بات کچھ اِدھر اُدھر کی ایسے علم کا کیا فائدہ
معلومات مل رہی ہیں مگر علم وہ نہیں رہا جو اچھائی اور برائی کی تمیز سکھاتا تھا۔
میں اور جاوید بچپن سے ہی گہرے دوست تھے۔ ہماری دوستی کی وجہ ہمارے اسکول کا ایک ہونا ہی نہیں تھا بلکہ ہمارے گھر بھی ساتھ ساتھ تھے۔ہم اکٹھے ا سکول پیدل ہی جاتے اور کبھی یوں بھی ہوتا کہ پتنگیں ہماری علم دوستی کے آڑے جا تی اور ہم بجائے کلاس رومز کے پتنگ بازی یا پھر کٹی پتنگوں کے پیچھے بھاگنے میں لگ جاتے اور ٹھیک ا سکول کی چھٹی کے وقت واپسی کی راہ لیتے ایسا کرنا ہمارا معمول نہیں تھا مگر پھر بھی مہینے میں دو تین بار ایسا ہو جاتا تھا۔ہماری پہلی خوش قسمتی یہ تھی کہ ہمارے خاندانوں کا شمار مڈل کلاس درجے میں ہوتا تھا جن کی ساری کوششوں اور صلاحیتوں کا محور دو وقت کی روٹی ہی ہوتا ہے اور اسکے باوجود ان کی اولاد محنت کے فارمولے پر یقین رکھتی ہوئی عملی زندگی میں ایک اعلی مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوہی جاتی ہے۔ ہماری دوسری خوش قسمتی یہ تھی کہ ہم سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے جہاں اساتذہ بھی ہماری طرح ڈھیلے ڈھالے نصیبوں والے ہوتے تھے بقول شاعر ؛
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا۔۔۔۔یاد نہیں
ان کے نزدیک چھترول ہی واحد حل تھا جس سے وہ ہمیں کافی دنوں تک صراط المستقیم پر رکھ سکتے تھے ۔ ہمارا اور استاد کا ایک بڑا رومانوی سا رشتہ تھا ویسے بھی سارے استاد حادثاتی طور پرہی اس شعبہ میں آتے تھے وہ بھی ہماری طرح زندگی سے بیزار سے رہتے تھے شاید ہمارے بہت سے دکھ مشترکہ تھے جن کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے بڑی مضبوط ڈوری سے بلکہ ایک ڈنڈے سے بندھے ہوئے تھے ۔عام حالات میں ہمیں دو ڈنڈے پڑتے تھے اور اگر وہ گھر سے بغیر ناشتہ کئے آئے ہوتے تو پھر چار۔ بڑا ڈھیٹ سا تعلق تھا ہمارے درمیان۔
ایک پیریڈ اگر سکون سے گزرتا تھا تو بے چینی دونوں طرف بڑھ جاتی تھی کہ خیر ہی ہو آج ماسٹر صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں لگتی جو ڈنڈااستعمال نہیں کر رہے۔ اگر کبھی گھر جا کر کسی نے ماسٹر صاحب کی شکایت کی کوشش بھی کی تو والد صاحب ہماری ہی نالائقی کی بات کرتے، انہیں اپنی اولاد سے زیادہ استاد کے مقام کا خیال ہوتا تھا اور ان کی بات اپنی جگہ سچ بھی ہوتی تھی ہمارے کسی بھی استاد نے بغیر کسی وجہ کے ڈنڈے کا استعمال کیا بھی تو نہیں ہوتا تھا۔ ہم بہت اچھے نمبروں سے پوزیشنز لیتے اور جب فیل ہونے پر آتے تو اس میں بھی ریکارڈ بناتے۔
جیسے جیسے کلاسز بڑھتی ویسے ویسے ایک ایک کتاب کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ،ابتدائی کلاس میں ایک اردو اور انگلش کا قائدہ ہوتا تھا بعد میں اس میں دینیات، معاشرتی علوم، سائنس اور حساب کا اضافہ ہو جاتا۔ یہی وہ علم تھا جس کی بنیاد پر ہم اپنے والدین کا ادب کرتے تھے ،ایک رکھ رکھاؤ تھا گھر میں،اور جب گھر کا ماحول پر سکون ہو تو پھر معاشرے میں بھی سکون رہتا ہے۔ آج جاوید میری طرف آیا اور ہم یہی باتیں کر رہے تھے کہ اب جبکہ ہمارے بچے اعلی اور مہنگے اسکول میں بھاری بھرکم بیگز کے ساتھ جاتے ہیں جن میں بے پناہ جدید ترین معلومات ہوتی ہیں مگر ان کے دل ادب و احترام اور احساس کے جذبے سے عاری سے ہوتے جا رہے ہیں ۔معلومات مل رہی ہیں مگر علم وہ نہیں رہا جو اچھائی اور برائی کی تمیز سکھاتا تھا۔
ہم کافی دیر تک عہد ماضی اور حال میں ڈوبتے ابھرتے رہے ۔ ڈاکٹرز ، انجینئرز اور ہر طرح کے ماہرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے مگر اس کے ساتھ معاشرتی و اخلاقی حالت کا سفر بھی تنزلی کی طرف تیزی سے جاری ہے۔ ہم نے بچوں کی معصومیت ان سے چھین کر اور خوبصورت رشتوں سے انہیں توڑ کر جدیدیت کے ان اندھیروں میں دھکیل دیا ہے جہاں آگے چل کر یہ خود بھی بے اختیار ہو چکے ہیں۔ ماں باپ اور اولاد کا صرف اب ضرورتوں کا رشتہ ہی بچا ہے جیسے ہی وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنی ضروریات خود پورا کر سکیں اسی وقت والدین کو گھر کے پرانے کا ٹھ کباڑ کی طرح اٹھا کر کسی کونے میں پھینک دیتے ہیں۔ میں اورجاوید بھی اسی غم میں گھل رہے ہیں کہ کہیں ہمارے بچے بھی ہمیں دنیا کی تیز رفتاری میں کہیں بھول نہ جائیں ۔ آپ ہی بتائیں کیا فائدہ ایسے علم کا جو آپ کو ایک مشینی زندگی گزارنے اور اپنوں سے دور رہنے پر مجبور کردے۔ سوچئے گا ضرور۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا۔۔۔۔یاد نہیں
ان کے نزدیک چھترول ہی واحد حل تھا جس سے وہ ہمیں کافی دنوں تک صراط المستقیم پر رکھ سکتے تھے ۔ ہمارا اور استاد کا ایک بڑا رومانوی سا رشتہ تھا ویسے بھی سارے استاد حادثاتی طور پرہی اس شعبہ میں آتے تھے وہ بھی ہماری طرح زندگی سے بیزار سے رہتے تھے شاید ہمارے بہت سے دکھ مشترکہ تھے جن کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے بڑی مضبوط ڈوری سے بلکہ ایک ڈنڈے سے بندھے ہوئے تھے ۔عام حالات میں ہمیں دو ڈنڈے پڑتے تھے اور اگر وہ گھر سے بغیر ناشتہ کئے آئے ہوتے تو پھر چار۔ بڑا ڈھیٹ سا تعلق تھا ہمارے درمیان۔
ایک پیریڈ اگر سکون سے گزرتا تھا تو بے چینی دونوں طرف بڑھ جاتی تھی کہ خیر ہی ہو آج ماسٹر صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں لگتی جو ڈنڈااستعمال نہیں کر رہے۔ اگر کبھی گھر جا کر کسی نے ماسٹر صاحب کی شکایت کی کوشش بھی کی تو والد صاحب ہماری ہی نالائقی کی بات کرتے، انہیں اپنی اولاد سے زیادہ استاد کے مقام کا خیال ہوتا تھا اور ان کی بات اپنی جگہ سچ بھی ہوتی تھی ہمارے کسی بھی استاد نے بغیر کسی وجہ کے ڈنڈے کا استعمال کیا بھی تو نہیں ہوتا تھا۔ ہم بہت اچھے نمبروں سے پوزیشنز لیتے اور جب فیل ہونے پر آتے تو اس میں بھی ریکارڈ بناتے۔
جیسے جیسے کلاسز بڑھتی ویسے ویسے ایک ایک کتاب کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ،ابتدائی کلاس میں ایک اردو اور انگلش کا قائدہ ہوتا تھا بعد میں اس میں دینیات، معاشرتی علوم، سائنس اور حساب کا اضافہ ہو جاتا۔ یہی وہ علم تھا جس کی بنیاد پر ہم اپنے والدین کا ادب کرتے تھے ،ایک رکھ رکھاؤ تھا گھر میں،اور جب گھر کا ماحول پر سکون ہو تو پھر معاشرے میں بھی سکون رہتا ہے۔ آج جاوید میری طرف آیا اور ہم یہی باتیں کر رہے تھے کہ اب جبکہ ہمارے بچے اعلی اور مہنگے اسکول میں بھاری بھرکم بیگز کے ساتھ جاتے ہیں جن میں بے پناہ جدید ترین معلومات ہوتی ہیں مگر ان کے دل ادب و احترام اور احساس کے جذبے سے عاری سے ہوتے جا رہے ہیں ۔معلومات مل رہی ہیں مگر علم وہ نہیں رہا جو اچھائی اور برائی کی تمیز سکھاتا تھا۔
ہم کافی دیر تک عہد ماضی اور حال میں ڈوبتے ابھرتے رہے ۔ ڈاکٹرز ، انجینئرز اور ہر طرح کے ماہرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے مگر اس کے ساتھ معاشرتی و اخلاقی حالت کا سفر بھی تنزلی کی طرف تیزی سے جاری ہے۔ ہم نے بچوں کی معصومیت ان سے چھین کر اور خوبصورت رشتوں سے انہیں توڑ کر جدیدیت کے ان اندھیروں میں دھکیل دیا ہے جہاں آگے چل کر یہ خود بھی بے اختیار ہو چکے ہیں۔ ماں باپ اور اولاد کا صرف اب ضرورتوں کا رشتہ ہی بچا ہے جیسے ہی وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنی ضروریات خود پورا کر سکیں اسی وقت والدین کو گھر کے پرانے کا ٹھ کباڑ کی طرح اٹھا کر کسی کونے میں پھینک دیتے ہیں۔ میں اورجاوید بھی اسی غم میں گھل رہے ہیں کہ کہیں ہمارے بچے بھی ہمیں دنیا کی تیز رفتاری میں کہیں بھول نہ جائیں ۔ آپ ہی بتائیں کیا فائدہ ایسے علم کا جو آپ کو ایک مشینی زندگی گزارنے اور اپنوں سے دور رہنے پر مجبور کردے۔ سوچئے گا ضرور۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔