یاد کی رہ گزر

شوکت کیفی نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں وہ ان کے مطابق ’’نیم ترقی پسند‘‘ تھا۔


Rafiuzzaman Zuberi November 14, 2014

LOS ANGELES: ''یاد کی رہ گزر'' شوکت کیفی کی مختصر سی آپ بیتی ہے۔ پروفیسر قمر رئیس اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ''مجھے اس کتاب کا وہ حصہ کسی رومان پرور ناول کی طرح دلچسپ لگا جہاں شوکت کیفی صاحبہ نے اپنے آغاز عشق کی روداد رقم کی ہے۔'' یہ روداد یوں ہے کہ فروری 1947ء میں حیدر آباد دکن میں ترقی پسند ادیبوں کی کانفرنس تھی۔ کیفی اعظمی اس میں شرکت کے لیے آئے۔ رات کو مشاعرہ تھا۔

شوکت اور ان کے بڑے بھائی مشاعرہ سننے گئے۔ شوکت لکھتی ہیں ''میں نے بہت دیر سوچنے کے بعد بہت ہی خوب صورت کپڑے پہن رکھے تھے۔ سفید کار گے کا کرتا، سفید شلوار اور بہت ہی محنت سے رنگا گیا قوس و قزح کے رنگوں کا دوپٹہ۔ پیر میں سنہرے رنگ کا سلیم شاہی جوتا۔ اپنی دانست میں میں سب پر چھا جانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ جب کیفی نے پڑھنا شروع کیا تو میں مبہوت ہو کر انھیں دیکھنے لگی۔ دراز قد دبلا پتلا پرکشش نوجوان اور آواز خدا کی پناہ۔ اتنی گھن گرج ۔

یہ شوکت کے عشق کا آغاز تھا، پھر کیفی سے شادی اور پھر ایک طویل رفاقت جس میں سکھ اور دکھ ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ کیفی اعظمی پارٹی کے لیے وقف تھے اور شوکت کیفی کے لیے۔

شوکت کیفی نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں وہ ان کے مطابق ''نیم ترقی پسند'' تھا باپ آزاد خیال اور ماں نیک پرہیزگار اور شوہر کے آگے سر جھکا کر چلنے والی۔ یہ ایک مڈل کلاس گھرانہ تھا۔ باپ، ماں اور دس بچے، تنگی ترشی سے گزرتی ہوئی زندگی آگے بڑھتی رہی، بچے بڑے ہوتے گئے، دو بہنوں کی شادی ہو گئی، بڑے بھائی کی بھی، پھر والد کی ترقی ہو گئی، شاندار کوٹھی، گاڑی، ٹیلی فون، ملازم خدمت گار اس وقت شوکت میٹرک میں پڑھ رہی تھیں۔

کیفی جب ترقی پسند ادیبوں کی کانفرنس کے لیے حیدرآباد آئے تو ان کا قیام شوکت کے بہنوئی اختر حسن کے ہاں تھا جو خود ایک ترقی پسند شاعر اور ادیب تھے۔ ایک دن شوکت چپکے سے کیفی کے کمرے میں چلی گئیں، وہ اکیلے بیٹھے تھے، شوکت نے ان سے کہا، اپنا ہاتھ دکھائیے، کیفی نے سیدھا ہاتھ آگے کر دیا شوکت نے ان کا ہاتھ تھام لیا اور بولیں آپ کی محبت کی شادی ہو گی۔ کیفی ان کا منہ دیکھنے لگے، پھر شوکت نے ایک کاغذ اٹھایا، اس پر لکھا ''زندگی کے سفر میں اگر تم میرے ہم سفر ہوتے تو یہ زندگی اس طرح گزر جاتی جیسے پھولوں پر سے نسیم سحر کا ایک تیز جھونکا'' اور یہ کاغذ کیفی کی طرف بڑھا دیا۔ کیفی نے پڑھ کر ان کی طرف دیکھا اور کہا ''میری زندگی کی قسمت انھی آنکھوں میں ہیں۔''

شوکت کا عشق چھپا نہ رہ سکا۔ چہ میگوئیاں تو پہلے ہی شروع ہو گئیں تھیں، اب ان کا کیفی کے کمرے میں جانا، ان سے ملنا بند کر دیا گیا، کیفی چند روز بعد بمبئی چلے گئے، ایک نظم بہ عنوان ''شوکت کے نام'' ان کے لیے لکھ کر چھوڑ گئے اس کا پہلا شعر تھا۔

وہ چاند جس کی تمنا تھی میری راتوں کو

تم ہی وہ چاند ہو اس چاند سی جبیں کی قسم

شوکت لکھتی ہیں ''اتنی حسین نظم میں نے زندگی میں پہلی بار پڑھی تھی۔ یہ نظم پڑھتے ہی میں نے وہیں پیڈ لیا اور دیوانوں کی طرح اوپر چھت پر پہنچ گئی اور کیفی کو بے ساختگی سے خط لکھا ''کیفی مجھے تم سے محبت ہے، بے پناہ محبت،، دنیا کی کوئی طاقت مجھے تم تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی، پہاڑ، دریا، سمندر، لوگ، آسمان، فرشتے، خدا اور پتہ نہیں کیا کیا۔''

کیفی کا فوراً ہی جواب آیا ''تمہارے خط کا ایک ایک حرف میرے اندر اس طرح جذب ہو رہا ہے جیسے پہلی بارش کے قطرے پیاسی زمین میں جذب ہو جاتے ہیں'' اس کے بعد خطوط کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پھر ایک دن شوکت نے اپنے باپ سے صاف صاف کہہ دیا کہ ''میں صرف کیفی سے شادی کروں گی ورنہ کسی سے نہیں۔''

شوکت کے والد نے یہ سن کر بیٹی سے کہا کہ ٹھیک ہے میں تمہیں ابھی لے چلتا ہوں، وہاں کیفی کی زندگی دیکھ کر فیصلہ کرو کہ کیا چاہتی ہو۔ اگر تمہیں ان کی زندگی پسند آئی تو میں وہیں تمہاری شادی کر دوںگا۔ ماں اور بہن بھائیوں کو بتائے بغیر۔

شوکت جو گھر میں پیار سے موتی کہلاتی تھیں اپنے والد کے ساتھ بمبئی پہنچیں۔ کیفی اعظمی کمیونسٹ پارٹی کے کمیون میں رہتے تھے وہ پارٹی کے کل وقتی ورکر تھے۔ شوکت کمیون پہنچیں، کیفی ساتھ تھے، ان کا کمرہ دیکھا جس کا حال وہ لکھتی ہیں ''ایک چھوٹا سا کمرہ جس میں ایک جھلنگا سا بان کا پلنگ، اس پر ایک دری، گدا، چادر، تکیہ، ایک طرف چھوٹی سی میز اس پر کتابوں اور اخباروں کا ڈھیر، چائے کا مگ اور ایک گلاس مجھے اس کمرے کی سادگی پر بہت پیار آیا۔ میں نے دل ہی دل میں کہا، ٹھہر جاؤ، میں اس کمرے کو اتنا خوبصورت بنا دوں گی کہ اس کی قسمت ہی بدل جائے گی۔''شوکت کے والد نے ان سے پوچھا کہ کیا اب بھی وہ کیفی سے شادی کرنا چاہتی ہیں، کہیں ایسا تو نہیں بعد میں کچھ اور چاہیں، شوکت نے جواب دیا ''ابا جان، میرا فیصلہ اٹل ہے۔''

دوسرے دن شوکت کا کیفی سے نکاح ہو گیا، سجاد ظہیر اور ان کی بیوی رضیہ کے گھر تقریب شادی میں بہت سے ترقی پسند شاعر، ادیب موجود تھے، جوش، مجاز، کرشن چندر، ساحر، مہندر ناتھ، زیڈ اے بخاری، عصمت چغتائی، سردار جعفری، میراجی، وشوامتر عادل سب ہی تھے۔

شوکت اس شام کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں ''نکاح کے بعد شاعری شروع ہوئی۔ پھر مہدی منش نے شرارت سے کہا۔ جوش صاحب! حیدرآباد کے رواج کے مطابق دولہا کے باپ کے سر پر افشاں ملی جاتی ہے، اس وقت تو کیفی کے باپ آپ ہی ہیں۔ معصوم جوش صاحب تیار ہو گئے اور مہدی، منش اور اشفاق بیگ سب نے مل کر ان کے گنجے سر پر خوب افشاں ملی، سب لوگ خوب ہنسے، مٹھائی تقسیم ہوئی، غرض شام بہت اچھی گزری اور ہماری نئی زندگی کا آغاز ہوا''

شوکت اور کیفی اعظمی کی یہ رومانوی رفاقت پچپن سال برقرار رہی تا آنکہ لمبی بیماری کے بعد کیفی 10 مئی 2002ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

کیفی کے بغیر زندگی بے کیف ہوگئی، شوکت لکھتی ہیں ''ہر روز صبح ہوتی ہے، چڑیاں چہچہاتی ہیں، کبھی بادل گھر کر آجاتے ہیں، کبھی بارش کی پھوار اندر ورانڈے میں آ جاتی ہیں، روز کی طرح ہمارا ملازم ونود میز پر چائے کی ٹرے لا کر رکھ دیتا ہے لیکن سامنے کی کرسی خالی ہے۔ اس پر میرے کیفی نہیں ہیں، جو میرے ہاتھ کی بنی ہوئی چائے کی پیالی کے انتظار میں اپنی کمزوری کے باوجود کرسی پر آ کر بیٹھ جاتے تھے اور اپنے کانپتے ہاتھوں سے پیالی لے کر تشکر آمیز نظروں سے مجھے دیکھتے تھے اور چائے اس طرح پیتے تھے گویا امرت پی رہے ہوں، تمام دن میں یہی لمحے میرے لیے سب سے خوب صورت، پر سکون اور طاقت بخش ہوتے تھے۔''

''یاد کی اس رہ گزر'' میں جیسا کہ پروفیسر قمر رئیس اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ''تاریخ کا ایک انقلابی عہد، ایک انقلاب آفریں نظریہ، انقلابی دانشوروں، ادیبوں اور آرٹسٹوں کی ایک متحرک جماعت شانے سے شانہ ملائے، سانس لیتی، خواب دیکھتی، نعرے لگاتی اور قدم بہ قدم بڑھتی نظر آتی ہے۔

شوکت کیفی نے جہاں اس انقلابی عہد کے نقوش ابھارے ہیں وہاں حیدرآباد کے کلچر بھی بڑی حسرت سے ذکر کیا ہے، وہ بتاتی ہیں کہ حیدرآباد کے اس کلچر میں بہت ہی خوب صورت، دلچسپ اور رومانٹک باتیں تھیں مثلاً لڑکیاں سرد ہو کر مختلف قسم کی جڑی بوٹیوں کو جو انتہائی خوشبو دار ہوتی تھیں، انگاروں پر ڈال کر اس کا دھواں بالوں میں لیتی تھیں جس کی خوشبو ایک ہفتے تک سر میں بسی رہتی تھی۔ دھواں لینے کے لیے طرح طرح کی سوراخوں والی ٹوکریاں بنائی جاتی تھیں جو شادیوں میں بھی دی جاتی تھیں۔

لڑکیاں رنگ برنگے دوپٹوں میں بہت حسین لگتی تھیں، ان میں سے آتی ہوئی بھینی بھینی کیوڑے یا خس کی خوشبو انھیں کسی دوسری دنیا کی مخلوق بنا دیتی تھی، حیدرآباد کی چوڑیاں جنھیں جوڑے کہا جاتا تھا بہت مشہور تھیں، کھانے بے حد لذیذ ہوتے تھے خاص طور پر بگھارے بیگن، مرچوں کا کٹھا سالن، ٹماٹر کا کٹ، گو شت کی کڑھی، حیدرآباد میں رنگوں کے نام انگریزی میں نہیں لیے جاتے تھے، اردو میں ان کے اپنے خوبصورت نام ہوتے تھے، ایک کپڑا جو ''کارگا'' کہلا تا تھا بہت ہی خوبصورت ہوتا تھا۔ دوپٹے کی ململ ان دنوں دو آنے گز تھی اور بہترین شیفون کی ساڑھی دس روپے میں مل جاتی تھی اور سونا چالیس روپے تولہ تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں