مٹ شریف کا میلہ

سینٹرل ایشیا سے لے کر مشرق بعید تک یہ میلے زیادہ تر بزرگوں اور پیروں کے مزارات پر لگتے ہیں۔


منظور ملاح November 14, 2014

MULTAN: کسی بھی خطے میں میلے اس علاقے کی ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں، یہ میلے صدیوں سے لوگوں کی تفریح کا ذریعہ بھی ہیں۔ سینٹرل ایشیا سے لے کر مشرق بعید تک یہ میلے زیادہ تر بزرگوں اور پیروں کے مزارات پر لگتے ہیں، لیکن آہستہ آہستہ اب یہ میلے بھی ثقافتی زوال کی طرف جا رہے ہیں، خاص طور پر شہروں میں لگنے والے تو کمرشلائزیشن کا نظارہ پیش کرتے ہیں، یعنی تھیٹر اور بازار وغیرہ۔

لیکن اب بھی دور دراز علاقوں میں جہاں روڈ نہ پہنچ سکے ہیں، نہ جدید ٹیکنالوجی کے کرشمات، وہاں آپ کو خالص ثقافتی جھلک عقیدت کے ساتھ ملے گی۔ ایسا ہی میلہ سانگھڑ سے کوئی ڈیڑھ دو سو کلومیٹر دور صحرائے تھر میں انڈیا کے راجستھانی بارڈر کے ساتھ لگتا ہے، جسے ''مٹ شریف کا میلہ'' کہتے ہیں۔

جس کے متعلق یہ مشہور ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے ایک سید زادہ سندھ کے بیراجی علاقوں سے یہاں علم کی شمع روشن کرنے کے لیے لایا گیا، اور پھر مقامی لوگوں میں سے شادی کی اور ہمیشہ کے لیے یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ کیونکہ یہ ایک دور دراز صحرائی علاقہ تھا، جہاں سے کبھی کبھار اجنبی مسافر گزرتے تھے، دور دور تک کوئی آبادی بھی نہ تھی، اس لیے یہاں کنویں سے پانی بھر کر مٹکوں میں رکھا جاتا تھا، اس لیے اسے مٹ شریف کا میلہ کہتے ہیں، یہ میلہ ہر سال محرم کی چودھویں کے چاند کے موقعے پر لگتا ہے۔

اس بار میں، میرے شفیق دوست نما افسر یار محمد بالادی اور مقامی دوستوں کے ساتھ جب اس سفید ریت والے ریگستان میں سفر کرنے لگے تو ہماری جیپ پانی کی لہروں میں تیرتی ہوئی کشتی کی طرح چلتی گئی، یہاں کی ریت بہت باریک ہوتی ہے، اسی لیے یہاں صرف فور ویل گاڑیاں اس ریت پر پھستلی جاتی ہیں۔ مجھے اس لمحے سندھ کی لوک فنکارہ مائی بھاگی کا گایا ہوا گیت یاد آ گیا کہ میرا دل بھرے ہوئے پانی سے تیرتا جا رہا ہے، پانی کی لہروں سے ٹکراتا جا رہا ہے اور صرف محبوب محبوب کر رہا ہے۔

جب ہم نے پانی کے چھوٹے سے بہاؤ کو کراس کیا تو آرچر راجڑ بتانے لگے کہ نارا کینال میں سے آخری واٹر کورس نکلتا ہے، جس سے آگے صرف ریت ہی ریت ہے۔ قریب ہی میں اسکول کی بلڈنگ نظر آرہی تھی، جس کے بارے میں پتہ چلا کہ یہاں بھی کئی سال سے دور کے رہنے والے استاد رہ رہے ہیں اور اسکول ٹائم کے بعد ترخان کا کام بھی کرتے ہیں۔ مجھے لگا کہ اس مٹی میں کوئی کشش تو ہے جو ہر آنے والے کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔

اب ہم اڑتی ہوئی ریت، حسرت سے تکتے ہوئے پودے، خاموش آسمان اور راستے میں گزرنے والی گاڑیاں جن میں کھچا کھچ بھرے لوگ، کچھ چلتی جا رہی تھیں، تو کوئی اوور لوڈ ہونے کی وجہ سے ریت میں دھنسی ہوئی تھیں، اور کہیں کہیں ریت پر اپنی کمر کو کپڑا کس کر بیٹھے ہوئے لوگ جانے کے انتظار میں گاڑیوں کو اداس نگاہوں سے تک رہے تھے۔ اس دن ٹیکسی والوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں، صرف قریبی نارا والے علاقے سے چار سو سے پانچ سو فی کس کرایہ لیا جاتا ہے، اس لیے فور ویل جیپیں، ڈاٹسن اور ٹریکٹر ٹرالے بیراجی علاقوں سے بھرے آتے ہیں۔

مرد، عورتیں، بوڑھے، بچے کئی لوک ثقافت کے رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ شروع میں تو چند گھروں والے گاؤں نظر آتے ہیں، لیکن آگے صرف سنسان صحرا، بندا نہ بندے کی ذات۔ یہ بھی پتہ چلا کہ یہاں کی روایت ہے کہ اگر رات میں کوئی میلے سے واپس آتا ہے تو اس صحرا میں بھٹک جاتا ہے، ہم نے ہنستے ہوئے کہا کہ آج رات ہم ضرور بھٹکیں گے اور سچ بات یہ ہے کہ واپسی میں ہم بھٹکتے بھٹکتے بچ گئے۔ یہاں پچاس ساٹھ فٹ زیر زمین پانی ملتا ہے جو اکثر کڑوا ہوتا ہے، البتہ کچھ جگہوں پر میٹھا پانی بھی پایا جاتا ہے جو انسانوں اور جانوروں کے پینے کے لیے سیمنٹ سے بنے ہوئے چھوٹے سے حوض یا کنویں میں محفوظ کیا جاتا ہے، جسے مقامی زبان میں تڑ کہتے ہیں، اور اس پورے ویران راستے میں ایک ہی تڑ ''چھاھو'' آتا ہے۔ یہاں اکثر آپ کو گاؤں کے چرتے ہوئے ٹولے ملیں گے۔

راستے میں ریت کی بڑی بڑی چڑھائیاں آتی ہیں، جن پر چڑھنے کے وقت گاڑیوں کو قابو میں رکھنا پڑتا ہے، ورنہ پتلی ریت میں کوئی بھی حادثہ ہو سکتا ہے۔ بل کھاتے ہوئے ریت کے راستے سے گھومتے ہوئے مغرب کے وقت میلے کے مقام پر پہنچے، گاڑی سے اتر کر چند قدم آگے ہی گئے تو پتا چلا کہ گدی نشین خود کھڑے ہوکر لوگوں کو خوش آمدید کر رہے ہیں۔ سفید بافتے کی شلوار قمیض، سر پر پگڑی، مونچھوں اور داڑھی کے بال ترتیب سے ایک ہی انداز میں بڑھے ہوئے، ہاتھ میں چھوٹی سی چھڑی، ہر آنے والا ہاتھ ملا کر، گلے مل کر، تو کوئی پاؤں پر ہاتھ رکھ کر ملتا رہا، کوئی دعا منگواتا رہا، تو کوئی مٹھائی پر دم کرواتا رہا۔

ریتی کے اونچے ٹیلوں کے بیچ ریت کا میدان، پیلو کے درخت کے نیچے ڈھکی درگاہ، آس پاس بنے ہوئے کچھ پکے ڈیرے اور کئی سارے تنکوں کے بنے ہوئے لوک انداز کے گول گھر (چؤں رو)، چھوٹی سی مسجد، چاند کی مدھم روشنی، ہزاروں افراد کا مجموعہ، شمال اور مغرب کے اونچے ٹیلوں پر باوقار انداز میں کھڑی گاڑیاں، نیچے میدان میں بھی کھڑے کئی ٹریکٹر ٹرالے، عقیدت میں آنے والے لوگ، جنوب کے اونچے ٹیلوں پر کھڑے پیلو کے درختوں میں بندھے اونٹ جن پر راجستھان پر لگنے والے بارڈر کے علاقوں سے آنے والے لوگ موجود تھے۔ پکے ڈیروں میں آنے والے وی آئی پیز کے آرام اور کھانے کے لیے بستروں اور چادروں کا بندوبست کیا گیا تھا، جب کہ تنکوں کے گھروں میں کھانے پینے کا سامان صحرا سے آئے ہوئے مرد اور عورتیں موجود تھیں۔ یہاں بھی مجھے لطیف سائیں یاد آ گئے ''جس زمین پر پرندوں کے پیر بھی نہ پائے جاتے ہوں وہاں بھی آگ جلاتا ہوا انسان موجود ہے۔''

ایک جگہ ایک ہی وقت میں تیس چالیس گوشت کے سالن کی پکتی ہوئی دیگیں، تھوڑا سا آگے بڑے توؤں پر پکی ہوئی روٹیاں، اور آگے بڑے پتیلوں میں پکتی ہوئی چائے، ایک طرف وی آئی پیز کے لیے لگے ہوئے شامیانے تو دوسری طرف تھر کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کے لیے سیمنٹ کی بنی صفیں، پھر بھی لوگ بڑے نظم و ضبط کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے اور چائی کی چسکیاں لیتے ہوئے، ہلچل نہ ہنگامہ۔ صحرا کے قریبی گاؤں کے لوگوں کو میلے میں الگ الگ ذمے داریاں دی جاتی ہیں، جو وہ رضاکارانہ طور پر سر انجام دیتے ہیں، ایک گاؤں کے لوگ روٹی پکانے پر تو دوسرے چائے بنانے پر مقرر ہوتے ہیں۔

یہاں کے صحرا میں سے ہر آدمی اپنے ساتھ گائے، بکرا یا بھیڑ وغیرہ ضرور لاتا ہے، اس لیے یہاں کوئی امیر ہو یا غریب جتنی بار چاہے مفت میں کھا پی سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہاں دور دراز سے کثیر تعداد میں آنے والے لوگ اس لیے حاضری دیتے ہیں کہ ان کے دلوں میں عقیدت ہوتی ہے اور دوسرا قحط زدہ بیابان کے غریب لوگ جنھوں نے شاید پورے سال میں گوشت کا سالن بھی نہ دیکھا ہو۔ ہر طرف سر پر سفید ٹوپیاں پہنے ہوئے لوگوں کا دلکش منظر، چاند کی شفاف روشنی میں گالوں پر ہاتھ رکھ کر گاتی ہوئی عورتیں اور بچے مولود گا رہے تھے، ایسی کوئل جیسی میٹھی آواز اس اداس صحرا میں کیسی بھاتی ہوگی؟ ذرا تصور کریں۔

یہاں کنڈی کے بہت سارے درخت موجود تھے، جو اب بیراجی علاقوں میں ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ پرانے وقتوں میں ان کے چھلکوں کو بخار کے مریض کے جسم پر باندھا جاتا تھا، جسے میڈیکل انتھراپالوجی کہتے ہیں۔ اس تھر میں کچھ فاصلے پر انسانوں اور جانوروں کو قابو کرنے والے Moving Dunes، کنڈی اور پیلو کے درخت کے جھرمٹ میں نیلے پانی کی جھیل، جس کے کنارے اتنی دلدل پائی جاتی ہے کہ کوئی بھی اجنبی آدمی یا جانور اس میں دھنس سکتا ہے۔

پاکستان بننے کے بعد 80ء کی دہائی تک ڈھٹ کا یہ علاقہ اسمگلروں کا روٹ بھی رہا ہے، لیکن اب یہاں کے گاؤں موؤ کے ٹھاکر بھی اداس نظر آتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی ایک ہی خواہش ہے کہ جس طرح بارڈر کے اس پار روڈ، بجلی، میٹھے پانی کی لائنیں، اسکول، اسپتال اور لہلہاتے کھیت نظر آتے ہیں، کاش! ایسا سب کچھ ان کے پاس یہاں بھی ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔