اصل قیمت

دہائیوں سے ہمارے ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں ہورہی ہیں۔عوام کی اکثریت اس کو معمول سمجھ بیٹھی ہے۔


راؤ منظر حیات November 15, 2014
[email protected]

دل چاہتاہے کہ ملکی سیاست پر لکھناشروع کردوں۔ مگر مجھ سے بہترلوگ اس مشکل عنوان پرمسلسل لکھ رہے ہیں۔ حقیقت میں ملکی سیاست میں اتنی جدت موجودہے کہ لکھنے کے لیے روزموادمل جاتاہے۔میں اگرلکھوں بھی توکیالکھ سکتا ہوں،لامتناہی دھرنے،بڑے بڑے جلسے،ایک دوسرے کی ذاتی تضحیک اورحقیقت سے مسلسل روگردانی کے سوا اورہے کیا؟داعش کی بھرتی کاعمل پورے پاکستان میں زوروشورسے جاری ہے۔ہمارے نوجوان مجاہدین ایک نئی جنگ کی تیاری کررہے ہیں۔ہرشہراورروڈپرداعش کے نعرے اورجھنڈے موجودہیں۔عقیدے کی بنیادپریہ جنگ ہمارے ملک کولپیٹ میں لے سکتی ہے مگرمجھے کسی جانب بھی کوئی فکریاغورغوض نظرنہیں آرہا۔

داعش کے اکابرین کے مطابق جن چارملکوں سے مجاہدین دستیاب ہورہے ہیں،ان میں پاکستان شامل ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے دانشوراورعالم موجودہیں جو موجودہ ''نیشن اسٹیٹ''کے تصورکوغیراسلامی سمجھتے ہیں۔وہ خلافت قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ کسی سے بھی پاکستان کے ہزاروں فوجی اورشہری شہداکے متعلق پوچھاجائے تووہ خاموش ہوجاتے ہیں۔ہمارے ملک میںانتہائی مہیب طرزکی جنگ جاری ہے۔شائداب تک ہمارے ایک طبقہ کی تسلی نہیں ہوئی اوراب وہ عراق،شام کی طرزپرایک اورجنگ کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔پاکستان کی فیصلہ کن طاقتوں نے ابھی تک اس نازک مسئلہ پرخاموشی اختیارکررکھی ہے۔ہم اپنے ملک کوکیا بناناچاہتے ہیں؟کسی کو فکرنہیں۔اگرداعش جیسے مسائل کو حالات کے رحم وکرم پرچھوڑدیاگیاتوہمارامستقبل کیاہوگا،کم ازکم میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا!

دہائیوں سے ہمارے ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں ہورہی ہیں۔عوام کی اکثریت اس کو معمول سمجھ بیٹھی ہے۔دوچارانسانوں کی شہادت کی خبرپرتواکثرلوگ غورہی نہیں کرتے۔ ہمارے پچاس ہزارکے لگ بھگ فوجی، پولیس اہلکاراورشہری دہشت گردوں کے ہاتھوں شہیدہوچکے ہیں۔وہ لوگ جوجسمانی طورپراپاہج ہوگئے ہیں ،ان کی تعداد کا ہمیں کوئی علم نہیں؟میں نے آج تک کسی حکومتی حلقے میں ان بدقسمت لوگوں کاذکرتک نہیں سنا۔مگرصاحبان!یہ حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے کیونکہ یہ ہمارے اپنے شہری ہیں ۔مگرجس معاشرے میں زندہ لوگوں کی کوئی اہمیت نہیں، وہاں ان لوگوں کے متعلق سوچنے کاوقت کس کے پاس ہوگا!

ہمارے زخمی اورشہیدافرادبنیادی طورپرتین حصوں میں تقسیم کیے جاسکتے ہیں۔ایک تووہ جنکاتعلق فوج سے ہے۔ دوسرا وہ جوپولیس یالیویزکے اہلکارہیں۔تیسراطبقہ عام شہریوں پرمشتمل ہے۔فوج اورپولیس میں اپنے شہدااورزخمیوں کی مددکے متعلق ایک معقول نظام موجودہے۔مگراصل مسئلہ عام شہریوں کاہے۔ان کے متعلق کاغذکی حدتک ایک موثرپالیسی توموجودہے مگرزمینی حقائق کے مطابق ان کے اہل خانہ کے مسائل اس حدتک دردناک ہوجاتے ہیں کہ ذکرکرتے ہوئے بھی افسوس ہوتاہے۔میںیہ کالم صرف اورصرف ان بے سہارا،لاچاراورمجبورلوگوں کے لیے لکھ رہاہوں جن کے لیے کوئی بھی موثرآوازبلندنہیں کررہا۔

آپ کوجیسے ہی کسی سانحہ کی خبرسنائی دیتی ہے تواس کے چندمنٹ بعدانتہائی مصنوعی طرزکی ایک پٹی چلنی شروع ہوجاتی ہے۔یہ دراصل ایک اعلان ہوتاہے کہ صوبائی حکومت یاوفاقی حکومت نے مالی امدادکااعلان کردیاہے۔کبھی چاریاپانچ لاکھ یاشائدکبھی اس سے کچھ زیادہ!مگرسوچنے کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی واردات کے بعدکسی سطح پربھی کسی کومعلوم نہیں ہوتاکہ وہ پیسے ان بدقسمت لوگوں کومل چکے ہیںیاوہ مہینوں تک سرکاری دفاترکے چکرلگالگاکرتھک چکے ہیں۔میں نے کسی بھی حادثہ کے دوچاردن کے بعد کوئی ایسی خبرنہیں سنی کہ کسی زخمی شہری یاشہیدکے اہل خانہ کوباعزت طریقے سے اعلان کردہ امدادان کے گھرپراداہوچکی ہے۔

جس جگہ خودکش حملہ ہوجائے،وہاں قیامت کامنظر برپا ہوجاتاہے۔آپ اندازہ فرمائیے،یہ دھماکے ہمارے ملک کے طول وعرض میں باقاعدگی سے ہوتے ہیں بلکہ ہورہے ہیں۔ مگرہمارے زخمیوں کوجدیدترین طریقے سے علاج کی سہولیات مہیاکرنے کاکوئی نظام موجودنہیں۔خدانخواستہ اگر آپ یورپ یاامریکا میں کسی ٹریفک حادثہ کاشکارہوجائیں تو ہرطرح کی طبی سہولت بذریعہ ایمبولینس جائے وقوعہ پر خودبخود پہنچ جاتی ہے۔آپ نظام ملاحظہ کیجیے کہ زخمی کے اسپتال پہنچنے سے پہلے ماہرترین سرجن اوراسٹاف آپریشن تھیٹرمیں موجودہوتے ہیں۔اگرجائے حادثہ پرہیلی کاپٹرکی ضرورت ہو تومنٹوں میں وہ بھی دستیاب ہوجاتاہے۔حکومت اپنافرض اداکرنے کی کوشش کرتی ہے اوریہ نظربھی آتی ہے۔

ہمارے پاس زخمی کوسٹریچریاٹرالی پررکھنے کے لیے ماہرلوگ موجودنہیں ہیں۔میں علاج کی بات نہیں کررہا۔ہمارے اکثر زخمی صرف اس لیے قضائے الہی کاشکارجاتے ہیںکہ انکوجائے حادثہ سے اسپتال منتقل کرنے کاطریقہ انتہائی ناقص ہے۔ اکثر دیکھاہے کہ چارآدمی مریض کوہاتھ پاؤں سے پکڑکرایمبولینس کی جانب لیجارہے ہوتے ہیں۔کون ساایسازخمی ہوگاکہ شروع کے دس پندرہ منٹ کے اس نارواسلوک سے نبرد آزما ہوپائے۔ابھی تک میں نے اسپتال کے آپریشن تھیٹراوروہاں کے ادنیٰ حالات کاذکرنہیں کیا۔

آج سے نوسال پہلے میں کوئٹہ میں تعینات تھا۔سرکاری گاڑی میں اپنے دوست کے ساتھ مارکیٹ جارہاتھا۔ایک مقام پرہماری گاڑی کوچیکنگ کے لیے روکاگیا۔ سپاہی نے ہاتھ سے اشارہ کیاکہ گاڑی آگے لے آئیں۔میرادوست گاڑی چلارہاتھا۔اس نے دس پندرہ فٹ گاڑی آگے جاکر کھڑی کردی۔اچانک شدیددھماکا ہوا۔ایک راکٹ ہماری گاڑی کے چندگزآگے بجلی کے کھمبے کے درمیان میں لگا۔وہ سپاہی جوہاتھ کااشارہ کرکے ہمیں آگے آنے کے لیے ہدایات کررہاتھا، اس کھمبے کے نیچے کھڑاہواتھا۔بجلی کے پول پرایک بہت بڑاٹرانسفارمرنصب تھا۔راکٹ دراصل اس ٹرانسفارمرمیں لگاتھا۔وہ بدقسمت سپاہی جوپول کے نیچے کھڑاتھاموقع پردم توڑگیا۔

ہماری گاڑی کے تمام شیشے ٹوٹ گئے مگرہم معجزانہ طریقے سے بچ گئے۔میرے سامنے وہاں تین اموات اور بارہ لوگ زخمی ہوئے۔ایمبولینس تقریباًپندرہ بیس منٹوں کے بعدآئی۔آپ اس ایمبولینس کے اسٹاف کی کوتاہی ملاحظہ کیجیے کہ انھوں نے زخمییوںکومردہ لوگوں کے نیچے لٹادیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ اسپتال پہنچتے پہنچتے وہ تمام زخمی لوگ بھی اللہ کوپیارے ہوگئے۔اگروہاں تربیت یافتہ اسٹاف ہوتا،جسکوعلم ہوتاکہ دہشت گردی سے متاثرلوگوں کوایمبولینس میں کیسے منتقل کرناہے، توکچھ قیمتی جانیں بچائیں جاسکتیں تھیں۔یہ نااہلی کایک ایسامظاہرہ تھاجسے میں کم ازکم اپنی زندگی میں کبھی بھی نہیں بھول سکتا۔

ہمارے سرکاری اسپتالوں میںمخصوص تربیت یافتہ ڈاکٹروں کافقدان ہے جواس طرح کے زخمیوں کاآپریشن کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔انکوڈاکٹری کی مخصوص زبان میں"Trauma Surgeon"کہاجاتاہے۔آپ چھوٹے شہروں کی بات چھوڑیے۔لاہورجیسے شہرمیں ٹراماسرجنز کی تعدادانتہائی محدودہے۔ہمارے اکثرسرکاری اورغیرسرکاری اسپتال مہیب طرزکی ایمرجنسی سے نبردآزماہونے کی اسطاعت نہیں رکھتے۔دہشت گردی کی اس بلاسے لڑتے ہوئے دہائی سے اوپرکاعرصہ ہوچکاہے مگرہم اس ہنگامی صورتحال سے نپٹنے کے لیے کسی قسم کی کوئی موثرپالیسی نہیں بناسکے۔اگرکہیں کوئی پالیسی بنی بھی ہے تووہ محض کاغذپرموجودہے۔

سرکاری اسپتال زخمی لوگوں کامعقول علاج کرنے سے قاصرہیں۔صرف ہرایک دوگھنٹے کے بعدانتہائی بے حسی سے یہ اعلان کیاجاتاہے کہ اتنے اشخاص زخموں کی تاب نہ لاکرجہان فانی سے کوچ کرگئے۔اب میں اپنے اصل نکتہ کی طرف آتاہوں۔وہ شہری جو شہید ہوگئے،ان کے لیے ایک خاص رقم کااعلان کیاجاتاہے۔آج تک کسی سطح پرلواحقین کی مشکلات کاجائزہ نہیں لیاگیا جو انھیںبے حس سرکاری عمال کے ہاتھوں اٹھاناپڑتی ہیں۔انھیں ایک ایسے واقعہ کی بھرپورسزادیجاتی ہے جن میں انکاکوئی قصورنہیں۔

میںکلثوم بی بی کاواقعہ عرض کرناچاہتاہوں۔اس کی عمر 50برس کی ہے۔اسکاخاونداوراسکابڑابیٹاپشاورکے ایک بازار میں پھل کی ریڑھی لگاتے تھے۔2012ء میںان لوگوں کی ریڑھی کے نزدیک کوئی شخص سائیکل میں بم نصب کرگیا۔بم پھٹنے سے کلثوم بی بی کاخاونداوربیٹادونوں شہیدہوگئے۔اس سانحہ میں بیس لوگ مارے گئے اورچالیس کے قریب زخمی ہوگئے۔یہ واقعہ اس اَن پڑھ خاتون کے لیے قیامت جیساالمیہ تھا۔اس غریب عورت اوراس کی دولڑکیوں نے حیات آبادمیں گھروں میں برتن مانجھنے کاکام شروع کردیا۔شام کووہ اپنے گھرپرکپڑے سی کرکچھ پیسے کمالیتی تھی۔ان کے مسائل بڑھتے چلے گئے۔

حکومت کی طرف سے اعلان شدہ امدادصرف اس لیے نہیں مل پائی کہ وہ اَن پڑھ تھی۔اسکوکوئی بتانے والاہی نہیں تھاکہ یہ امدادکس دفترسے حاصل کی جاسکتی ہے۔اسکافارم کہاں سے ملے گااوراسے کیسے پُرکیاجائیگا۔آپ اس غریب عورت کی بے بسی دیکھئے کہ سرکاری مددملناتودورکی بات، ہر دو چاردن کے بعداس کے پاس مختلف سرکاری اداروں کے اہلکارآجاتے تھے۔وہ ان مظلوم عورتوں سے تفشیش شروع کرنے لگتے تھے کہ وہ بم اس کے خاوندکی ریڑھی کے نزدیک کس نے نصب کیاتھا؟اس کے خاوند کوکون کون ملنے آتاتھا؟کلثوم بی بی اتنی خوف زدہ ہوگئی کہ وہ پنڈی میں اپنی بہن کی طرف منتقل ہونے پرمجبورہوگئی۔اب وہ گھروں میں نوکرانی کے طورپرکام کرتی ہے اوراس کی بچیاں اسکاہاتھ بٹاتی ہیں۔

جواداحمدکاوالدسندھ پولیس میں کانسٹیبل تھا۔وہ ایک خودکش حملے میں شہیدہوگیا۔یہ حادثہ سعیدآبادٹریننگ اسکول کے قریب پیش آیا۔جوادکی عمرحادثہ کے وقت صرف12سال کی تھی۔حادثہ کی خبرسن کراس کی والدہ کودل کادورہ پڑااوروہ انتقال کرگئی۔قانون کے مطابق جوادکوسرکاری نوکری ملنی چاہیے تھی۔مگروہ آج تک بے روزگارہے۔پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ اوراس کی دونوں بہنیں ادنیٰ درجے کے گھریلوکام کرنے پرمجبورہیں۔جوادسائیکل کامستری بن چکاہے۔اسے کوئی مالی امدادنہیں ملی اورنہ ہی کوئی نوکری!

خودکش حملے روزہوتے ہیں۔کئی قیمتی جانیں ان کی نذرہوجاتیں ہیں! مرنے کی خبرفوری طورپرنشرکردی جاتی ہے!مگرہمیں اندازہ نہیں کہ جہان فانی سے کوچ کرنے پرحقیقی موت ان مظلوم بچوں اوربیواؤں کی ہوتی ہے جوبے سہارااوربے کس رہ جاتے ہیں۔زمانے کی ٹھوکریں ان کامقدر بن جاتیں ہیں۔اپنے پیاروں کی موت کی بھرپور قیمت یہ بے گناہ اورمظلوم لوگ بقیہ زندگی گزارتے رہتے ہیں۔آج تک کسی نے بھی ان بے سہارالوگوں کے مصائب ختم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔کسی نے انکامقدرنہیں بدل۔ پتہ نہیں،یہ زندہ کیسے رہتے ہیں۔شائداپنے پیاروں کی موت کی اصل قیمت یہ لوگ اداکرتے ہیں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں