خیالی پلاؤ نظم مٹھی کا بچہ

تم بس آنکھیں بند رکھنا اور سوچنا کہ کچھ بھی نہیں ہوا<br /> بس امیروں کے دیس میں، ایک اور غریب کا بچہ،


قیصر اعوان November 16, 2014
آج میرے گاؤں کا، ایک اور بچہ دم توڑ گیا غربت سے، افلاس سے، بھوک سے، پیاس سے بھوک سے مر گیا تو کیا ایسا ہو گیا، مِٹھی کا بچہ تھا مٹی میں مل گیا۔ فوٹو: فائل

آج میرے گاؤں کا
ایک اور بچہ دم توڑ گیا
غربت سے، افلاس سے
بھوک سے، پیاس سے
ہر روز یہی ہوتا ہے
ہر روز کوئی مَر جاتا ہے
کبھی کسی گھر سے توکبھی کسی گھر سے
رونے کی آوازیں اُٹھتی ہیں
کہیں باپ کی آہیں سنتا ہوں
کہیں مائیں ماتم کرتی ہیں
سہمے چہرے بہن بھائیوں کے
جسے گود میں اُٹھا کرپھرتے تھے
جس سے کھیلنے کے لیے آپس میں لڑتے تھے
آج وہ مُنّا کدھر گیا
کہتے ہیں مُنّامَر گیا

جب پچھلے سال میں بیمار ہوا تھا
بڑی گاڑی میں شہر گیا تھا
دوسرے کئی بچوں کے ساتھ
ہاں! میں نے شہربھی دیکھا تھا
وہاں پر تو بڑے بڑے لوگ
بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں
جتناکھانا ہم سب گھر والے
ہفتے بھر میں کھاتے ہیں
اتنا تو وہ روز ہی
کچرے میں ڈال دیتے ہیں
اور میں سوچتا تھا
جب ہم بھوک سے مرتے ہیں
تو یہ سارے پیسے والے
ہماری مدد کیوں نہیں کرتے ہیں
یہ ٹی وی والے بھی تب آتے ہیں
جب ہم میں سے کئی مر جاتے ہیں

اولاد تو آخر اولاد ہوتی ہے
کوئی امیر ہو یا غریب چاہے
کلیجہ تو آخر پھٹ ہی جاتا ہے
بچہ امیر کا ہو یا غریب کا مرے
جب پچھلے سال میرابھائی مرا تھا
میری ماں بھی بہت روئی تھی
اور آج بھی روتی رہتی ہے
جب میری حالت دیکھتی ہے
وہی بھوک ہے، وہی افلاس ہے
نہ کوئی اُمید ہے، نہ کوئی آس ہے
پہلے میرابھائی مرا تھا
اب کی بارمیں مروں گا
تم بس آنکھیں بند رکھنا
اور سوچنا کہ کچھ بھی نہیں ہوا
بس امیروں کے دیس میں
ایک اور غریب کا بچہ
بھوک سے مر گیا
تو کیا ایسا ہو گیا
مِٹھی کا بچہ تھا
مٹی میں مل گیا

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے غزل لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں