70 لاکھ پاکستانی ذیابیطس کے مریض موٹاپا و سہل پسندی بڑی وجوہ ہیں ایکسپریس فورم
جنوبی ایشیا کے لوگوں میں ایسے نسلی جینز ہیں جن سے عام طور پر تھوڑا سا موٹاپا ہونے سے بھی شوگر کا مرض لاحق ہو جاتا ہے
''ذیابیطس کے عالمی دن'' کے حوالے سے ایکسپریس فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ دنیا میں اس وقت 40کروڑ افراد ذیابیطس کا شکار ہیں، ہمارے ملک میں70 لاکھ سے زائد افراد اس مرض میں مبتلا ہیں جو ہانگ کانگ کی مجموعی آبادی کے برابر ہے۔
پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے لوگوں میں ایسے نسلی جینز ہیں جن سے عام طور پر تھوڑا سا موٹاپا ہونے سے بھی شوگر کا مرض لاحق ہو جاتا ہے، آج کی سہل پسند زندگی نے بھی اس مرض کے پھیلنے میں اہم کردار کیا ہے، ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز این سی ڈی پنجاب ڈاکٹر ہارون جہانگیر نے کہا کہ پنجاب حکومت نے بیماریوں کے کنٹرول کیلیے ملٹی سیکٹورل صوبائی ٹاسک فورس بنائی ہے، ہم تحصیل کی سطح پر بھی اقدامات کر رہے ہیں تاکہ اسٹرکچر قائم کیا جاسکے، یہ ابھی پائلٹ پروجیکٹ ہے جس کی کامیابی کے بعد پورے صوبے میں اس کا آغاز کیا جائے گا، ہم ذیابطیس کو ختم تو نہیں کرسکتے مگر اس پر احتیاطی اقدامات سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر علی جاوا نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں40کروڑ افراد ذیابیطس کے مرض کا شکار ہیں اور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، ہمارے ملک میں بھی صورتحال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے اور یہاں 70 لاکھ سے زائد افراد ذیابیطس کے مریض ہیں، اگر ہم نے اس حوالے سے ممکنہ اقدامات نہ کیے تو پاکستان 2025 تک ذیابطیس کا شکار پانچواں بڑا ملک بن جائے گا، سہل پسندی، ذہنی تنائو اور موٹاپا شوگر کی ایک بہت بڑی وجہ ہے، لہٰذا شوگر کا بہترین علاج پرہیز اور ورزش ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے ہاں خواتین کے علاج معالجے پر عموماً خرچ نہیں کیا جاتا جس سے خواتین کی ایک بڑی تعداد شوگر کے مرض میں مبتلا ہے، ہم اپنے بچوں کو بے جا لاڈ پیار میں اور انھیں موٹا کرنے کیلیے زیادہ کھانا کھلاتے ہیں جس سے کم عمری میں ہی ان کے اندر شوگر کے سیل پیدا ہو جاتے ہیں، شوگر کے مریضوں کیلیے دنیا بھر میں نئے نئے طریقے دریافت کیے جا رہے ہیں، شوگر کے مریضوں کا علاج گردے اور لبلبہ کی ٹرانسپلانٹیشن سے بھی کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ لبلبہ کے خلیے نکال کر بھی مریض کے جسم میں داخل کیے جاتے ہیں، اس وقت امریکا میں "Bionic pancreas" کے نام سے طریقہ علاج پر کام ہو رہا ہے جو 2017 تک دنیا میں متعارف کرایا جائے گا مگر یہ علاج عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوگا۔
پاکستان اکیڈمی آف فیملی فزیشنز کے سیکریٹری جنرل اور ماہر ذیابیطس ڈاکٹر طاہر چوہدری نے کہا کہ ہمارا شمار دنیا کی سب سے زیادہ کھانے والی قوموں میں ہوتا ہے، ہم کھاتے زیادہ اور چلتے کم ہیں جس کی وجہ سے ہم موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں، موٹاپا کی وجہ سے لبلبہ میں انسولین بنانے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور پھر انسان شوگر کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے، شوگر کے 80 فیصد مریضوں کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوتی ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں شوگر کے مریض پر غیر ضروری پابندیاں لگائی جاتی ہیں جس سے وہ نفسیاتی مریض بن جاتا ہے جبکہ نئی تحقیق کے مطابق شوگر کا مریض دنیا کی تمام نعمتیں اپنے فزیشن کے وضع کردہ ڈائٹ پلان کے مطابق کھا سکتا ہے اور یہ تصور بالکل غلط ہے کہ شوگر کے مریض پر دنیا کی تمام نعمتیں کھانے پر پابندی لگا دی جائے۔
پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے لوگوں میں ایسے نسلی جینز ہیں جن سے عام طور پر تھوڑا سا موٹاپا ہونے سے بھی شوگر کا مرض لاحق ہو جاتا ہے، آج کی سہل پسند زندگی نے بھی اس مرض کے پھیلنے میں اہم کردار کیا ہے، ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز این سی ڈی پنجاب ڈاکٹر ہارون جہانگیر نے کہا کہ پنجاب حکومت نے بیماریوں کے کنٹرول کیلیے ملٹی سیکٹورل صوبائی ٹاسک فورس بنائی ہے، ہم تحصیل کی سطح پر بھی اقدامات کر رہے ہیں تاکہ اسٹرکچر قائم کیا جاسکے، یہ ابھی پائلٹ پروجیکٹ ہے جس کی کامیابی کے بعد پورے صوبے میں اس کا آغاز کیا جائے گا، ہم ذیابطیس کو ختم تو نہیں کرسکتے مگر اس پر احتیاطی اقدامات سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر علی جاوا نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں40کروڑ افراد ذیابیطس کے مرض کا شکار ہیں اور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، ہمارے ملک میں بھی صورتحال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے اور یہاں 70 لاکھ سے زائد افراد ذیابیطس کے مریض ہیں، اگر ہم نے اس حوالے سے ممکنہ اقدامات نہ کیے تو پاکستان 2025 تک ذیابطیس کا شکار پانچواں بڑا ملک بن جائے گا، سہل پسندی، ذہنی تنائو اور موٹاپا شوگر کی ایک بہت بڑی وجہ ہے، لہٰذا شوگر کا بہترین علاج پرہیز اور ورزش ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے ہاں خواتین کے علاج معالجے پر عموماً خرچ نہیں کیا جاتا جس سے خواتین کی ایک بڑی تعداد شوگر کے مرض میں مبتلا ہے، ہم اپنے بچوں کو بے جا لاڈ پیار میں اور انھیں موٹا کرنے کیلیے زیادہ کھانا کھلاتے ہیں جس سے کم عمری میں ہی ان کے اندر شوگر کے سیل پیدا ہو جاتے ہیں، شوگر کے مریضوں کیلیے دنیا بھر میں نئے نئے طریقے دریافت کیے جا رہے ہیں، شوگر کے مریضوں کا علاج گردے اور لبلبہ کی ٹرانسپلانٹیشن سے بھی کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ لبلبہ کے خلیے نکال کر بھی مریض کے جسم میں داخل کیے جاتے ہیں، اس وقت امریکا میں "Bionic pancreas" کے نام سے طریقہ علاج پر کام ہو رہا ہے جو 2017 تک دنیا میں متعارف کرایا جائے گا مگر یہ علاج عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوگا۔
پاکستان اکیڈمی آف فیملی فزیشنز کے سیکریٹری جنرل اور ماہر ذیابیطس ڈاکٹر طاہر چوہدری نے کہا کہ ہمارا شمار دنیا کی سب سے زیادہ کھانے والی قوموں میں ہوتا ہے، ہم کھاتے زیادہ اور چلتے کم ہیں جس کی وجہ سے ہم موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں، موٹاپا کی وجہ سے لبلبہ میں انسولین بنانے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور پھر انسان شوگر کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے، شوگر کے 80 فیصد مریضوں کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوتی ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں شوگر کے مریض پر غیر ضروری پابندیاں لگائی جاتی ہیں جس سے وہ نفسیاتی مریض بن جاتا ہے جبکہ نئی تحقیق کے مطابق شوگر کا مریض دنیا کی تمام نعمتیں اپنے فزیشن کے وضع کردہ ڈائٹ پلان کے مطابق کھا سکتا ہے اور یہ تصور بالکل غلط ہے کہ شوگر کے مریض پر دنیا کی تمام نعمتیں کھانے پر پابندی لگا دی جائے۔