پاک چین معاہدے اور بجلی

1994 کے بعد سے پاکستان میں کئی تھرمل پاور پراجیکٹس لگنے شروع ہوگئے جہاں فرنس آئل کے ذریعے بجلی پیدا کی جانے لگی۔

گزشتہ دنوں پاکستان اور چین میں 42 ارب ڈالر کے 19 معاہدے ہوئے۔ مجوزہ سرمایہ کاری کے باعث توانائی بحران کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ پاکستان میں توانائی بحران کے خاتمے کے ساتھ عوام کے لیے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ اگرچہ وزیراعظم کا بھی یہ خیال ہے کہ 10 لاکھ نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔

ان معاہدوں میں رانی کوٹ سے اسلام آباد تک 440 کلومیٹر طویل قراقرم ہائی وے دوم کی تعمیر کے علاوہ چین اور پاکستان کے درمیان کراس بارڈر آپٹیکل فائبر کیبل سسٹم اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے کئی معاہدے شامل ہیں۔ شمسی توانائی اور پن بجلی کے بھی معاہدے عمل میں لائے گئے ہیں۔ کراچی لاہور موٹروے کا منصوبہ بھی موجود ہے۔ ہائیڈرو پاور پراجیکٹس لگانے کے بھی معاہدے کے علاوہ سولر اور صنعتی پارک کی تعمیر کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ 10400 میگاواٹ توانائی کے منصوبوں پر کام کیا جائے گا جس میں زیادہ تر کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس ہیں۔ ونڈپاور پراجیکٹ قائد اعظم سولر پارک 900 میگاواٹ کا ہے۔

یہاں پر غالباً واحد ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سکھی، کیناری منصوبہ جوکہ 1740 میگاواٹ کا ہوگا۔ پاکستان میں سستی بجلی کے حصول کا ذریعہ اب بھی صرف ہائیڈرو پاور منصوبوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے کالا باغ ڈیم کے علاوہ بھی ملک کے بالائی علاقوں میں کئی بڑے ڈیمز کی تعمیر کی بازگشت سنائی دیتی تھی جب کہ بھارت اپنے دریاؤں پر بیسیوں بڑے بڑے ڈیمز اور سیکڑوں درمیانے درجے کے اور چھوٹے ڈیمز اسی مدت کے دوران تعمیر کرچکا ہے۔ دریاؤں کا رخ موڑنے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ 1950 اور 1960 کے عشرے میں عالمی بینک نے پاکستان کو بھی بڑے ہائیڈرو پراجیکٹ کے لیے قرضے فراہم کیے۔

1990 کے بعد سے پاکستان میں بجلی کی کھپت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوگیا تھا اور لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں اضافے کے باعث بجلی کا شارٹ فال بڑھتا ہی چلا گیا۔ بجلی کی اس کمی کو فوری طور پر پورا کرنے کے لیے کئی عالمی کمپنیاں اپنی فرسودہ مشینوں کو لے کر پاکستان آگئیں۔ 1994 کے بعد سے پاکستان میں کئی تھرمل پاور پراجیکٹس لگنے شروع ہوگئے جہاں فرنس آئل کے ذریعے بجلی پیدا کی جانے لگی۔

ان کمپنیوں سے مہنگی بجلی خریدنے کی حکومت پابند تھی لہٰذا پاکستان میں بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ دوسری طرف بجلی عوام کو کم قیمت پر فراہم کرنے کے لیے حکومت کو سبسڈی دینا پڑی۔ اب سبسڈی کی رقم میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ بات کروڑوں، اربوں سے نکل کر کھربوں تک جا پہنچی۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کے اخراجات میں مسلسل اضافہ ہونا شروع ہوگیا لہٰذا حکومت کو مختلف وجوہات کی بنا پر آئی ایم ایف سے قرض کی ضرورت پیش آتی رہی اور آئی ایم ایف اپنی شرائط میں اس بات پر زور دیتا رہا کہ بجلی گیس کی نہ صرف قیمت بڑھائی جائے بلکہ ہر قسم کی سبسڈی کا خاتمہ کیا جائے۔

اس سے عوام کی فلاح و بہبود میں کمی کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس دوران حکومتوں کی توجہ اسی جانب رہی کہ وقتی طور پر بجلی کی کمی کو پورا کیا جائے۔ اگر 1990 کے عشرے یا 2000 کے ابتدائی برسوں میں ہی بڑے بڑے ڈیمز کی تعمیر کا آغاز ہوچکا ہوتا تو آج صارفین کو بجلی ایک دو روپے فی یونٹ کے لگ بھگ دستیاب ہوتی اور پاکستان کی بجلی علاقے اور خطے میں سب سے کم قیمت ہوتی پھر یقینی طور پر عالمی منڈی میں پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھانے کے وسیع مواقع حاصل ہوتے۔

کئی واٹربیسڈ پاور پراجیکٹ جیسے نیلم جہلم، تربیلا 4th ایکسٹینشن، داسو I اور دیامر بھاشا ڈیم وغیرہ تعمیراتی مراحل سے گزر رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق انڈیا میں کئی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بہت ہی کم لاگت میں تیار ہو رہے ہیں جب کہ پاکستان میں اس سے بھی کم لاگت میں تیار کرنے کے مواقع ہیں۔ گزشتہ حکومتوں نے ہائیڈرو پاور پلانٹ کی تعمیر پر توجہ دینے کے بجائے تھرمل پاور پلانٹ کے معاہدے کیے۔ کچھ عرصہ قبل پن بجلی کی پیداوار کل بجلی کی پیداوار کا 60 فیصد تھی، آج معاملہ برعکس ہے۔


اس وقت کل بجلی کی پیداوار میں پن بجلی کا حصہ 34 فیصد ہے۔ نتیجہ بھی ظاہر ہے کہ بجلی مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہے۔پن بجلی کے کئی چھوٹے منصوبوں کے لیے گزشتہ دنوں کے پی کے کی حکومت نے 9 ارب روپے جاری کیے ہیں جن میں سوات میں 84 میگاواٹ کا منصوبہ، دیر میں بجلی گھر، مانسہرہ اور شانگلہ وغیرہ میں بجلی گھر کی تعمیر کے لیے ہے۔گزشتہ سال سے نجی کمپنیز بھی پن بجلی منصوبوں کی جانب راغب ہو رہی ہیں۔

پاکستان نے اگرچہ کوئلے سے چلنے والے کئی پاور پلانٹس کے بھی معاہدے کیے ہیں جن سے تھرمل پاور منصوبوں کی نسبت کم لاگت میں بجلی حاصل ہوتی ہے۔ قادر آباد کے مقام پر کوئلے سے چلنے والا پاور پراجیکٹ جوکہ 1320 میگاواٹ کا ہو گا۔ اس کے علاوہ رحیم یار خان پاور پلانٹس بھی اتنے ہی میگاواٹ پر مشتمل ہے۔ کوئلے سے چلنے والا پاور پلانٹ جوکہ تھر کے مقام پر لگایا جا رہا ہے چین کے اشتراک سے ہی تھر کے بلاک نمبر 2 میں کوئلے کی کان کنی کا اہم منصوبہ بھی ہے جس سے 2 سال میں تھر سے کوئلے کی سپلائی شروع ہو جائے گی اور بجلی کی پیداوار بھی حاصل کی جائے گی۔

کوئلے سے بجلی کا یہ پیداواری منصوبہ اس لیے بھی سستا ہوگا کہ مقامی طور پر نکلنے والے کوئلے سے بجلی پیدا کی جائے گی۔ تھر کے اس منصوبے کی افادیت کے لیے ضروری ہے کہ اس منصوبے کے لیے جو افرادی قوت مقامی طور پر حاصل کی جاسکتی ہو تو اس میں مقامی افراد کو ہی ترجیح دی جائے۔ نیز اس منصوبے سے تھری عوام کی فلاح و بہبود کے مقاصد بھی حاصل کیے جائیں۔ مقامی افراد جوکہ پانی کے حصول میں شدید دشواریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ قلت خوراک کا شکار ہیں۔ ادویات اور صحت کی سہولیات کا فقدان بھی ہے ان تمام مسائل کے حل کے لیے اس منصوبے کو بروئے کار لایا جائے تاکہ پورا تھر ریجن ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ جن پاور پلانٹس میں درآمدی ڈیزل یا فرنس آئل استعمال ہوتا ہے، وہاں کہیں 24 روپے اور کہیں اس سے بھی زیادہ فی یونٹ لاگت آ رہی ہے۔

اگرچہ تھرکول کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ گیارہ یا بارہ روپے فی یونٹ ہوسکتی ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود پن بجلی پھر بھی کہیں بہت ہی سستا ترین ذریعہ ہے۔ حکومت کو ہر ممکن طریقے سے اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ پن بجلی منصوبوں کو اولیت دی جائے اور جہاں بھی ہر ممکن طریقے سے ان کے کام کی رفتار میں تیزی لائے جائے۔

چین کے ساتھ جتنے بھی منصوبے طے کیے گئے ہیں ان میں بجلی کی لاگت کا بھی اندازہ لگانا ہوگا، ایسا نہ ہو کہ سرمایہ کاری بھی وسیع پیمانے پر کردی گئی لیکن سستی بجلی کے حصول کا اصل مسئلہ مزید پیچیدہ ہوکر رہ گیا کیونکہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے یہ نکتہ انتہائی اہم ہے کہ کسی بھی طرح سے بجلی کی لاگت کو کم سے کم لاکر اس سطح پر پہنچایا جائے جس سے خطے میں بجلی کی قیمت دیگر ملکوں کے مقابلے میں کم ہو تاکہ جہاں ایک طرف سستی بجلی کے باعث ملکی برآمدات جسے آیندہ دو سال میں 50 ارب ڈالر اور اس سے آیندہ چند برسوں میں 150 ارب ڈالر تک لے جانے کا جو خواب دیکھا جا رہا ہے وہ شرمندہ تعبیر ہوسکے۔ بجلی کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے جو معاملہ انتہائی دہشت ناک بن چکا ہے وہ اوور بلنگ اور بجلی کے بل کی ادائیگی کی رقم ہے۔

حکومت کو اس سلسلے میں مستعدی سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے کا حل فوری نکالنا چاہیے۔ جہاں تک 10 لاکھ افراد کو روزگار ملنے کی بات ہے تو یہاں تو کروڑوں افراد بیروزگار ہیں۔ ان کے فوری روزگار کا کیا انتظام ہوسکتا ہے۔ جرمنی کو لاکھوں افراد کی ضرورت ہے۔ اسی طرح دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جہاں افرادی قوت کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور یورپی ممالک سے پاکستانیوں کو ڈی پورٹ بھی کیا جا رہا ہے۔ سفارتی ذرایع سے حکومتی سطح پر ان تمام باتوں کا حل نکالا جائے تاکہ لوگوں کے لیے روزگار کی فراہمی کے مواقعوں میں اضافہ ہو پھر ملک میں ہی بجلی گیس کی قلت کے باعث لاکھوں افراد بے روزگار ہوجاتے ہیں۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ بجلی بھی ہو اور سستی بھی ہو پھر ہی ملک میں ترقی ہوگی اور لوگوں کے لیے روزگار بھی بڑھے گا اور مہنگائی میں بھی کمی واقع ہوگی۔
Load Next Story