تعلیمی ادارے اور اسپتال
علم کے لیے اسکول، یونیورسٹیاں اور صحت و تندرستی کے لیے بہترین علاج گاہیں، ہماری شدید ضرورتوں میں سے ہیں۔
علم ہمیشہ سوچ کے دروازے کھول دیتا ہے اور جیسے جیسے ہم علم حاصل کرتے جاتے ہیں زیادہ باشعور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ زیادہ بہتر طرز عمل اختیار کرتے ہیں اور زیادہ بہتر سوچ سکتے ہیں، بہ نسبت اس کے جو علم نہ رکھتا ہو یا علم حاصل کرنے کی خواہش نہ رکھتا ہو۔
کوئی شک نہیں کہ زندگی کے تجربے بھی ایک استاد کی طرح ہوتے ہیں اور بہت ساری اونچ نیچ ہمیں سکھاتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے اور اتنا ضروری کہ اگر ہم مسلمان ہیں اور دین اسلام سے تعلق رکھتے ہیں کہ تو ہم سے کہا جاتا ہے کہ علم حاصل کرنا فرض ہے۔ اور یہ فرمان عالی شان رسول پاکؐ کا ہے۔ یعنی علم کو ہماری زندگی کا ضروری حصہ سمجھا گیا۔ اچھی بات یہ ہے کہ علم حاصل کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔
یہاں تک کہ قید خانوں میں بھی قیدیوں کے لیے اگر ان کی خواہش ہو تو پڑھائی کا انتظام کیا جاتا ہے، اور بہت سارے قید میں ہوتے ہوئے گریجویٹ کی ڈگریاں لے کر رہا ہوتے ہیں۔ جتنے تعلیم یافتہ شہری ہوں گے اتنا ہی مہذب معاشرہ ہو گا۔ علم کے ساتھ جو چیز کسی بھی معاشرے کو مہذب بنانے میں بہت زیادہ مددگار ہوتی ہے وہ ہے انسانوں کی صحت ہے۔
علم کے لیے اسکول، یونیورسٹیاں اور صحت و تندرستی کے لیے بہترین علاج گاہیں، ہماری شدید ضرورتوں میں سے ہیں۔ اگر ہم اپنے ملک میں، اپنے شہریوں میں، گاؤں میں، دوسری ضروریات کے ساتھ ان دو ضرورتوں پر زیادہ توجہ دیں تو یہ دونوں ضرورتیں ہمارے حال اور مستقبل کو بہترین بنا سکتی ہیں۔ مگر ہماری تاریخ ہمیں کچھ اور بتاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ غربت و افلاس، بے روزگاری نے یہاں اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ علاج و معالجے کی بہترین سہولیات فراہم کرنا ہماری گورنمنٹ کے لیے کوئی ایسا مشکل کام نہیں کہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہو۔ مگر ایسا کیوں نہیں ہو رہا ہے یہ بھی ایک سوال ہے، لیکن جو لوگ علم سے بہرہ ور ہیں وہ یقیناً اس سوال کا جواب جانتے ہیں اور تجزیہ بھی کرتے رہتے ہیں۔
پولیو جیسا مرض جو پوری دنیا سے تقریباً ختم ہو چکا ہے صرف ان ممالک کے علاوہ جو غربت و افلاس میں بہت زیادہ مبتلا ہیں یا جہاں تعلیم کا فقدان ہے، اس مرض کے کئی کیسز پاکستان میں تیزی سے نظر آ رہے ہیں، پشاور میں کئی پولیو کے مریض پائے گئے۔
پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے جس کی بہت زیادہ آبادی گاؤں اور دیہاتوں میں رہائش پذیر ہے۔ اور کتنی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان اپنے بجٹ کا 1.5 فیصد صحت و صفائی پر رکھے، اس کے ساتھ ایک اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ پنجاب میں ہر سال 1400 ڈاکٹر کوالیفائی کرتے ہیں اور ہر سال 70,000 ہزار بچے بھی پنجاب میں پیدا ہوتے ہیں، یعنی آپ اندازہ لگائیں کہ 1400 معالج اور 70,000 بچوں کی پیدائش۔ دیہی علاقوں میں صحت کی صورتحال بے انتہا تشویش ناک ہے، اور حد تو یہ کہ پینے کے صاف پانی میں مضر صحت پانی بھی مل جاتا ہے، جس کے پینے سے کئی امراض پیدا ہو رہے ہیں اور کئی اموات بھی ہو جاتی ہیں۔
2000ء سے 2004ء تک کے اعداد و شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ ہر سال پاکستان میں 445,000 یونیورسٹی گریجویٹ ہو کر نکلتے ہیں اور 10,000 کمپیوٹر سائنس گریجویٹ، اس کے باوجود پاکستان دنیا میں ناخواندگی میں اونچی سطح پر ہے۔ یہ تو ایک ہلکی سی نظر تھی کہ پاکستان میں صحت و صفائی اور تعلیم کی صورتحال کیا ہے۔ لیکن یقین جانیے جس دن سے ہم نے ان دونوں پر بہت زیادہ توجہ دینی شروع کی تو ہم اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی زندگی بدل دیں گے۔ کتنی بدقسمتی ہے ہماری کہ ہم ابھی تک صحت اور تعلیم کی اہمیت کو نہیں سمجھ پائے یا پھر ہم نے عوام کو باشعور بنانے کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔
لیکن میڈیا نے جب سے اپنے پر پھیلائے ہیں اور گھر گھر پہنچ کر لوگوں کو جو آگاہی دی ہے یقیناً اب لوگوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے کہ وہ اپنے مسائل کو کیسے حل کریں اور کیا کچھ ان کے لیے ضروری ہے اور ان کو کس طرح اپنی زندگی کو بہتر بنانا ہو گا۔ لیکن ہماری گورنمنٹ کو، ہمارے حکمرانوں کو بہت سنجیدگی کے ساتھ تمام شہریوں کے لیے چاہے وہ شہروں میں ہوں یا دیہاتوں میں، تعلیم کے مواقع اور صحت کی سہولتیں یکساں دینی ہوں گی، بہتر اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کا جال پورے ملک میں پھیلانا ہو گا، یکساں نصاب بنانا ہو گا، چاہے وہ سندھ کے لیے ہو یا پنجاب کے لیے، خیبرپختونخوا کے لیے یا بلوچستان کے لیے۔ بہترین طبی سہولیات، خاص طور پر زچہ بچہ کے لیے بہترین انتظامات ہمارے وقت کی ضرورت اور ہمارے حال اور مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے۔
ہمارا معاشرہ جس تیزی سے بکھراؤ کی طرف جا رہا ہے اور تمام ہی عمر کے لوگوں میں ایک احساس غیر ذمے داری جس تیزی سے بڑھ رہا ہے تو اس کو سمیٹنے کے لیے، اپنی بنیادوں کو مضبوط بنانے کے لیے اور ایک بہترین نسل کے لیے یقیناً ہمیں بہت مضبوط قدم اٹھانے ہوں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے آپ کو اور اپنے اندر تمام موجود رہنماؤں کو، تمام کارکنوں کو نئے زمانے سے نئی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنا بہت ضروری ہے۔ پرانے، دقیانوسی خیالات، جبر و تشدد، اور اسی طرح کی تمام لغویات سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہو گا۔ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی رسائی، اور اپنے شہریوں کو بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا۔
پاکستان جیسے ترقی کی طرف رواں دواں ملک کے لیے بہت ضروری ہے کہ حکومت اپنے بجٹ میں تعلیم اور صحت دونوں کے لیے اعلیٰ بجٹ رکھے اور جہاں تک ممکن ہو عوام کے لیے تعلیم حاصل کرنے کی درسگاہوں کو محفوظ اور کارآمد بنایا جائے نہ کہ وہ اسکول بنا دیے جائیں جوکہ باہر بورڈ تو اسکول کا ہو مگر اندر گائے، بھینسوں کی پرورش ہو رہی ہو۔
کوئی شک نہیں کہ زندگی کے تجربے بھی ایک استاد کی طرح ہوتے ہیں اور بہت ساری اونچ نیچ ہمیں سکھاتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے اور اتنا ضروری کہ اگر ہم مسلمان ہیں اور دین اسلام سے تعلق رکھتے ہیں کہ تو ہم سے کہا جاتا ہے کہ علم حاصل کرنا فرض ہے۔ اور یہ فرمان عالی شان رسول پاکؐ کا ہے۔ یعنی علم کو ہماری زندگی کا ضروری حصہ سمجھا گیا۔ اچھی بات یہ ہے کہ علم حاصل کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔
یہاں تک کہ قید خانوں میں بھی قیدیوں کے لیے اگر ان کی خواہش ہو تو پڑھائی کا انتظام کیا جاتا ہے، اور بہت سارے قید میں ہوتے ہوئے گریجویٹ کی ڈگریاں لے کر رہا ہوتے ہیں۔ جتنے تعلیم یافتہ شہری ہوں گے اتنا ہی مہذب معاشرہ ہو گا۔ علم کے ساتھ جو چیز کسی بھی معاشرے کو مہذب بنانے میں بہت زیادہ مددگار ہوتی ہے وہ ہے انسانوں کی صحت ہے۔
علم کے لیے اسکول، یونیورسٹیاں اور صحت و تندرستی کے لیے بہترین علاج گاہیں، ہماری شدید ضرورتوں میں سے ہیں۔ اگر ہم اپنے ملک میں، اپنے شہریوں میں، گاؤں میں، دوسری ضروریات کے ساتھ ان دو ضرورتوں پر زیادہ توجہ دیں تو یہ دونوں ضرورتیں ہمارے حال اور مستقبل کو بہترین بنا سکتی ہیں۔ مگر ہماری تاریخ ہمیں کچھ اور بتاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ غربت و افلاس، بے روزگاری نے یہاں اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ علاج و معالجے کی بہترین سہولیات فراہم کرنا ہماری گورنمنٹ کے لیے کوئی ایسا مشکل کام نہیں کہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہو۔ مگر ایسا کیوں نہیں ہو رہا ہے یہ بھی ایک سوال ہے، لیکن جو لوگ علم سے بہرہ ور ہیں وہ یقیناً اس سوال کا جواب جانتے ہیں اور تجزیہ بھی کرتے رہتے ہیں۔
پولیو جیسا مرض جو پوری دنیا سے تقریباً ختم ہو چکا ہے صرف ان ممالک کے علاوہ جو غربت و افلاس میں بہت زیادہ مبتلا ہیں یا جہاں تعلیم کا فقدان ہے، اس مرض کے کئی کیسز پاکستان میں تیزی سے نظر آ رہے ہیں، پشاور میں کئی پولیو کے مریض پائے گئے۔
پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے جس کی بہت زیادہ آبادی گاؤں اور دیہاتوں میں رہائش پذیر ہے۔ اور کتنی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان اپنے بجٹ کا 1.5 فیصد صحت و صفائی پر رکھے، اس کے ساتھ ایک اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ پنجاب میں ہر سال 1400 ڈاکٹر کوالیفائی کرتے ہیں اور ہر سال 70,000 ہزار بچے بھی پنجاب میں پیدا ہوتے ہیں، یعنی آپ اندازہ لگائیں کہ 1400 معالج اور 70,000 بچوں کی پیدائش۔ دیہی علاقوں میں صحت کی صورتحال بے انتہا تشویش ناک ہے، اور حد تو یہ کہ پینے کے صاف پانی میں مضر صحت پانی بھی مل جاتا ہے، جس کے پینے سے کئی امراض پیدا ہو رہے ہیں اور کئی اموات بھی ہو جاتی ہیں۔
2000ء سے 2004ء تک کے اعداد و شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ ہر سال پاکستان میں 445,000 یونیورسٹی گریجویٹ ہو کر نکلتے ہیں اور 10,000 کمپیوٹر سائنس گریجویٹ، اس کے باوجود پاکستان دنیا میں ناخواندگی میں اونچی سطح پر ہے۔ یہ تو ایک ہلکی سی نظر تھی کہ پاکستان میں صحت و صفائی اور تعلیم کی صورتحال کیا ہے۔ لیکن یقین جانیے جس دن سے ہم نے ان دونوں پر بہت زیادہ توجہ دینی شروع کی تو ہم اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی زندگی بدل دیں گے۔ کتنی بدقسمتی ہے ہماری کہ ہم ابھی تک صحت اور تعلیم کی اہمیت کو نہیں سمجھ پائے یا پھر ہم نے عوام کو باشعور بنانے کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔
لیکن میڈیا نے جب سے اپنے پر پھیلائے ہیں اور گھر گھر پہنچ کر لوگوں کو جو آگاہی دی ہے یقیناً اب لوگوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے کہ وہ اپنے مسائل کو کیسے حل کریں اور کیا کچھ ان کے لیے ضروری ہے اور ان کو کس طرح اپنی زندگی کو بہتر بنانا ہو گا۔ لیکن ہماری گورنمنٹ کو، ہمارے حکمرانوں کو بہت سنجیدگی کے ساتھ تمام شہریوں کے لیے چاہے وہ شہروں میں ہوں یا دیہاتوں میں، تعلیم کے مواقع اور صحت کی سہولتیں یکساں دینی ہوں گی، بہتر اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کا جال پورے ملک میں پھیلانا ہو گا، یکساں نصاب بنانا ہو گا، چاہے وہ سندھ کے لیے ہو یا پنجاب کے لیے، خیبرپختونخوا کے لیے یا بلوچستان کے لیے۔ بہترین طبی سہولیات، خاص طور پر زچہ بچہ کے لیے بہترین انتظامات ہمارے وقت کی ضرورت اور ہمارے حال اور مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے۔
ہمارا معاشرہ جس تیزی سے بکھراؤ کی طرف جا رہا ہے اور تمام ہی عمر کے لوگوں میں ایک احساس غیر ذمے داری جس تیزی سے بڑھ رہا ہے تو اس کو سمیٹنے کے لیے، اپنی بنیادوں کو مضبوط بنانے کے لیے اور ایک بہترین نسل کے لیے یقیناً ہمیں بہت مضبوط قدم اٹھانے ہوں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے آپ کو اور اپنے اندر تمام موجود رہنماؤں کو، تمام کارکنوں کو نئے زمانے سے نئی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنا بہت ضروری ہے۔ پرانے، دقیانوسی خیالات، جبر و تشدد، اور اسی طرح کی تمام لغویات سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہو گا۔ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی رسائی، اور اپنے شہریوں کو بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا۔
پاکستان جیسے ترقی کی طرف رواں دواں ملک کے لیے بہت ضروری ہے کہ حکومت اپنے بجٹ میں تعلیم اور صحت دونوں کے لیے اعلیٰ بجٹ رکھے اور جہاں تک ممکن ہو عوام کے لیے تعلیم حاصل کرنے کی درسگاہوں کو محفوظ اور کارآمد بنایا جائے نہ کہ وہ اسکول بنا دیے جائیں جوکہ باہر بورڈ تو اسکول کا ہو مگر اندر گائے، بھینسوں کی پرورش ہو رہی ہو۔