یہ بے چارے سیاسی کارکن

ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت اس وقت تحریک انصاف ہے، جس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

ہر سیاسی جماعت کے لیے اس کے کارکن ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے جیالے کارکنوں کو اہمیت دیتی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ کے متوالے کارکنوں کی اپنی جماعت میں اتنی اہمیت نہیں جتنی جیالوں کی پیپلزپارٹی میں ہے۔

ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت اس وقت تحریک انصاف ہے، جس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے اور پی ٹی آئی کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ مئی 2013 کے عام انتخابات میں برگر فیملیز اور پوش علاقوں کے ان لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں پر لانے میں کامیاب رہی جو پہلے الیکشن کے روز گھر سے نہیں نکلتے تھے اور ٹی وی پر تماشا دیکھتے رہتے تھے اور انھیں انتخابات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا۔

ملک میں مذہبی جماعتوں کے پاس ایسے کارکن سیاست کے لیے موجود ہیں جو سخت مذہبی رجحان رکھتے ہیں اور اپنی اپنی مذہبی جماعتوں اور اپنے مذہبی رہنماؤں کے وفادار ہیں۔ جماعت اسلامی میں رکن بنانے کا طریقہ دوسروں سے مختلف اور سخت ہے اور اسی لیے جو جماعت اسلامی میں آجائے وہ وہیں کا ہوجاتا ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کا کارکن اپنی جماعت سے علیحدہ ہوتا ہو۔ مسلم لیگی رہنما الحاج شمیم الدین نے ایک بار راقم سے کہا تھا کہ جماعت جیسے پکے کارکن کسی اور جماعت میں نہیں۔ وہ کم تو ہیں مگر سب سے منظم ہیں اور کوئی ان پر تنقید کرتا رہے وہ خاموشی سے دیواروں پر پوسٹر لگاتے اور بینر ٹانگنے میں لگے رہتے ہیں۔

2013 کے بعد اب 2014 میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے بھی اپنے قائد علامہ طاہر القادری سے وفاداری کا ثبوت دے دیا ہے۔ انھوں نے گزشتہ سال اسلام آباد میں سخت سردی میں اس وقت بھی کئی روز دھرنا دیا تھا جب وہ کھلی سڑکوں پر شدید سردی میں اور ان کے قائد گرم کنٹینر میں رہ کر دھرنے کی قیادت کرتے تھے اور اب بھی ان کے کارکنوں نے اسلام آباد کے اصلی دھرنے میں 70 روز موجود رہ کر گرمی، حبس اور بارشیں برداشت کیں اور حرف شکایت زبان پر نہ لائے کہ وہ غیر محفوظ اور ان کا قائد اے سی کنٹینر میں ان کے ساتھ موجود تھا اور جب دھرنا ختم ہوا تو مرد اور خواتین کارکن روتے ہوئے رخصت ہوئے۔

تحریک انصاف کا دھرنا عوامی تحریک کے دھرنے کے بعد بھی جاری ہے۔ دھرنے کے دونوں پارٹیوں کے کارکنوں نے عیدالاضحیٰ دھرنے میں منائی۔ پی ٹی آئی کے مقابلے میں عوامی تحریک کا دھرنا کل وقتی تھا اور وہ دن رات وہیں موجود رہتے تھے۔ عوامی تحریک کے کارکنوں کے لیے مخالفین نے یہ بھی کہا کہ وہ علامہ قادری کے تعلیمی اداروں میں ملازم مجبور کارکن تھے جب کہ پی ٹی آئی کے کارکن مرضی کے مالک تھے جو شام کو دھرنے میں آتے اور رات کو اپنے گھروں میں لوٹ جاتے۔ ان کارکنوں میں امیر خاندانوں سے تعلق رکھنے والے شوقیہ کارکن بھی تھے جو عمران خان کے کہنے پر وہاں آتے تھے۔

تحریک انصاف کے ملتان کے جلسے میں سات کارکن ہلاک ہوئے اور رہنماؤں کی بے حسی بھی عوام نے دیکھی کہ زخمی کارکنوں کو رہنماؤں کے سامنے اسٹیج کے ذریعے اسپتال منتقل کیا جاتا رہا مگر رہنما خیر ہے خیر ہے کہتے رہے مگر اپنی تقریر روک کر کارکنوں کا حال نہیں پوچھا۔ پی پی کے بانی کی پھانسی کے بعد متعدد جیالوں نے اپنے قائد کی محبت میں خود کو آگ بھی لگائی تھی اور کوڑے بھی کھائے تھے۔


سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پاس اپنے جیالوں کی واقعی قدر تھی جو محترمہ بے نظیر کی وزارت عظمیٰ اور آصف علی زرداری کی صدارت میں نظر نہیں آئی اور جیالوں کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ پی پی کے وزرا اپنے جیالوں سے دور رہنے میں عافیت سمجھتے تھے کیونکہ تقریبات میں انھیں اپنے جیالوں کے احتجاج اور مطالبات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کہ ہمیں ملازمتیں کیوں نہیں مل رہیں اور مسئلے کیوں حل نہیں ہو رہے۔

جیالے ملازمتیں فروخت کیے جانے پر خاموش نہیں رہتے اور وزیروں سے منہ ماری سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ چند سال قبل سپاف شکارپور کے معذور صدر لالہ جہانگیر پٹھان نے پریس کانفرنس میں اپنے ساتھ پی پی رہنماؤں کی بے اعتنائی کے انکشافات کرکے اچانک خودکشی کرلی تھی۔ لالہ جہانگیر معذور بھی مارشل لا دور میں ہوا تھا اور محترمہ بے نظیر نے انھیں علاج کے لیے لندن بھی بھیجا تھا اور وہ لاعلاج قرار دے کر واپس کردیا گیا تھا اور وہیل چیئر کے سہارے زندگی گزارنے والے نوجوان کو پی پی اور رہنماؤں نے نظرانداز کر رکھا تھا۔

مسلم لیگ (ن) میں بھی متوالوں کی کوئی قدر نہیں ہے۔ لاڑکانہ میں مسلم لیگ ن کی قیادت سے ملنے کے خواہش مند کارکن نے بطور احتجاج خود کو آگ لگالی تھی جسے مرنے کے بعد (ن) لیگ نے اپنا کارکن ہی تسلیم نہیں کیا تھا۔

متحدہ میں اپنے کارکنوں کو اہمیت ملتی ہے۔ متحدہ اپنے مقتول کارکنوں کے ورثا کا نہ صرف خیال رکھتی ہے بلکہ خود اس کی مالی مدد کے ساتھ حکومت میں ہو تو مالی امداد بھی دلاتی ہے۔ متحدہ کے تنظیمی معاملات میں تنظیمی ذمے داروں کی اہمیت وزیروں اور ارکان اسمبلی سے زیادہ ہے۔ متحدہ کے کارکنوں نے بھی اپنے قائد کے جلسے میں رابطہ کمیٹی و دیگر کی شکایات اپنے قائد سے کی تھیں ۔ متحدہ کے کارکن کسی ذمے دار کے بجائے اپنے قائد کے لیے سب کچھ کر گزرنے کو تیار ملتے ہیں ۔

ہر سیاسی جماعت میں اس کے کارکنوں کو کہا تو پارٹی کا سرمایہ جاتا ہے مگر جماعت اسلامی اور متحدہ کے سوا دیگر پارٹیوں میں اس کی مثالیں نہیں ملتیں۔ اقتدار ہر جماعت کا مقدر نہیں ہوتا اور بڑی پارٹیوں کے کارکنوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی پارٹی اقتدار میں آجائے تاکہ انھیں ملازمتیں اور مفادات ملیں۔ محترمہ کے دور تک پی پی کارکنوں کو مفت میں ملازمتیں ضرور ملیں مگر ان کے بعد کارکن لاوارث ہوگئے ۔ قیادت ان سے دور، کوئی سننے کو تیار نہیں اور ملازمتیں اکثر فروخت ہوئیں جن کی شکایات کارکنوں نے وزیروں سے کھلے عام کیں ۔

تقریباً ہر جماعت میں عہدیداروں، ارکان اسمبلی اور خوشامدیوں کی سنی جاتی ہے اور کارکن اکثر نظرانداز ہی ہوتے دیکھے گئے ہیں مگر پھر بھی یہ کارکن کرسیاں بھی لگاتے ہیں، پارٹی کا ہر حکم مانتے ہیں، رہنماؤں کی جھڑکیاں برداشت کرتے ہیں، جانی نقصان اٹھاتے ہیں مگر اپنے قائدین سے دور رکھے جاتے ہیں کیونکہ قائدین کے پاس قدر سرمایہ داروں ہی کی ہوتی ہے۔
Load Next Story