پاکستان ایک نظر میں پاکستان یا پولیوستان
یہاں اہل اقتدار اپنے مفادات کی جنگ میں مصروف عمل ہے اور اُس کے پا س وقت ہی نہیں ہے کہ وہ عوام کے بارے میں سوچے۔
شاید ہی کوئی دن ایسا ہو کہ بطور پاکستانی ہمیں اپنے ملک کے بارے میں کوئی اچھی خبر سننے اور پڑھنے کو ملے، خواہ پھر وہ بات ہو دہشت گردی کی یا پھر پولیو جیسی مہلک بیماری کی کے بارے میں ہو۔
بس شاید یہی وجہ ہے آج عالمی ادارہ صحت کیجانب سے پاکستان میں پولیو کے بارے میں رپورٹ نے کچھ زیادہ پریشان نہیں کیا۔جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دنیابھر میں واحد پولیو پھیلانے والا ملک ہے ۔ اگر یا دہو تو کچھ عرصہ پہلے اسی خدشہ کے پیش نظر پاکستانیوں پر بیرون ملک سفر کے لئے پو لیو سرٹیفیکیٹ دکھا نا لازمی قرار دیا گیا تھا ۔اب اس ادارے نے اس تحفظ کا اظہار بھی کیا ہے کہ اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے اور اس ادارے کے اجلاس میں پاکستان کی حکومت کو خبر دار کیا گیا ہے کہ اگر اس کی روک تھام کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدام نہ کے گئے تو بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کی سکریننگ کی جا ئے گی ۔
غالباً پاکستانیوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کیا جائے گا جیسا کہ ایبولا بیماری کی وجہ سے افریقی ملکوں کے باشندوں سے کیا جاتا ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہمارے ملک کا نا م پاکستان کی بجائے پولیو ستان نہ بن جائے۔
میں تو یہ سوچتا ہوں کہ بھلا آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ ہم گزشتہ کئی سالوں سے اس بیماری کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکے ۔یہ بات اگر حکومت سے کی جا ئے تو وہ اس کا ملبہ ماضی کی حکومتوں پر ڈال دیتے ہیں جبکہ اس بیماری کے خاتمے میں دہشت گردی کو بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں ، شاید اس جواز کے لئے وہ پولیو ورکرز کی ہلاکتوں کو بطور مثال پیش کریں۔ حالانکہ یہ باتیں بھی کسی حد تک ٹھیک ہو سکتی ہیں مگرمجھے تو اصل مسئلہ بد نیتی کا ہے ۔
یہاں اہل اقتدار اپنے مفادات کی جنگ میں مصروف عمل ہیں اور اُن کے پا س وقت ہی نہیں ہے کہ وہ اِس ملک اور اس کی بیچا ری عوام کے بارے میں سوچے، چاہے وہ سیاستدان ہو ، کاروباری طبقہ ہو یا پھر بیوروکریٹ ہوں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر بھارت ، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ملک اس مرض کا خاتمہ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں،و جہ کوئی بہت بڑی نہیں بلکہ صرف ہماری اپنی کو تاہیاں اور اپنی غفلتیں ہیں۔
یہ ساری باتیں تو ایک طرف اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب ہمیں ان فضول بحث و مباحثے میں پڑھنا چاہیے یا کو ئی عملی اقدام بھی کرنا چاہیے ۔ یہ وہ وقت ہے کہ دنیا آگے کی طرف جا رہی ہے اور ہم پیچھے کو جارہے ہیں ۔ امریکی سینٹرفار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی ) کے مطابق پوری دنیا میں پو لیو کا وائرس ختم ہو نے کو ہے مگر پا کستان میں ماضی کی نسبت پولیو کے زیادہ کیسز سامنے آئے ، اب جب کہ ہم پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا سبب اس پولیو کی وجہ سے بنے ہوئے ہیں تو ہمیں زبانی جمع خرچ کی بجائے اس مرض کے خاتمے کے لئے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے۔ چاہے اس کے خاتمے کے لئے پاک فوج سے ہی مدد کیو ں نہ لی جائے ۔
اگر اللہ نہ کرے ہم اس کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے تو ہم مزید عالمی پا بندیوں کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم عالمی تنہائی کے اس اند ھیرے میں چلیں جائیں، جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگنا ہوگا کیونکہ دہشتگردی کی وجہ سے پہلے ہی دنیا کا ہم سے اعتبا ر اٹھ چکا ہے ۔
بس اِس ملک کے عام شہری ہونے کی حیثیت سے اپنی حکومت سے مطالبہ ہے کہ جناب ، آپ کو قدرت نے اپنے لوگوں کی خدمت کا موقع دیا ہے اور یہ پہلی بار نہیں بلکہ تیسری بار ملا ہے اور یہ سب آپ کے رعایا کے ووٹوں سے ہی ممکن ہوا ہے تو خدارا احسان فراموشی کے بجائے فرض شناسی پر فوکس کریں اور اپنے ملک اور اپنی عوام کو دنیا کے سامنے ذلت اور رسوائی سے بچائیے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بس شاید یہی وجہ ہے آج عالمی ادارہ صحت کیجانب سے پاکستان میں پولیو کے بارے میں رپورٹ نے کچھ زیادہ پریشان نہیں کیا۔جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دنیابھر میں واحد پولیو پھیلانے والا ملک ہے ۔ اگر یا دہو تو کچھ عرصہ پہلے اسی خدشہ کے پیش نظر پاکستانیوں پر بیرون ملک سفر کے لئے پو لیو سرٹیفیکیٹ دکھا نا لازمی قرار دیا گیا تھا ۔اب اس ادارے نے اس تحفظ کا اظہار بھی کیا ہے کہ اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے اور اس ادارے کے اجلاس میں پاکستان کی حکومت کو خبر دار کیا گیا ہے کہ اگر اس کی روک تھام کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدام نہ کے گئے تو بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کی سکریننگ کی جا ئے گی ۔
غالباً پاکستانیوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کیا جائے گا جیسا کہ ایبولا بیماری کی وجہ سے افریقی ملکوں کے باشندوں سے کیا جاتا ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہمارے ملک کا نا م پاکستان کی بجائے پولیو ستان نہ بن جائے۔
میں تو یہ سوچتا ہوں کہ بھلا آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ ہم گزشتہ کئی سالوں سے اس بیماری کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکے ۔یہ بات اگر حکومت سے کی جا ئے تو وہ اس کا ملبہ ماضی کی حکومتوں پر ڈال دیتے ہیں جبکہ اس بیماری کے خاتمے میں دہشت گردی کو بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں ، شاید اس جواز کے لئے وہ پولیو ورکرز کی ہلاکتوں کو بطور مثال پیش کریں۔ حالانکہ یہ باتیں بھی کسی حد تک ٹھیک ہو سکتی ہیں مگرمجھے تو اصل مسئلہ بد نیتی کا ہے ۔
یہاں اہل اقتدار اپنے مفادات کی جنگ میں مصروف عمل ہیں اور اُن کے پا س وقت ہی نہیں ہے کہ وہ اِس ملک اور اس کی بیچا ری عوام کے بارے میں سوچے، چاہے وہ سیاستدان ہو ، کاروباری طبقہ ہو یا پھر بیوروکریٹ ہوں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر بھارت ، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ملک اس مرض کا خاتمہ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں،و جہ کوئی بہت بڑی نہیں بلکہ صرف ہماری اپنی کو تاہیاں اور اپنی غفلتیں ہیں۔
یہ ساری باتیں تو ایک طرف اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب ہمیں ان فضول بحث و مباحثے میں پڑھنا چاہیے یا کو ئی عملی اقدام بھی کرنا چاہیے ۔ یہ وہ وقت ہے کہ دنیا آگے کی طرف جا رہی ہے اور ہم پیچھے کو جارہے ہیں ۔ امریکی سینٹرفار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی ) کے مطابق پوری دنیا میں پو لیو کا وائرس ختم ہو نے کو ہے مگر پا کستان میں ماضی کی نسبت پولیو کے زیادہ کیسز سامنے آئے ، اب جب کہ ہم پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا سبب اس پولیو کی وجہ سے بنے ہوئے ہیں تو ہمیں زبانی جمع خرچ کی بجائے اس مرض کے خاتمے کے لئے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے۔ چاہے اس کے خاتمے کے لئے پاک فوج سے ہی مدد کیو ں نہ لی جائے ۔
اگر اللہ نہ کرے ہم اس کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے تو ہم مزید عالمی پا بندیوں کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم عالمی تنہائی کے اس اند ھیرے میں چلیں جائیں، جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگنا ہوگا کیونکہ دہشتگردی کی وجہ سے پہلے ہی دنیا کا ہم سے اعتبا ر اٹھ چکا ہے ۔
بس اِس ملک کے عام شہری ہونے کی حیثیت سے اپنی حکومت سے مطالبہ ہے کہ جناب ، آپ کو قدرت نے اپنے لوگوں کی خدمت کا موقع دیا ہے اور یہ پہلی بار نہیں بلکہ تیسری بار ملا ہے اور یہ سب آپ کے رعایا کے ووٹوں سے ہی ممکن ہوا ہے تو خدارا احسان فراموشی کے بجائے فرض شناسی پر فوکس کریں اور اپنے ملک اور اپنی عوام کو دنیا کے سامنے ذلت اور رسوائی سے بچائیے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔