خیالی پلاؤ وہ آرہی ہے

نرگس کی آنکهوں کہ سامنے خوبصورت سی لڑکی کی شبیہہ آنا شروع ہوگئی، اس نے سوچا ضرور یہ لڑکی نیلو ہوگی۔

نرگس کی آنکهوں کہ سامنے خوبصورت سی لڑکی کی شبیہہ آنا شروع ہوگئی، اس نے سوچا ضرور یہ لڑکی نیلو ہوگی۔ فوٹو فائل

نرگس ایک سیدهی سادهی خاتون تھیں، انہیں نہ فیشن سے دل چسپی نہ ٹی وی سے نہ اپنی حالت زار سے۔ میٹرک پاس تھیں اور امور خانہ داری میں ماہر، گهر کو چمکا کر رکھنا ان کی عادت ہی نہیں بلکہ شوق بھی تھا۔ وہ 2 عدد بیٹوں کی ماں تھیں، جب اختر صاحب سے ان کی شادی ہوئی تو انہوں نے سن رکها تها کہ اختر بڑے عاشق مزاج ہیں، لیکن شادی کے 12 سال بعد بھی ایسی کوئی بات نظر نہ آئی۔ مگر برا ہو اس شک کی بیماری کا ایک دفعہ دل میں بیٹھ جاتا ہے تو نکلتا ہی نہیں۔

اختر صاحب کی کپڑوں کی بہت بڑی دکان تهی۔ ایک دن اختر صاحب طبیعت ناساز ہونے کی بنا پر گهر جلدی آگئے کہ اچانک ہی دکان سے ملازم کا فون آیا کہ نیلو خاتون آئی ہیں اور بضد ہیں کہ جب تک آپ دکان پر تشریف نہیں لائیں گے خریداری نہیں کریں گی۔ نیلو کا نام جب نرگس کے کان میں پڑا اور انہوں نے دیکھا کہ طبیعت خراب ہونے کہ باوجود اختر صاحب دکان چلے گئے تو وسوسوں نے ان کی دل میں سر اٹھانا شروع کردیا۔

نرگس کی آنکهوں کہ سامنے خوبصورت سی لڑکی کی شبیح ابھرنا شروع ہوگئی، اس نے سوچا ضرور یہ لڑکی نیلو ہوگی۔ نرگس نے دکان کہ ملازم سے فون پر پوچه گچه کی، جس نے صرف اتنا ہی بتایا کہ نیلو صاحبہ آج کل خریراری کرنے کافی آرہی ہیں۔ نرگس نے نہ عمر پوچهی نہ حلیہ کیونکہ اس کے ذہن میں پہلے سے ہی ایک خوبصورت لڑکی کا تصور بیٹه گیا تھا۔ سونے پر سہاگہ اس کے 9 سالہ بیٹے فواد نے کہا امی نیلوفر آرہی ہے۔ یہ سنا تها کہ نرگس کہ ہاته سے شیشے کا گلاس ٹوٹ گیا، پوچها کس نے کہا تو بیٹے نے جواب دیا کہ ابو نے کہا ہے کہ وہ آرہی ہے اور بڑے زور سے آرہی ہے۔ بیٹا تو یہ کہہ کر چلا گیا کہ نیلوفر بڑی طوفانی چیز ہیں لیکن نرگس کہ بدن پر لرزہ طاری ہوگیا۔


نرگس کو اپنی شادی شدہ زندگی ختم ہوتی نظر آنے لگی۔ اس نے فورآ اپنی اکلوتی بہن کو فون لگایا کہ شاید اسے نیلوفر کہ بارے میں کچه معلوم ہو، کیونکہ اس کے شوہر شاہد کی دکان بهی اسی مارکیٹ میں ہے جس مہں اختر صاحب کی ہے۔ بہن اپنے بچے کی بیماری کی وجہ سے بہت پریشان تهی، نیلوفر کے بارے میں پوچهنے پر اس نے کہا کہ سنا تو میں نے بهی ہے اور شاہد بهی نیلوفر کہ بارے میں کچه بتا تو رہے تهے، اتنے بچے کی رونے کی آواز آئی تو بہن نے خدا حافذ کہ کر فون رکه دیا۔ اب نرگس کو یہ تو پتہ چل گیا کہ نیلوفر کا خطرہ موجود ہے، وہ سارا دن یہی سوچتی رہی کہ اب اس سے کیسے نمٹا جائے۔

رات کو سونے سے پہلے روزانہ کی طرح شوہر کہ پاؤں دباتے ہوئے نرگس نے حوصلہ کرتے ہوئے پوچھ ہی لیا کہ یہ نیلوفر کون ہے؟ آپ اسے گهر پر کیوں لا رہے ہیں؟ اور اس کی آنکهوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اختر صاحب نے چونک کر اپنی بیوی کی طرف دیکها اور دل میں مسکرائے اور سوچها کہ 60 سالہ نیلو خاتون اپنی دو بیٹیوں کے جہیز کی خریداری کرنے آتی تهیں، تگری اسامی تهیں، خیال تو رکهنا ہی تها نا لیکن یہ بات چهپا کر وہ معصوم سی شکل بنا کر کہنے لگے کہ جو میں کہوں گا وہی کروگی تو پهر کوئی نیلوفر نہیں آئیگی۔ نرگس نے پکا وعدہ کرلیا تو اختر صاحب نے کہا پہلی بات میرے پاس بالوں میں سرسوں کا تیل لگا کر مت آیا کرو بو آتی ہے، نرگس جلدی سے بولی اسے تو بال لمبے اور اچهے ہوتے ہیں اور سفید بهی جلدی نہیں ہوںگے تو اختر صاحب بولے پهر نیلو تو۔۔۔۔۔ نرگس جلدی سے بولی ٹهیک ہے ٹهیک ہے نہیں لگا کر آونگی۔ پرانے آوٹ ڈیٹڈ کپڑوں کے بجائے نئے فیشن کے کپڑے پہنوگی، شام کو میرے آنے سے پہلے اچهی طرح تیار رہا کروگی، نرگس ہاں ہاں سر ہلاتی رہی اور اختر صاحب مزید بولے کہ دکان کے ملازم سے کبهی میرے بارے میں پوچهہ گچهہ نہیں کروگی تو نرگس توبہ توبہ استغفار کرنے لگی کہ اب کبهی نہیں کرونگی۔

دوسرے دن کی شام کو نرگس کی زیبائش دیکهنے کے قابل تهی، لگ نہیں رہا تها کہ یہ وہی نرگس ہے. فواد نے بڑے غور سے دیکها اور سوچها کہ یہ وہی امی ہیں اور جاتے ہوئے بولا کہ نیلوفر ضرور آئے گی پیشنگوئی ہے. نرگس نے اطمینان سے جواب دیا کہ اب نیلوفر کبهی نہیں آئیگی۔ نرگس کی دعا سے نیلوفر ٹل گئی اور بہت سے گھر تباہ ہونے سے بچ گئے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story