کریں، ہم جو موجود ہیں سب کچھ دیکھ بھال لیں گے، یوں ہی اس کے وزیر باتدبیر راجہ کو لمحے لمحے کی خبر دیتے کہ عالی جاہ! پوری راجدھانی میں ہر طرف امن و امان اور خوشحالی کا دور دورہ ہے۔

ہر شخص مطمئن اور آسودہ حال ہے، رب العزت آپ کا اقبال بلند فرمائے کہ آپ کی بصیرت، فلاحی و انتظامی صلاحیت کے باعث پوری راجدھانی میں کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ اس نگری کا حال کچھ یوں تھا کہ ہر فرد اپنی من مانی زندگی بسر کرتا، ہر ادارہ اپنی مرضی اور خودساختہ قوانین پر عمل کرتا۔ بچو! یہ کہانی سن کر ہمارے معصوم دل میں ایسی نگری کا باسی اور ایسے راجہ کی پرجا بننے کی خواہش پیدا ہونے لگی کہ ہم بھی کسی ایسی نگری میں چل کر رہیں جہاں دادی اماں ہمیں کسی بات پر نہ ٹوکیں، اماں ہم سے کسی کام کو نہ کہیں اور ہم اپنی مرضی سے جتنا چاہیں کھیلیں کودیں، جب چاہیں سو جائیں اور جب جی چاہے سو کر اٹھیں، نہ کوئی ہمیں اسکول جانے کو کہے اور نہ ہوم ورک کی پابندی ہو۔

بچپن ختم ہوا زندگی اسکول جاتے ہی بلکہ کالج جانے میں بھی گزرتی رہی اور یہ معصوم خواہش نہ جانے دل کے کس گوشے میں جا چھپی یا شاید ہمیں یاد ہی نہ رہا کہ ہم اندھیر نگر میں رہنے کے کبھی خواہش مند بھی تھے۔ غرض جوانی کا بھی ابتدائی حصہ حسب معمول گزر گیا، مگر اللہ تعالیٰ کو ہماری بھولی بسری معصوم خواہش پوری کرنی تھی تو ہم بالآخر اندھیر نگری میں بسا دیے گئے۔ اس نگری کا عالم یہ تھا کہ ہر روز کئی کئی افراد قتل ہو جاتے، ہر روز سیکڑوں قاتل اور مجرم پکڑے جاتے مگر پھر جانے انھیں زمین کھا جاتی یا آسمان نگل جاتا کیونکہ اس اندھیر نگری کے قانون نافذ کرنے والے بے حد ایماندار اور فرض شناس تھے۔

اس نگری میں بے روزگاروں کی تعداد میں دن دوگنا رات چو گنا اضافہ ہوتا، بھوک اور غربت کے ستائے کئی افراد روز خودکشی کر لیتے، ہر ادارہ خسارے میں چل رہا ہوتا، ڈگری یافتہ جاہل، متعصب اور انتہا پسندوں سے اس نگری کی رونق دوبالا رہتی، روشن خیال، خلق خدا کا درد سمجھنے والوں کو یا تو قتل کر دیا جاتا یا لاپتہ، غرض اس اندھیر نگری میں اور بھی کئی قابل داد صفات تھیں مثلاً ایسے مشیروں اور وزیروں کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی کہ اگر کوئی بے وقوف خلق خدا کی بہبود کا کام اپنے وسائل سے کرنا چاہتا تو یہ ایسے ہر کام کی راہ میں رکاوٹیں ڈال کر یا تو اس منصوبے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرا دیتے یا اس کی تکمیل کے مراحل میں تاخیر کے تمام حربے استعمال کرتے کہ فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو۔

راجہ اگر کبھی اپنی ذاتی مصروفیات سے فرصت پاتے (جو ذرا مشکل ہی سے ملتی) اور ان کی نظر کسی تازہ اخبار یا کسی چینل کے پروگرام پر پڑ جاتی تو انھیں محسوس ہوتا کہ اندھیر نگری میں کچھ ہو رہا ہے تو وہ فوراً اپنے وزیروں کو بلا کر اس صورتحال کی پوچھ گچھ فرماتے کیونکہ راجہ بے حد نیک اور خدا ترس انسان تھے۔ وزیر انھیں تسلی دیتے کہ حضور! یہ ذرایع ابلاغ کی کارستانی ہے تا کہ عوام کو آپ کے خلاف کریں۔ مگر ہم نے ان کی اچھی طرح خبر لے لی ہے یہ اب اپنے بیان اور خبر پر معذرت کر کے منہ چھپاتے پھریں گے۔ آپ بالکل فکر مند نہ ہوں، اپنی خواب گاہ میں آرام فرمائیے۔

مگر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ کسی غیر معتبر ذریعہ سے راجہ کو اطلاع ملی کے ان کی راجدھانی کے کسی علاقے تھر میں لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں اور بچے علاج اور غذا میسر نہ ہونے کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں راجہ کو ایک دم طیش آ گیا انھوں نے فوراً اپنے روحانی فرزند جو کہ اندھیر نگری کی شاید دو وزارتوں کے قلمدان رکھتے تھے کو بلا کر سختی سے پوچھا کہ یہ میں کیا سن رہا ہوں؟ روحانی فرزند نے جو راجہ کو طیش میں دیکھا تو کچھ گھبرائے مگر عاجزی سے کہا کہ ظل الٰہی! اگر آپ کو کسی نے غلط خبر دی ہے تو پھر آپ خود چل کر تھر کا دورہ فرما لیجیے، آپ خود وہاں کی خوشحالی اور عوام کی پرسکون زندگی کا مشاہدہ کر لیں گے۔ راجہ کو یہ بات پسند آئی اور وزیر نے فوراً ایک ہیلی کاپٹر کا انتظام کیا، راجہ تھر کے معائنے کے لیے روانہ ہوئے۔

بے حد سرسبز علاقہ جس میں ہر طرف کھیت لہلہا رہے تھے، گھنے درختوں کے سائے میں مسافر اور کسان آرام کر رہے تھے کھیتوں کے درمیان صاف شفاف نہر بہہ رہی تھی، خواتین سروں پر مٹکے اٹھائے مطمئن اور پرمسرت انداز میں پانی بھر کر اپنے گھروں کو ہنستی مسکراتی جا رہی تھیں، بستی میں کچے پکے مکانات میں بھی خاصی رونق نظر آ رہی تھی۔ وزیر نے عرض کیا حضور! دیکھیے یہ تھر کا علاقہ ہے آپ خود ملاحظہ فرمائیے کہ کس قدر سرسبز پر رونق ہے، بھلا یہاں بھوک سے لوگ کس طرح مرسکتے ہیں؟ راجہ ہیلی کاپٹر کی اونچی اور کبھی نیچی پرواز سے بچشم خود یہ صورتحال دیکھ رہے تھے انھوں نے اپنے وزیر کو ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے فرمایا۔ یہ سب تو ان خبروں سے بالکل مختلف ہے تم ٹھیک کہتے ہو کہ ذرایع ابلاغ میں کچھ لوگ ہم سے جلتے ہیں۔ راجہ خوشی خوشی اپنے دارالحکومت پہنچے اور ''ایک پرہجوم پریس کانفرنس'' میں کہا کہ جو کچھ ہمارے خلاف سازش کی جا رہی ہے ہم اس سے باخبر ہیں، تھر میں ایک بچہ بھی علاج کی سہولت نہ ہونے سے یا غذائی قلت کے سبب نہیں مرا، وہاں ہر چیز اور سہولت وافر مقدار میں موجود ہے، ہم نے اس علاقے سے کوئی غفلت نہیں برتی۔

بچو! یہ اندھیر نگری کوئی چھوٹی سی بستی تو ہے نہیں ، اس میں اور بھی کئی علاقے ہیں اور ہر علاقہ یعنی نگری کا راج چوپٹ ہے۔ تمام ادارے اپنی اپنی جگہ چوپٹ ہونے کا بہترین ثبوت فراہم کر رہے ہیں ہم آپ کی معلومات میں اضافے کے لیے صرف چند مثالیں پیش کر رہے ہیں مثلاً ایچ ای سی (اعلیٰ تعلیمی کمیشن) والوں نے اپنی بھرپور فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایسے فرد کو جو ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں بدعنوانی میں ملوث تھا جس کی تحقیقات بھی جاری ہیں ایچ ای سی کے چیئرمین نے اس بدعنوان شخص کو اس کے کارنامے سے متاثر ہو کر گریڈ بیس میں ترقی فرما دی ہے۔ بچو! اندھیر نگری کی پولیس بھی بے حد فعال اور فرض شناس ہے۔

اسکوٹر سواروں کا تو وہ خاص خیال رکھتی ہے، خاص کر ان کا جو تنہا ہوں، ان کے تمام کاغذات بڑی احتیاط سے چیک کرتی ہے اور ان میں ایک پر بھی اگر پولیس کو اعتراض ہو تو ان کو تھانے لے جانے کی دھمکی دیتی ہے مگر یہ دھمکی ... بھبکی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی چند سو روپے لے کر ان کو باعزت جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ سیکڑوں مجرم روز پکڑے جاتے ہیں مگر وہ کہاں جاتے ہیں اندھیر نگری کے بے وقوف عوام اکثر سوچتے رہ جاتے ہیں۔ اور بچو! اس اندھیر نگری کا محکمہ زکوٰۃ بھی بے حد فعال ہے، آپ تو جانتے ہی ہیں کہ زکوٰۃ کے مستحق کون ہیں اور اس کا استعمال کہاں کہاں ہو سکتا ہے۔ مگر آڈیٹر جنرل نے اس مقدس محکمے میں بھی 4 کروڑ کے خرد برد کو پکڑ لیا بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت کی جائے۔

بچو! یہ قصہ کافی طویل ہے مگر ہم تو آپ کو مختصر کر کے سنا رہے ہیں مگر اس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں جو آپ کو بتانا ضروری ہیں پہلی تو یہ کہ لوگ بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلاوجہ ہی اس نگری کے لوگوں کو بدنام کر رکھا ہے اور انتظام کو چوپٹ راج کہا جاتا ہے دوسری بات یہ کہ ان باہمت افراد نے دو انسانوں کو غربت، فاقہ کشی اور ذلت کی زندگی سے کتنی سہولت کے ساتھ نجات دلا دی اس کو کہتے ہیں خدمت خلق اور وہ بھی بلا امتیاز رنگ و بو۔ تو بچو! یہ ہے اندھیر نگری چوپٹ راج کی اصل کہانی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں