’’اسٹیٹس کو‘‘ توڑنا کیوں ضروری ہے
جمہوریت کا مطلب اکثریت کی حکومت ہوتا ہے اور 67 سال سے اس ملک میں جو جمہوریت رائج ہے۔
عمران خان کے ساتھ ملاقات کے بعد جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''حکومت پی ٹی آئی سے مذاکرات کرے، سمجھے کہ بحران ختم ہو گیا ہے۔'' سراج الحق نے کہا کہ ہماری ملاقات دو افراد کی نہیں بلکہ دو جماعتوں کی ہے اور دونوں جماعتیں ''اسٹیٹس کو'' توڑنے پر متفق ہیں۔ سراج الحق نے جب سے جماعت کی قیادت سنبھالی ہے وہ سیاست میں ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں جس کا فائدہ جماعت کو ہو رہا ہے۔
حالیہ بحران کے دوران عمران خان اور طاہر القادری نے اس فراڈ جمہوریت، انتخابی دھاندلی الیکشن کمیشن کی تشکیل نو،انتخابی اصلاحات، جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ، احتساب خاندانی، بادشاہتوں کے خلاف جو سخت اسٹینڈ لیا تھا وہ جماعت کے امیر کے ارشادات کے عین مطابق تھا اس پس منظر میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سراج الحق اپنی جماعت کے ساتھ عمران اور قادری کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ اگر جماعت اسلامی اپنا وزن عمران اور قادری کے پلڑے میں ڈال دیتی تو شاید جمہوریت کو بچانے کے دعویداروں کو اپنی جان و مال بچانا مشکل ہو جاتا۔ اب اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 67 سال سے پاکستانی عوام پر مسلط نام نام نہاد جمہوریت لوٹ مار کر ایک ذریعہ بنی ہوئی ہے اور جب تک یہ اشرافیائی جمہوریت موجود ہے پاکستان کے عوام کی زندگی جہنم بنی رہے گی۔ جس کی ایک مثال 1977ء کی تحریک میں جماعت کا فعال کردار ہے۔
1977ء کی تحریک دراصل امریکا کی اسپانسرڈ تحریک تھی جس کا واحد مقصد بھٹو کو حکم عدولی کی سزا دینا تھا۔ اس تحریک میں اگرچہ بہانہ چند سیٹوں پر بھٹو حکومت کی مبینہ دھاندلی کو بنایا گیا لیکن حقیقت بھٹو کو ایٹمی مسئلے پر گستاخی کی سزا دینا تھا۔ آج کی صورت حال یہ ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں سراج الحق سمیت تقریباً تمام رہنما دھاندلی کا رونا رو رہے ہیں۔ سراج الحق نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ''دھاندلی کے الزامات نے الیکشن کو مشکوک بنا دیا ہے۔''
جب اس حقیقت کا اعتراف ہر طبقے سے ہو رہا ہے تو عمران خان کا یہ مطالبہ کہ ''سراج الحق دھاندلی کی تحقیقات سپریم کورٹ سے کرانے کی بات آگے بڑھائیں'' ایک انتہائی معقول اور منطقی مطالبہ ہے لیکن اس کے لیے جمہوریت کے حوالے سے یکسو ہونے کی ضرورت ہے اگر یہ جمہوریت ایک کاروباری منڈی ہے اور 2013ء کے انتخابات مشکوک ہیں تو جماعت سمیت حقیقی جمہوریت کے تمام حامیوں کو اس فراڈ اور لٹیری جمہوریت کے بارے میں دو ٹوک موقف اختیار کرنا ہو گا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ایک طرف اس جمہوریت کو کاروباری منڈی اور لوٹ مار کا ذریعہ کہا جائے اور دوسری طرف اسے ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے حکومت کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہا جائے۔
عمران خان سے حالیہ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں سراج الحق نے ایک بہت ہی معقول بات کی ہے کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی STATUS QUOتوڑنے پر متفق ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کا آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہی اسٹیٹس کو کو توڑنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیٹس کو کا مطلب کیا ہے؟ اسٹیٹس کو کی بات اب اس قدر عام ہو گئی ہے کہ عام آدمی کی زبان پر بھی یہ لفظ آ رہا ہے اس لیے اسٹیٹس کو کی جامع تعریف اور وضاحت ضروری ہے۔
ویسے تو اسٹیٹس کو کا مختصر مطلب Asitis یعنی جیسے کا ویسا ہے لیکن اس اصطلاح کی وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ یہ اصطلاح کئی چیزوں کا معجون مرکب بنی ہوئی ہے۔اس حوالے سے سب سے اہم بات جاگیردارانہ نظام ہے جو 67 سال سے سیاست اور اقتدار پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے، اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے شراکت داروں میں اضافہ ہوا ہے لیکن آج بھی اصل قوت جاگیردارانہ نظام ہی ہے اسٹیٹس کو توڑنے کے لیے پہلا قدم زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہے جاگیردانہ نظام کے استحکام نے جو دوسری لغت متعارف کرائی ہے وہ ہے ''خاندانی جمہوریت'' اس کو توڑنا دوسرا اہم اقدام ہے۔
جمہوریت کا مطلب اکثریت کی حکومت ہوتا ہے اور 67 سال سے اس ملک میں جو جمہوریت رائج ہے اس میں عوام کی ذمے داری صرف پانچ سال میں ایک بار بہ جبر ووٹ ڈالنا ہے، عوام کبھی حکومت کا حصہ نہیں رہے، قانون ساز اداروں میں عوام کے نام پر لٹیرے ہی براجمان رہے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارا انتخابی نظام ہے جس میں ایک با صلاحیت، ایماندار، مخلص انسان اس لیے حصہ ہی نہیں لے سکتا کہ اس نظام میں حصہ لینے کے لیے کروڑوں کا سرمایہ درکار ہے۔
اس بد دیانتی کے ازالے کے لیے انتخابی نظام میں عوام کی ضرورت کے مطابق تبدیلی ناگزیر ہے۔بلدیاتی نظام جمہوریت کا لازمی حصہ اور نچلی سطح سے اوپر تک عوام کی رسائی کا سب سے اہم حصہ ہے لیکن ہماری اشرافیہ نے بلدیاتی انتخابات میں ایسی 420 قسم کی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں کہ 7 سال سے بلدیاتی انتخابات التوا کا شکار ہیں۔ عدلیہ کے اس حوالے سے ہر حکم کو کسی نہ کسی بہانے ٹالا جا رہا ہے۔ بلدیاتی انتخابات ایک اور موثر بلدیاتی نظام اسٹیٹس کو کو توڑنے کی لازمی شرائط میں سے ایک شرط ہے۔ اسٹیٹس کو کا مطلب سمجھے اور اسے توڑنے کے لیے مندرجہ بالا اقدامات شرط اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔
وہ تمام رہنما اور سیاسی و مذہبی جماعتیں جو اسٹیٹس کو کو توڑنے میں مخلص ہیں ان کی ذمے داری اور فرض ہے کہ وہ دو کشتیوں میں سواری کے پر فریب داؤ پیچ سے باہر آ کر اس بنیادی ضرورت پر متحد ہوں اور جب اس مرحلے سے گزر جائیں تو پھر اپنی اپنی پالیسیوں، اپنے اپنے منشور کے ساتھ انھیں آگے بڑھنے کے مواقع حاصل ہوں گے۔