حسن ناصر کا انقلابی نظریہ
حسن ناصر نے ایک ایسے احتجاجی مظاہرے کی قیادت کی جس میں شریک طلبا کی تعداد 25 ہزار تھی۔
2 اگست 1928 کو نواب محسن الملک کی نواسی زہرہ خاتون کی کوکھ سے جنم لینے والے حسن ناصر کے والد کا نام علمبردار حسین تھا، حسن ناصر نے ابتدائی تعلیم کا آغاز حیدرآباد گرائمر اسکول، سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرکے کیا، جب کہ FAعلی گڑھ کالج سے کیا، مزید تعلیم کے حصول کے لیے نظام کالج حیدرآباد دکن میں داخلہ لے لیا، یہ ذکر ہے 1946 کا، اسی برس حسن ناصر نے طلبا سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی تحریکوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔
سب سے پہلے جس احتجاجی تحریک میں حصہ لیا وہ آزاد ہندو فوج کے رہنماؤں کی رہائی کے لیے چلائی جانے والی احتجاجی تحریک تھی، یہ تذکرہ ہے مارچ 1946 کا جب حسن ناصر کی عمر تھی فقط 17 برس 7 ماہ اور جب 31 جولائی 1947 کو حسن ناصر نے ایک ایسے احتجاجی مظاہرے کی قیادت کی جس میں شریک طلبا کی تعداد 25 ہزار تھی اور یہ طلبا برصغیر کی آزادی و خود مختاری کے لیے احتجاجی مظاہرہ کررہے تھے جب کہ اس وقت حسن ناصر کی عمر 18 برس 11 ماہ تھی ۔
1948 کے آخر میں حسن ناصر نے اعلیٰ ترین تعلیم کے حصول کے لیے حیدرآباد دکن سے لندن کا سفر اختیار کیا مگر چند یوم کے لیے کراچی میں اپنے عزیزوں کے پاس ٹھہر گئے، مقصد ان عزیزوں سے ملاقات تھا۔ کراچی میں حسن ناصر کی ملاقات کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل سید سجاد ظہیر سے ہوئی جو حسن ناصر کے قریبی عزیزوں میں سے تھے اور انہی کے اصرار پر حسن ناصر نے حصول تعلیم کا لندن جانے کا اپنا پروگرام ملتوی کردیا اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی رکنیت حاصل کی اور پارٹی امور نمٹانے میں مصروف ہوگئے۔
1948 کے آخر اور 1949 کے شروع میں جب کراچی پورٹ ٹرسٹ و ٹراموے کے مزدوروں نے کامیاب ہڑتال کی اور تمام اہم مزدور رہنما گرفتار ہوگئے تو پارٹی کی تنظیم و قیادت کی ذمے داریاں حسن ناصر کے کاندھوں پر آن پڑی جنھیں حسن ناصر نے روپوش رہ کر بحسن و خوبی نبھایا۔ بعد ازاں وہ سندھ صوبائی کمیٹی کے سیکریٹری اور پارٹی کے سینٹرل سیکریٹریٹ کے ممبر بھی منتخب ہوگئے۔ 1951 میں دیگر پارٹی رہنماؤں سمیت گرفتار ہوئے اور بدنام زمانہ شاہی قلعہ لاہور میں مقید کردیے گئے۔
1952 میں رہا ہوکر دوبارہ پارٹی امور چلانے میں مصروف ہوگئے مگر 1954 میں جب کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد کردی گئی تو حسن ناصر پھر گرفتار ہوگئے اور ایک برس کے لیے جیل بھیج دیے گئے۔ سید سجاد ظہیر جوکہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل تھے ان کو جلاوطن کردیا گیا جب کہ حسن ناصر کو دوران اسیری ملک بدری کا پروانہ تھمادیا گیا، چنانچہ حسن ناصر کو بحالت مجبوری بھارت جانا پڑا مگر ایک برس کی ملک بدری مدت ختم ہونے پر پھر پاکستان آگئے۔
یہ 1956 کا زمانہ تھا مگر یہ پہلے سے بھی زیادہ کٹھن دور تھا کیوں کہ کمیونسٹ پابندی کا شکار ہوچکے تھے اور اب زیر زمین رہ کر پارٹی امور چلانے تھے، مگر باہمت حسن ناصر نے روپوش رہ کر اور تمام تر مشکلات کے باوجود پارٹی سرگرمیاں جاری رکھیں، جب کہ 1957 میں کمیونسٹ پارٹی کے دوستوں کے مشورے سے نیشنل عوامی پارٹی کے آفس سیکریٹری بنادیے گئے۔ یہ آفس ریڈیو پاکستان کی عمارت کے پاس تھا، نیشنل عوامی پارٹی میں ترقی پسند دانشور اکثریت سے شریک تھے، اس لیے نیشنل عوامی پارٹی کے لوگوں کی پو ری پوری کوشش یہ تھی کہ ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہو اور انتخابات کا تسلسل جاری رہے، لیکن اس وقت کے صدر اسکندر مرزا اور ان کے زیردست لوگ کسی صورت انتخابات کے حق میں نہ تھے۔
کیوں کہ اگر عام انتخابات ہوتے تو نیشنل عوامی پارٹی کے لوگ اگرچہ حکومت سازی تو نہ کرپاتے مگر ان لوگوں کی اسمبلی میں موجودگی کے باعث کوئی مغرب نواز مضبوط حکومت بھی تشکیل نہ ہوپاتی۔ یہی سبب تھا کہ 7 اکتوبر 1958 کو صدر اسکندر مرزا نے 1956 کا آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لاء لاگو کردیا جب کہ 20 روز بعد اس وقت کے بری فوج کے کمانڈر انچیف ایوب خان نے اسکندر مرزا کو چلتا کیا اور حکومتی امور اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ اب حسن ناصر و دیگر جمہوریت پسند لوگوں کے لیے حالات مزید کٹھن شکل اختیار کرچکے تھے کیوں کہ نیشنل عوامی پارٹی سمیت تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
بہرکیف حسن ناصر نے کسی بھی حالت میں اپنے آدرشوں سے انحراف نہیں کیا، انہی حالات میں حسن ناصر کو نمائش کراچی سے 6 اگست 1960 کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ کراچی میں گرفتاری کے دوران خفیہ ادارے کے لوگ حسن ناصر پر ہر روز بدترین تشدد کرتے ہیں اور یہ سلسلہ 38 روز تک جاری رہتا ہے اور بالآخر 13 ستمبر 1960 کو حسن ناصر کو لاہور کے شاہی قلعے میں منتقل کردیا جاتا ہے جہاں حکومت مخالف لوگوں کے ساتھ جو ذلت آمیز سلوک ہوتا تھا وہ سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،ان انسانیت سوز مظالم کے باوجود حسن ناصر کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی اور وہ چٹان کی مانند ڈٹے رہے۔ بدترین تشدد کا یہ سلسلہ 2 ماہ جاری رہا اور بالآخر 13 نومبر 1960 کو وحشیانہ و سفاکانہ طریقے سے حسن ناصر کو شہید کردیا گیا۔ شہید کرنے کے بعد بھی حسن ناصر پر اتنا تشدد کیا گیا کہ ان کی شکل بگاڑ دی گئی۔
ممکن تھا کہ حکومت کے اہلکاروں کے اس گھناؤنے جرم پر پردہ پڑا رہتا، مگر ترقی پسند ادیب عبداﷲ ملک نے حسن ناصر کی خبر روزنامہ امروز میں شائع کروادی۔ اس سلسلے میں جو مشکلات عبداﷲ ملک کو پیش آئیں وہ الگ داستان ہے۔ لاہور کے ایک وکیل محمود علی قصوری نے میجر اسحاق محمد کے کہنے سے سیکیورٹی ایکٹ کے تحت حسن ناصر کو حبس بے جا میں رکھنے کے خلاف ایک درخواست لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے حکم صادر فرمایا کہ حسن ناصر کو فی الفور عدالت میں پیش کیا جائے جس پر ہوم سیکریٹری نے جواب دیا کہ حسن ناصر نے 13 نومبر کو خودکشی کرلی ہے اور ایک مجسٹریٹ اس کی موت کی تحقیقات کررہا ہے۔
اس کے بعد قانونی معاملات چلتے رہے، ریٹائرڈ میجر اسحاق محمد و محمود علی قصوری قانونی جنگ لڑتے رہے اور حکومتی موقف کے برخلاف عدالت سے یہ فیصلہ لینے میں کامیاب ہوگئے کہ حسن ناصر کی لاش قبر سے نکال کر اس کا بھی معائنہ کیا جائے، چنانچہ 13 دسمبر 1960 کو میو اسپتال کے ڈاکٹر اکرام نے لاش کا پوسٹ مارٹم کیا۔ حسن ناصر کا مقدمہ ختم ہوگیا مگر حسن ناصر کا انقلابی نظریہ نہیں ختم ہوا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان ترقی پسند حسن ناصر کے انسان دوست نظریے کو آگے بڑھائیں اور ملک سے غربت، جہالت، بے روزگاری و عدم مساوات کے لیے جہد مسلسل کا عہد کریں۔