تاریخ سے سبق حاصل کیجیے

بنگلہ دیش کا قیام پاکستان کا دو حصوں میں تقسیم ہونا ہی نہیں تھا بلکہ یہ دو قومی نظریے کی شکست تھی۔


جبار قریشی November 15, 2014
[email protected]

ہندوستان کو آزاد ہوئے 67 سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ ایک وسیع تر رقبہ رکھنے کے باوجود آج بھی ایک قومی وحدت کا حامل ہے۔ امریکی معاشرہ مختلف رنگ و نسل کا حامل ہونے کے باوجود اتحاد و اشتراک کی تصویر بنا ہوا ہے۔ لیکن پاکستان اپنی آزادی کے 23 سال بعد ہی دولخت ہوگیا۔ وہ کیا عوامل تھے۔

جس کی وجہ سے اپنی آزادی کے دو دہائیوں کے بعد ہی ہمارا ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور آخر اس ملک کی تقسیم کا ذمے دار کون ہے؟ اس ضمن میں دو آرا پائی جاتی ہیں ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کے عوام محب وطن تھے، وہ پاکستان کے مخالف نہیں تھے بلکہ مغربی پاکستان کے اقتدار کے خلاف تھے۔ مجیب الرحمن کی اکثریتی کامیابی کی وجہ سے پاکستان پر حکمرانی اس کا آئینی حق تھا، جس سے اسے دانستہ محروم رکھا گیا۔ بنگالی عوام کا نہ صرف سیاسی استحصال کیا گیا بلکہ ان کا معاشی، ثقافتی استحصال بھی کیا گیا۔

اس سیاسی بحران کے حل کے لیے بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی کوششوں کو ناکام بنایا گیا ۔ پولینڈ کی جو قرارداد پیش کی گئی تھی اس میں سیاسی بحران کا حل موجود تھا لیکن اس وقت کی قیادت نے اس قرارداد کے صفحات کو ہوا میں لہرا کر اسے پھاڑ دیا۔ جس کی وجہ سے عالمی سطح پر اس مسئلے کے حل کے لیے کی جانے والی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ بھارت کی جانب سے غیر ملکی مداخلت ہوئی۔ امریکا نے غیرملکی مداخلت کی صورت میں دفاعی مدد کا وعدہ کیا تھا۔

جنگ کے دوران امریکی بحری بیڑے نے آنا تھا، لیکن امریکا کی بے وفائی کے باعث بحری بیڑا نہ پہنچ سکا اور اس طرح پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا بھارت کو آزادانہ موقع میسر آگیا اور اس طرح اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بنگلہ دیش وجود میں آگیا۔ بنگلہ دیش کا قیام پاکستان کا دو حصوں میں تقسیم ہونا ہی نہیں تھا بلکہ یہ دو قومی نظریے کی شکست تھی۔

سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے دوسرا نقطہ نظر بھی سامنے آتا ہے۔ جس سے دانستہ چشم پوشی اختیار کی جاتی ہے جوکہ عدل و انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق 1970 کے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہ تھے۔ عوامی لیگ جو ایک قوم پرست جماعت کا روپ دھار چکی تھی اس نے وہاں نہ کسی سیاسی جماعت کو جلسہ کرنے دیا اور نہ ہی پاکستان کے حامی عوام کو ووٹ کاسٹ کرنے دیے۔ شیخ مجیب الرحمن نے چھ نکات کی اساس پر صوبائی خودمختاری پر اصرار کیا تھا، وہ نئے آئین کو بھی چھ نکات کی اساس پر مرتب کرنے کے حق میں تھے۔

اس پر عمل پیرا ہونے سے ملک دو حصوں میں نہیں کئی حصوں میں تقسیم ہوجاتا۔ ظاہر ہے اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے یہاں کی قیادت نے ان سے سیاسی سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ وزیراعظم پاکستان بننے کے بجائے بانی بنگلہ دیش بننا چاہتے تھے، اس لیے انھوں نے سیاسی سمجھوتے کے عمل کو ناکام بنادیا۔ مجیب الرحمن کو اقتدار دینے کا مطلب پاکستان کو علیحدگی پسندوں کے حوالے کرنا تھا جسے کسی طرح بھی قبول نہیں کیا جاسکتا تھا۔ بنگالیوں کا کوئی سیاسی، معاشی اور ثقافتی استحصال نہیں کیا گیا تھا۔

وہاں کے علیحدگی پسند عناصر نے اس طرح کا پروپیگنڈہ کیا تھا تاکہ اس طرح کے تاثر کے ذریعے اپنے ناپاک مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔ قومی زبان ''اردو'' کا معاملہ ایک طے شدہ امور تھا۔ قومی زبان کو متنازعہ بنانے کا مقصد ملک کی یک جہتی اور اتحاد کو نقصان پہنچانا تھا جس کو کسی صورت بھی قبول نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سیاسی عمل میں ناکامی کے بعد ملٹری ایکشن ہی آخری آپشن رہ جاتا ہے۔ سیاسی سمجھوتے کی ناکامی کے بعد ہی ملٹری ایکشن کا فیصلہ کیا گیا جوکہ اس وقت کے تناظر میں درست فیصلہ تھا۔ اگر مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن نہ کیا جاتا تو پاکستان کے مخالفین جوکہ انڈیا کے ساتھ مل گئے تھے وہ پاکستان کے حامیوں بالخصوص اردو بولنے والوں کا بڑی تعداد میں قتل عام کرتے کیونکہ انھیں وہاں مغربی پاکستان کا نمایندہ سمجھا جاتا تھا۔

ہزاروں بنگالیوں کے قتل عام کا تاثر غلط ہے، افواج پاکستان کا وہاں کے مٹھی بھر علیحدگی پسندوں سے تصادم تھا۔ یہ ایک عسکری اصول ہے کہ فوج پر جب کوئی حملہ کرتا ہے تو فوج حملہ آوروں کو پھول پیش نہیں کرتی بلکہ جوابی کارروائی کرتی ہے۔ اس جوابی کارروائی کو قتل عام کا نام دینا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ البدر اور الشمس پاکستان کے حامیوں پر مشتمل عوامی تنظیمیں تھیں، ان کا پاکستانی افواج سے کوئی تعلق نہ تھا، ان تنظیموں کو پاکستانی افواج کا ایجنٹ قرار دینے کا مقصد ان کے خلاف انتقامی کارروائی کا جواز پیدا کرنا تھا۔

پولینڈ کی قرارداد کو اس سیاسی بحران کا حل قرار دینے والے دراصل اس قرارداد کے متن سے ہی واقف نہیں ہیں، اس کی منظوری سے پاکستان دو حصوں میں نہیں کئی حصوں میں تقسیم ہوجاتا۔ اس وقت کی سیاسی قیادت نے سیاسی بصیرت سے کام لے کر اس عالمی سازش کو ناکام بنادیا۔ امریکا پر دھوکا دہی کا الزام غلط ہے۔ یہ بات پہلے سے طے شدہ تھی کہ امریکی بحری بیڑا صرف اس وقت آنا تھا جب کسی بھی کمیونسٹ ملک کی جانب سے اس جنگ میں مداخلت کی جاتی۔ ایسا نہیں ہوا اس لیے امریکا اس جنگ سے لاتعلق رہا۔

سقوط ڈھاکا کے حوالے سے پہلا نقطہ نظر درست ہے یا دوسرا، اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں، میری ذاتی رائے میں سیاسی عمل بار بار توڑے جانے اور مارشل لا کے نفاذ سے قومی قیادت کا خلا پیدا ہوا جس کی وجہ سے یہ قومی سانحہ پیش آیا۔

کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے یہ بات غلط ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی نہیں ہے البتہ اگر اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے تو یہ سبق ضرور سکھاتی ہے ۔ اس لیے ہمیں تاریخ سے سبق ضرور حاصل کرنا چاہیے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں