لاڑکانہ اور عمران خان
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سندھ میں فاطمہ بھٹو بھی عمران خان کے ساتھ اتحاد یا ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہی ہیں۔
FAISALABAD:
خان صاحب اپنا بھرپور شاہکار اب لاڑکانہ لے کے پہنچنے والے ہیں، ایک ایسی سرزمین جہاں سوائے بھٹوؤں کے ان پچھلے 40سالوں میں کوئی بھی معرکہ نہ مار سکا۔ خیر بھٹوؤں کے اثر و رسوخ پر تھوڑا تو ڈینٹ پڑیگا مگر خان صاحب لاڑکانہ و پورے سندھ کے سندھی وڈیروں کو اپنا نہیں بنا سکیں گے۔ یہاں کچھ وڈیرے خان صاحب کے ساتھ چلے بھی جائیں لیکن سندھ کے مجموعی پریوار میں وہ ارباب رحیم ہی کہلوائیں گے۔
پنجاب نے بھی پیپلز پارٹی یا بھٹوؤں کے سحر کو رخصت کیا۔ سندھ میں بھی یہ سحر ماند تو پڑا مگر رخصت ہونے کے کوئی بھی آثار نظر نہیں آرہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سندھ میں فاطمہ بھٹو بھی عمران خان کے ساتھ اتحاد یا ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہی ہیں ۔ اب تو خیر فاطمہ بھٹو والی پارٹی اتنی مقبول نہیں جتنی 1996 کے زمانے میں تھی کہ ایک رات نواز شریف سے الحاق کر بیٹھے پوری کایا پلٹ گئی۔ انھوں نے خیر بینظیر والی پارٹی کو تو اتنی سیٹیں جیتنے نہیں دیں مگر خود بھی نہیں جیتے۔ اس مرتبہ بھی کچھ اسی طرح یا اس سے زیادہ ہونے کو جائے گا ۔
باچا خان کے فلسفے کو شاید پختونوں میں اتنا اب وہ مقام نہیں مگر سندھ میں بھٹوؤں سے لے کر جی ایم سید، اہنسا ، صوفی پن، درگاہوں پر جانے والی سندھ دھرتی میں خان صاحب طالبان کی حمایت رکھتے ہوئے سندھیوں کے پاپولر لیڈر نہیں بن پائیں گے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر پاکستان کی تاریخ پر سندھی اپنا حوالہ رکھتے ہیں، وہ محمد بن قاسم کو اسلام پھیلانے والا نہیں بلکہ حملہ آور سمجھتے ہیں۔ ان کے اپنے جدا اخبارات اور ٹی وی چینلز ہیں ۔ ان کے قہوہ خانوں (دودھ پتی چائے کے ٹھیلے یا چھوٹے ہوٹلوں) میں طالبان کو اب بھی برا بھلا کہا جاتا ہے۔ مذہبی انتہا پرستی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ سندھ میں جو بھی مذہبی ٹوپی پہن کر آیا وہ چاہے جماعت اسلامی ہو، مولانا فضل الرحمن ہوں، ضیا الحق، عمران خان یا نواز شریف ہوں ، لوگوں کے دلوں پر راج نہیں کرسکا اور اگر سندھیوں کو یہ سمجھ آجائے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ فلاں سیاستدان کی طرف مائل بہ کرم ہے تو پھر یہ لوگ ان کے مخالف ہوجاتے ہیں۔
ورنہ قائم علی شاہ کے دور میں بری حکمرانی کے نئے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ۔ تعلیم کی بربادی کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ تھر میں بری حکمرانی کی وجہ سے امواتیں آپ کے سامنے ہیں، خیرپور میں ناقص ہائی وے کی وجہ سے اتنی امواتیں ایکسیڈنٹ میں ہوگئیں مگر لوگ اب بھی بھٹوؤں سے اتنے دور نہیں گئے اور سارے وہ وڈیرے جو اس پارٹی میں ہیں ان کی طرف لوگوں کا رویہ کچھ اور ہے ان وڈیروں کی نسبت جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ۔یہ سندھ سائیکی کی عجب مگر چشم کشا کہانی ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ لیکن پیپلز پارٹی بھی اپنے تاریخی اعتبار سے وہ مقبولیت اب بالکل بھی نہیں رکھتی اور اس طرح ان 40سالوں میں پہلی مرتبہ ایک معقول خلا ضرور پیدا ہوا ہے لیکن وہ خلا عمران خان کے لیے نہیں ۔ وہ خلا شاید بلاول کے لیے ہے، وہ خلا بلاول تب بھی پائیں گے جب حقیقی طور پر وہ پارٹی میں اپنا لوہا منوائیں گے۔ اب تک یہی تاثر ہے کہ وہ صرف دکھانے کے ہاتھی والے دانت ہیں اور کھانے والے دانت ان کے والد، ان کی پھپھو اور اویس مظفر ٹپی صاحب ہیں ۔
بلاول کے لیے صورتحال اپنی بے مثال ماں سے بہت مختلف ہے۔ ماں کو پارٹی کے اندر کچھ انکلز کو فارغ کرنا تھا مگر بلاول کے لیے ان کے سامنے والد ہیں۔ وہ لوگوں میں اتنا گھل مل بھی نہیں سکتے، اتنے دورے بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ وہ خطرہ شاید عمران خان کی جان کو نہیں نہ ہی نواز شریف کو ہے۔ ان تمام سالوں میں بہرکیف یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ خان صاحب کا لاڑکانہ والا جلسہ سب کی نگاہ میں ہے۔ وہ جلسہ گاہ بھرنے میں بھی بہت حد تک کامیاب جائیں گے مگر ان کے جلسے میں وہ جوش و ولولہ نہیں ہو گا جتنا ان کے پنجاب والے جلسوں میں اکثر ہوتا ہے ۔
اور جلسے کرنا اگر صنعت ہیتو جلسے کرنے پر اب مونوپلی عمران خان کو حاصل ہے۔ وہ جلسے کرنے کے آرٹ میں سب کو کوسوں پیچھے چھوڑ آئے ہیں لیکن وہ سحر ان کی زبان سے نہیں ابھرتا جو بھٹوؤں کی میراث ہے۔ خان صاحب اب لوگوں کو مائل بہ کرم رکھنے کے لیے (معاف کرنا) ناشائستہ زبان متعارف کر بیٹھے ہیں جو اس سے پہلے سیاستدانوں کا شیوا نہیں تھا اور آخر جا کر اپنی دریدہ دہنی کے باعث عاصمہ جہانگیر صاحبہ کو بھی اسی زبان سے مخاطب کر بیٹھے اور اس طرح خان صاحب اپنے آپ کو سول سوسائٹی کے لوگوں سے اور علیحدہ کر بیٹھے۔ یوں کہیے جو دراڑیں پنجاب میں نظر آتی ہیں، سوسائٹی تقسیم نظر آتی ہے وہ والا ماجرا سندھ میں اتنی شدت سے نہیں ہوگا ۔
اب تو یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ کہیں لاڑکانہ والا جلسہ خان صاحب کو ملتوی نہ کرنا پڑ جائے کیونکہ ان کی پارٹی کے لوگ صحیح طرح انتظامات نہیں کر پائے اور اگر ایسا فرض کرلیجیے اگر ہونے جا رہا ہے تو وہ بھی کسی لحاظ سے خان صاحب اور ان کی پارٹی کے لیے اچھا شگون نہیں ہوگا، اور لوگوں میں غلط تاثر ابھرے گا ۔
سندھ میں بہرحال ایک سیاسی خلا تو پیدا ہوا ہے لیکن وہ خان صاحب نہیں بھر پائیں گے اور شاید نہ ہی سندھ کے قوم پرست ۔ ٹوٹی پھوٹی چھوٹی سی مڈل کلاس بھی کچھ وسیع ہوئی ہے۔ زمینداریاں اور جاگیرداریاں بھی ٹوٹتی نظر آرہی ہیں لیکن پھر بھی ابھی دلی دور است ۔
اس کے برعکس عاصمہ جہانگیر ! یہ اور بات ہے کہ وہ سیاستدان نہیں، بلاشبہ ایک مقام اورایک حیثیت مجموعی طور پر سندھ کے لوگوں میں رکھتی ہیں ، سندھ کے لوگ پنجاب کی کسی شخصیت کی سب سے زیادہ اگر عزت کرتے ہیں تو وہ عاصمہ جہانگیر ہیں اور ملالہ سے بھی اتنا ٹکراؤ نہیں ہے۔
آیندہ دو تین ہفتے ملک کی سیاست دوبارہ تیز ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس مرتبہ کیا اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا یا معاملہ جوں کا توں چلتا رہے گا؟ ان سوالات کا جواب تو خیر کسی کے پاس نہ ہو مگر خان صاحب ملک میں نئی روایت قائم کرچکے ہیں۔ وہ سیاست کو تصادم کی صورت میں روشناس کرا بیٹھے ہیں۔ زور زبردستی والی سیاست، للکارنے والی سیاست، ملک کے اداروں اور محترم لوگوں پر کیچڑ اچھالنے والی سیاست جس میں انھوں نے رانا بھگوان داس جیسے لوگ یا جسٹس تصدق جیلانی جیسے منصف کو بھی نہ چھوڑا بلکہ یوں کہیے کہ آمرانہ رویہ کا غبار ان کی سیاست اور ان کے چاہنے والوں میں ابھرتا ہے اور شاید آجکل یہ ہر شہری مڈل کلاس کے ابھرنے کا پہلا زینہ ہے ۔
پنجاب میں بھرپور مڈل کلاس نے ان ماضی کے دس سالوں میں ایک اور تاریخ رقم کی ہے ۔ آج سے دس سال پہلے نئی موٹرسائیکلیں ڈیڑھ لاکھ میں بکتی تھیں آج ہر سال دس لاکھ بکتی ہیں۔ نئی گاڑیاں جو دس سال پہلے پچاس ہزار بکتی تھیں آج پنجاب میں نئی گاڑیاں ڈیڑھ لاکھ بکتی ہیں ۔ اب یہ نیا ابھرتا ہوا مڈل کلاس پنجاب کا جس کی قیادت عمران خان کر رہے ہیں ، دیکھتے ہیں کیا نیا پاکستان بنانے جا رہے ہیں ۔ کیوں کہ ضروری نہیں ہر نیا دن پہلے دن سے زیادہ اچھا ہو۔ ہوسکتا ہے یہ نیا پاکستان نیا تو ہو مگر ضروری نہیں کہ اچھا بھی ہو۔