آپ ہی بتلا دیں

امریکی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی آبادی موجودہ شرح سے بڑھتی رہی تو 2050 تک 30کروڑ 2 لاکھ نفو س ہوجائے گی۔


Aftab Ahmed Khanzada November 15, 2014

حکمرانوں کے حالیہ غیر ملکی دوروں میں سوائے تقریروں کے اور کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا، جن یادداشتوں پر انھوں نے دستخط کیے ہیں ان کی عملی حیثیت کا فی الحال تعین نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس طرح کی سیکڑوں یادداشتیں پچھلی کئی حکومتوں نے بھی دستخط کی تھیں اور وہ پھر سرد خانے کی نذر ہوگئیں، لہٰذا صرف کاغذ کے پرزوں کے سوا ان یادداشتوں کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ سب سے بڑی حیرانگی وزیراعظم کے اس جملے پر ہے کہ ہماری نظریں آیندہ 50 سال پر ہیں ۔

ان کے لیے عرض ہے کہ وہ ساری باتیں چھوڑ کر یہ بات سامنے رکھ لیں کہ ممکنہ طور پر پاکستان کی آبادی آیندہ 50 سال میں ایک ارب تک ہوسکتی ہے۔ کیا ان کے پاس ایک ارب کی آبادی کے لیے پانی، بجلی، گیس، خوراک، صحت کی سہولتیں، ٹرانسپورٹ، سٹرکیں، درس گاہیں، اسپتال اور انھیں روزگار دینے کا بھی کوئی منصوبہ ہے یا ان کے پاس خوفناک بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کا کوئی منصوبہ ہے؟ اگر صرف باتیں کرنے سے مسائل کا خاتمہ ہو سکتا تو پاکستان مسائل سے پاک ملک ہوتا، کیونکہ باتوں میں ہم سے کوئی نہیں جیت سکتا۔ جناب اعلیٰ زمینی حقائق بہت خوفناک ہیں۔

برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز لکھتا ہے کہ اسلام آباد میں سیاست دان پاکستان پر کنٹرول کے لیے ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں، تاہم ان رہنماؤں کی شعلہ بیانی میں پاکستان کو درپیش بحران یا ان سے نکالنے کا کوئی اشارہ نہیں ۔ ماہرین اقتصادیات اور آبادیات کے مطابق پاکستان کو سیاسی نہیں آبادی سے شدید خطرہ ہے ۔ پاکستانی سیاست دان طویل منصوبہ بندی یا سوچ نہیں رکھتے، ان کی سوچ صرف انتخابی مدت تک محدود ہوتی ہے ۔ امریکی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی آبادی موجودہ شرح سے بڑھتی رہی تو 2050 تک 30 کروڑ 2 لاکھ نفو س ہوجائے گی ۔

گنجان آبادی کے حامل شہر کراچی میں پانی کی کمی نے زندگی کو مفلوج اورایک اپارٹمنٹ میں درجن یا اس سے زائد لوگ رہنے اور مسافروں کو بسوں کی چھتوں پر سفر کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔ گزشتہ دو دہائیوں میں افرادی قوت دگنی ہوکر 6 کروڑ ہو چکی ہے، جب کہ لیبر مارکیٹ کو نئے آنے والوں کو سالانہ 30 کروڑ روزگار دینے کی ضرورت ہے ، مگر ایسا نہیں ہورہا ہے ۔

گزشتہ حکومتوں کی کئی دہائیوں سے شرح افزائش کو کنٹرول کرنے میں نظر اندازی نے پاکستان کو دیگر گنجان آبادی کے حامل بنگلہ دیش اور ایران جیسے ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ پاکستان کئی افریقی ممالک جیسا ہوگیا ہے، جہاں تباہ کن آبادی نے ان کی معیشت کو تباہ کردیا ہے۔ پاکستان کی آبادی کسی بھی افریقی ملک سے زیادہ ہے۔ 1947 میں قیام پاکستان کے وقت آبادی 3 کروڑ 3 لاکھ تھی، آج تقریباً 20 کروڑ ہے۔ آبادی کے لحا ظ سے پاکستان کو دنیا کا چھٹا ملک بنادیا گیا ہے۔

اس وقت پاکستان میں شرح پیدائش 8.3 بچے فی خاتون ہیں۔ قدرتی وسائل خاص طور پر پانی، بجلی، حکومتی خدمات، بنیادی ڈھانچے اور خاندان پر دباؤ پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور یہ صورت حال مزید خراب سے خراب ہوتی جائے گی۔ ماہر اقتصادیات کہتے ہیں کہ سیاست دان طویل مدتی سطح پر نہیں سوچ رہے، وہ انتخابی سائیکل سے آگے نہیں سوچتے۔

آبادی کونسل کی کنٹری ڈائریکٹر کہتی ہیں کہ آبادی کی منصوبہ بندی پر لوگوں یا جماعتوں کے درمیان کوئی مضبوط اتحاد نہیں۔ اس مسئلے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو واقعی سب کو متاثر کررہا ہے، یہ دہشت گردی جیسے مسئلے کی طرح ہمیں کاٹ رہا ہے لیکن اس پر بات کرنے کو کوئی تیار نہیں، اگر آبادی جیسے مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان میں غربت، مذہبی انتہا پسندی، بڑھتی ہوئی آبادی کا ایک خطرناک اور غیر مستحکم مرکب بن جائے گا۔ یاد رہے کہ آبادی میں اضافے سے صرف خوراک کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ زندگی کا ہر معاملہ متاثر ہوتا ہے اور ایک بڑے بحران کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ آبادی میں بے تحاشا اضافہ بڑی تباہی کی طرف لے جاتا ہے ۔ نہرو کہتا ہے ''کوئی ملک جن موضوعات کو زیر بحث لاتا ہے اس سے اس ملک کے سیاسی ارتقا کا اندازہ ہوتا ہے ، اس ملک کی ناکامی اکثر اس بنا پر ہوتی ہے کہ اس نے اپنے آپ سے درست سوالات نہیں کیے تھے۔''

آج ہمارے سامنے جو نتیجہ منہ پھاڑے کھڑا ہے یہ ہمارے ہی بیمار اور رجعت پسند خیالات کی پیداوار ہے ۔ ہم نے 67 سال میں سب کچھ برباد کر کے رکھ دیا ۔ اگر کوئی صاحب آپ کو اس بات کے حق میں بحث کرتے نظر آئیں کہ پاکستانی ایک مہذب، دوراندیش ، سمجھ دار قوم ہے تو آپ ان کی ذہنی کیفیت درست نہ ہونے کے بارے میں شک وشبہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے ۔ پاکستانی قوم آج دنیا کی وحشی ترین ، غیر سنجیدہ ، ضدی ، اپنے آپ میں قید قوموں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے ۔ دنیا بھر میں پولیو ہمارے ملک سے درآمد ہو رہا ہے ۔ معصوم انسانوں کو زندہ ہم جلا رہے ہیں ۔ دہشت گردی ، انتہاپسندی ہمارے ملک سے دنیا میں پھیل رہی ہے ۔

کرپشن ، ملاوٹ ، بے ایمانی ، لالچ ، حسد ، منافقت ، کمیشن ہماری رگوں میں دوڑتے پھر رہے ہیں ۔ حاملہ عورتوں کو ہم غیرت کے نام پر قتل کررہے ہیں ۔ مذہب کے سب سے بڑے ٹھیکیدار ہم بنے ہوئے ہیں ۔ تمام ذہنی اور جسمانی کرپشن میں ہم ملوث ہیں ۔ پوری دنیا میں نفرت اور انتقام کی سیاست ناپید ہوتی جا رہی ہے جب کہ ہمارے ملک میں اسے روز بروز فروغ ملتا جارہا ہے ۔ ہم خود ہی مدعی ہیں، خود ہی منصف ہیں ، خود ہی جلاد ہیں ، خود ہی عدالت ہیں اور خود ہی تماشائی ہیں ۔ اب اس صورتحال میں کیا کیا جائے، آپ ہی بتلا دیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔