افغانستان کو درپیش مسائل
افغانستان پچھلے کئی عشروں سے ایک طویل خانہ جنگی میں مبتلا ہے۔ امریکی حملے کے 13 سال بعد بھی وہاں حالات پرسکون نہیں۔
لاہور:
29 ستمبر 2014 کو اشرف غنی نے افغانستان کے نئے صدر کا حلف اٹھا لیا۔ افغانستان کے صدارتی الیکشن میں ہونے والی بے قاعدگیوں کے الزامات نے انتقال اقتدار کے اس عمل کو غیر یقینی بنایا۔ پھر امریکا کے زیر سرپرستی دونوں صدارتی امیدواروں کو ایک طویل غوروخوض کے بعد ایک معاہدے پر راضی کیا گیا، اور اشرف غنی کے حریف امیدوار عبداللہ عبداللہ کو چیف ایگزیکٹیو کی نئی اسامی بناکر حکومت کا حصہ بنا دیا گیا۔
اس عہدے کے اختیارات وزیراعظم کے برابر تصور کیے جائیں گے یعنی نائب صدر کے برابر درجہ دے کر امریکا نے عبداللہ عبداللہ کو راضی کیا تاکہ اپنے فوجیوں کے انخلا کے لیے راستہ ہموار کرسکے۔ اشرف غنی افغانستان میں اکثریتی پشتون زبان بولنے والوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ شعبے کے لحاظ سے ماہر معاشیات ہیں۔ اپنی ابتدائی تعلیم کابل میں حاصل کرنے کے بعد 1970 کے اوائل میں امریکا گئے اور وہاں سے اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور وہیں پر امریکی نژاد لبنانی خاتون سے شادی کی۔ حامد کرزئی کی حکومت میں 2002 سے 2007 تک وزیر خزانہ رہے اور افغانستان کی حکومت کے اصلاحاتی پروگرام کا حصہ رہے۔
وقتاً فوقتاً کرزئی حکومت کی کرپشن پر تنقید بھی کرتے گئے۔ 2013 میں اشرف غنی کو دنیا کے 100 سب سے مشہور دانشوروں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر شمار کیا گیا، یہ سروے ایک امریکی کمپنی نے کرایا۔ دوسری طرف عبداللہ عبداللہ تاجک اور پشتو دونوں بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں لیکن گزشتہ ادوار میں شمالی اتحاد کے قریب رہنے کی وجہ سے آپ کو عام طور پر تاجک ہی مانا جاتا ہے۔ 1960 میں کابل میں پیدا ہونے والے عبداللہ عبداللہ پیشے کے اعتبار سے آنکھوں کے سرجن ہیں۔
کرزئی حکومت سے پہلے شمالی اتحاد کے سربراہ احمد شاہ مسعود کے دست راست اور مشیر رہے۔ احمد شاہ مسعود کے قاتلانہ حملے میں ہلاک ہونے کے بعد 2001 میں کافی عرصے تک جلا وطن وزیر خارجہ کی ذمے داری سنبھالے رکھی۔ آپ کے والد غلام محی الدین معزول افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے مشیر رہے۔
ان دونوں حضرات نے جس وقت افغانستان کا اقتدار سنبھالا ہے اس وقت افغانستان مسائل کے ایک گمبھیر دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ امریکی اور نیٹو فورسز افغانستان سے بھاری مالی اور جانی نقصان اٹھانے کے بعد انخلا کے لیے پر تول رہے ہیں لیکن چونکہ افغانستان کی فوج اور پولیس اس قدر طاقتور اور مضبوط نہیں ہے اس لیے افغانستان کے مطالبے پر ایک سیکیورٹی معاہدہ تشکیل دیا گیا ہے جس کے تحت تقریباً 10 ہزار نیٹو فورسز امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں موجود رہیں گی۔
دوسری طرف پاکستانی فوج وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف ایک طویل فوجی آپریشن میں مصروف ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی جنگجو گروپوں نے وہاں سے فرار ہوکر افغانستان کے قریبی اور سرحدی علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ جہاں سے وقتاً فوقتاً پاکستان کے سیکیورٹی اداروں پر حملے ہوتے رہتے ہیں۔ جس پر پاکستان نے افغانستان سے کئی بار احتجاج بھی کیا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کو افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کے کردار پر بھی شدید تحفظات رہے ہیں۔ جن پر پاکستانی طالبان کو پناہ فراہم کرنے، ہتھیار دینے اور بلوچستان میں در اندازی کے سنگین الزامات بھی شامل ہیں۔ ویسے بھی کرزئی حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں۔ پاکستان اور افغان طالبان کو افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی کردار پر بھی تشویش ہے۔ اور ہندوستانی خفیہ ایجنسی ''را'' کا کردار کافی مشکوک نظر آتا ہے۔
افغانستان پچھلے کئی عشروں سے ایک طویل خانہ جنگی میں مبتلا ہے۔ امریکی حملے کے 13 سال بعد بھی وہاں حالات پرسکون نہیں بلکہ اس خانہ جنگی کی ابتدا تو امریکی حملے سے پہلے کی ہے جب پہلے متحارب گروپ روس کے حمایت یافتہ صدر نجیب اللہ کے خلاف لڑتے رہے، اس کے بعد اس حکومت کے خاتمے کے بعد سے تمام گروپ آپس میں لڑ پڑے اور اس طرح اس ملک کے باسی عشروں سے امن کو ترستے رہے۔ خانہ جنگی سے تباہ حال اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) 36838 بلین ڈالرز ہے جب کہ فی کس آمدنی 1,172 ڈالر ہے۔ ملک کی معیشت کا تقریبا 11 فیصد چرس کی پیداوار سے حاصل ہوتا ہے اور تقریباً30 لاکھ لوگ اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔
اس ملک کو چرس پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک مانا جاتا ہے اور یہاں سے پیدا ہونے والی یہ چرس دنیا کے بیشتر ملکوں میں اسمگل ہوتی ہے اور اس سلسلے میں ہونے والی بین الاقوامی کوششیں اس کو کنٹرول کرنے میں بالکل ناکام نظر آتی ہیں۔ بیروزگاری کی شرح 35 فیصد کے قریب ہے جو انتہائی زیادہ ہے جس کی وجہ سے لوگ شدت پسند اور جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ تقریباً 42 فیصد لوگ دن میں ایک ڈالر سے بھی کم پر گزارا کرتے ہیں۔
اس وقت بین الاقوامی کرنسی مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر 57 افغانی روپوں کے برابر ہے۔ ملک میں مختلف زبانیں بولنے والے لوگ موجود ہیں جن کے اعداد و شمار کچھ یوں ہیں۔ پشتون 42 فیصد، تاجک 27 فیصد، ہزارہ 8 فیصد، ازبک 9 فیصد، اجمک 4 فیصد، ترکمان 3 فیصد، بلوچ 2 فیصد اور نورستانی ودیگر 4 فیصد ہیں۔ ملک کے 34 صوبے ہیں۔ سب سے بڑا شہر کابل ہے جس کی آبادی 3071400 (تیس لاکھ، اکہتر ہزار، چارسو) ہے ان میں سے 18 صوبے اس وقت حالت جنگ میں ہیں۔ طالبان اس وقت تقریباً85 فیصد افغانستان پر قابض ہیں۔ ملک میں کوئی سمندر نہ ہونے کے باعث تجارت میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔
دنیا کے 92 ویں سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک کو معاشی میدان میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی اقتصادی ترقی کی شرح (GDP Growth Rate) 3.6 فیصد سے کم ہوکر اس سال 3.2 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ 31 ملین آبادی والے اس ملک کو شدید مالی مسائل کا سامنا بھی ہے کیونکہ حکومت کے پاس اپنے ملازمین کو اکتوبر کے مہینے کی تنخواہ ادا کرنے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ امریکا نے 2002 سے 2013 تک افغانستان پر تقریباً 690 بلین ڈالرز خرچ کیے، لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ البتہ امریکی معیشت کو اس کا خمیازہ ضرور بھگتنا پڑا۔
اس وقت افغان حکومت کو مزید 537 بلین ڈالرز کے بیل آؤٹ (Bail Out) پیکیج کی ضرورت ہے، دوسری طرف ملا عمر جنھوں نے 1997 سے افغان طالبان کی بلاشرکت غیرے امارت سنبھال رکھی ہے۔ وہ افغانستان کے موجودہ سیٹ اپ کو مسترد کرتے ہیں اور اشرف غنی کی بات چیت کی پیشکش کو سنجیدگی سے بالکل نہیں لیتے۔ حامد کرزئی کی ایک مفلوج، غیر موثر اور بدعنوان حکومت کو نئی انتظامیہ نے سنبھال تو لیا ہے لیکن کیا وہ ان تمام پہاڑ جیسے مسائل کے حل کرنے کے لیے کوئی موثر کردار ادا کرسکے گی۔ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔ فی الحال اس کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔
29 ستمبر 2014 کو اشرف غنی نے افغانستان کے نئے صدر کا حلف اٹھا لیا۔ افغانستان کے صدارتی الیکشن میں ہونے والی بے قاعدگیوں کے الزامات نے انتقال اقتدار کے اس عمل کو غیر یقینی بنایا۔ پھر امریکا کے زیر سرپرستی دونوں صدارتی امیدواروں کو ایک طویل غوروخوض کے بعد ایک معاہدے پر راضی کیا گیا، اور اشرف غنی کے حریف امیدوار عبداللہ عبداللہ کو چیف ایگزیکٹیو کی نئی اسامی بناکر حکومت کا حصہ بنا دیا گیا۔
اس عہدے کے اختیارات وزیراعظم کے برابر تصور کیے جائیں گے یعنی نائب صدر کے برابر درجہ دے کر امریکا نے عبداللہ عبداللہ کو راضی کیا تاکہ اپنے فوجیوں کے انخلا کے لیے راستہ ہموار کرسکے۔ اشرف غنی افغانستان میں اکثریتی پشتون زبان بولنے والوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ شعبے کے لحاظ سے ماہر معاشیات ہیں۔ اپنی ابتدائی تعلیم کابل میں حاصل کرنے کے بعد 1970 کے اوائل میں امریکا گئے اور وہاں سے اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور وہیں پر امریکی نژاد لبنانی خاتون سے شادی کی۔ حامد کرزئی کی حکومت میں 2002 سے 2007 تک وزیر خزانہ رہے اور افغانستان کی حکومت کے اصلاحاتی پروگرام کا حصہ رہے۔
وقتاً فوقتاً کرزئی حکومت کی کرپشن پر تنقید بھی کرتے گئے۔ 2013 میں اشرف غنی کو دنیا کے 100 سب سے مشہور دانشوروں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر شمار کیا گیا، یہ سروے ایک امریکی کمپنی نے کرایا۔ دوسری طرف عبداللہ عبداللہ تاجک اور پشتو دونوں بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں لیکن گزشتہ ادوار میں شمالی اتحاد کے قریب رہنے کی وجہ سے آپ کو عام طور پر تاجک ہی مانا جاتا ہے۔ 1960 میں کابل میں پیدا ہونے والے عبداللہ عبداللہ پیشے کے اعتبار سے آنکھوں کے سرجن ہیں۔
کرزئی حکومت سے پہلے شمالی اتحاد کے سربراہ احمد شاہ مسعود کے دست راست اور مشیر رہے۔ احمد شاہ مسعود کے قاتلانہ حملے میں ہلاک ہونے کے بعد 2001 میں کافی عرصے تک جلا وطن وزیر خارجہ کی ذمے داری سنبھالے رکھی۔ آپ کے والد غلام محی الدین معزول افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے مشیر رہے۔
ان دونوں حضرات نے جس وقت افغانستان کا اقتدار سنبھالا ہے اس وقت افغانستان مسائل کے ایک گمبھیر دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ امریکی اور نیٹو فورسز افغانستان سے بھاری مالی اور جانی نقصان اٹھانے کے بعد انخلا کے لیے پر تول رہے ہیں لیکن چونکہ افغانستان کی فوج اور پولیس اس قدر طاقتور اور مضبوط نہیں ہے اس لیے افغانستان کے مطالبے پر ایک سیکیورٹی معاہدہ تشکیل دیا گیا ہے جس کے تحت تقریباً 10 ہزار نیٹو فورسز امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں موجود رہیں گی۔
دوسری طرف پاکستانی فوج وزیرستان میں جنگجوؤں کے خلاف ایک طویل فوجی آپریشن میں مصروف ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی جنگجو گروپوں نے وہاں سے فرار ہوکر افغانستان کے قریبی اور سرحدی علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ جہاں سے وقتاً فوقتاً پاکستان کے سیکیورٹی اداروں پر حملے ہوتے رہتے ہیں۔ جس پر پاکستان نے افغانستان سے کئی بار احتجاج بھی کیا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کو افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کے کردار پر بھی شدید تحفظات رہے ہیں۔ جن پر پاکستانی طالبان کو پناہ فراہم کرنے، ہتھیار دینے اور بلوچستان میں در اندازی کے سنگین الزامات بھی شامل ہیں۔ ویسے بھی کرزئی حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں۔ پاکستان اور افغان طالبان کو افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی کردار پر بھی تشویش ہے۔ اور ہندوستانی خفیہ ایجنسی ''را'' کا کردار کافی مشکوک نظر آتا ہے۔
افغانستان پچھلے کئی عشروں سے ایک طویل خانہ جنگی میں مبتلا ہے۔ امریکی حملے کے 13 سال بعد بھی وہاں حالات پرسکون نہیں بلکہ اس خانہ جنگی کی ابتدا تو امریکی حملے سے پہلے کی ہے جب پہلے متحارب گروپ روس کے حمایت یافتہ صدر نجیب اللہ کے خلاف لڑتے رہے، اس کے بعد اس حکومت کے خاتمے کے بعد سے تمام گروپ آپس میں لڑ پڑے اور اس طرح اس ملک کے باسی عشروں سے امن کو ترستے رہے۔ خانہ جنگی سے تباہ حال اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) 36838 بلین ڈالرز ہے جب کہ فی کس آمدنی 1,172 ڈالر ہے۔ ملک کی معیشت کا تقریبا 11 فیصد چرس کی پیداوار سے حاصل ہوتا ہے اور تقریباً30 لاکھ لوگ اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔
اس ملک کو چرس پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک مانا جاتا ہے اور یہاں سے پیدا ہونے والی یہ چرس دنیا کے بیشتر ملکوں میں اسمگل ہوتی ہے اور اس سلسلے میں ہونے والی بین الاقوامی کوششیں اس کو کنٹرول کرنے میں بالکل ناکام نظر آتی ہیں۔ بیروزگاری کی شرح 35 فیصد کے قریب ہے جو انتہائی زیادہ ہے جس کی وجہ سے لوگ شدت پسند اور جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ تقریباً 42 فیصد لوگ دن میں ایک ڈالر سے بھی کم پر گزارا کرتے ہیں۔
اس وقت بین الاقوامی کرنسی مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر 57 افغانی روپوں کے برابر ہے۔ ملک میں مختلف زبانیں بولنے والے لوگ موجود ہیں جن کے اعداد و شمار کچھ یوں ہیں۔ پشتون 42 فیصد، تاجک 27 فیصد، ہزارہ 8 فیصد، ازبک 9 فیصد، اجمک 4 فیصد، ترکمان 3 فیصد، بلوچ 2 فیصد اور نورستانی ودیگر 4 فیصد ہیں۔ ملک کے 34 صوبے ہیں۔ سب سے بڑا شہر کابل ہے جس کی آبادی 3071400 (تیس لاکھ، اکہتر ہزار، چارسو) ہے ان میں سے 18 صوبے اس وقت حالت جنگ میں ہیں۔ طالبان اس وقت تقریباً85 فیصد افغانستان پر قابض ہیں۔ ملک میں کوئی سمندر نہ ہونے کے باعث تجارت میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔
دنیا کے 92 ویں سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک کو معاشی میدان میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی اقتصادی ترقی کی شرح (GDP Growth Rate) 3.6 فیصد سے کم ہوکر اس سال 3.2 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ 31 ملین آبادی والے اس ملک کو شدید مالی مسائل کا سامنا بھی ہے کیونکہ حکومت کے پاس اپنے ملازمین کو اکتوبر کے مہینے کی تنخواہ ادا کرنے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ امریکا نے 2002 سے 2013 تک افغانستان پر تقریباً 690 بلین ڈالرز خرچ کیے، لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ البتہ امریکی معیشت کو اس کا خمیازہ ضرور بھگتنا پڑا۔
اس وقت افغان حکومت کو مزید 537 بلین ڈالرز کے بیل آؤٹ (Bail Out) پیکیج کی ضرورت ہے، دوسری طرف ملا عمر جنھوں نے 1997 سے افغان طالبان کی بلاشرکت غیرے امارت سنبھال رکھی ہے۔ وہ افغانستان کے موجودہ سیٹ اپ کو مسترد کرتے ہیں اور اشرف غنی کی بات چیت کی پیشکش کو سنجیدگی سے بالکل نہیں لیتے۔ حامد کرزئی کی ایک مفلوج، غیر موثر اور بدعنوان حکومت کو نئی انتظامیہ نے سنبھال تو لیا ہے لیکن کیا وہ ان تمام پہاڑ جیسے مسائل کے حل کرنے کے لیے کوئی موثر کردار ادا کرسکے گی۔ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔ فی الحال اس کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔