سنگدل اطالوی کوہ پیماؤں نے پاکستانی کو کے ٹو پہ مرنے کے لیے چھوڑ دیا
امیر مہدی اگر 1954ء میں کے ٹو پر پہنچتے تو یقینا قومی کوہ پیمائی کی تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف سے لکھوا لیتے
میری شمچ امریکا کی پلٹنرز ایوارڈ یافتہ صحافی ہے۔ اس کا قول ہے:'' دوسروں سے حسد کرنے میں وقت ضائع مت کیجیے۔
کبھی آپ آگے ہوتے ہیں، کبھی پیچھے۔'' گویا میری کہنا چاہتی ہے کہ زندگی میں ہر انسان کو ناکامیاں ملتی ہیں تو کامیابیاں بھی! لیکن کئی انسان یہ فلسفہِ زندگی نہیں سمجھتے، حتیٰ کہ اپنی کامیابی کی خاطر دوسروں کی جان خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی خوفناک واقعہ ٹھیک ساٹھ سال قبل دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ، کے ٹو پر پیش آیا۔ اس واقعے کی داستان بڑی سبق آموز ہے۔ وہ آشکار کرتی ہے کہ انسان شہرت، عزت اور دولت پانے کی خاطر اپنوں کو بھی روند ڈالتا ہے، افسوس!
ہوا یہ کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد شکست خوردہ یورپی ممالک خصوصاً جرمنی، اٹلی، فرانس وغیرہ میں عوام اپنی ہار کی وجہ سے بہت پژمردہ، مایوس اور شکستہ حال تھے۔ چنانچہ ان ملکوں کی حکومتیں ایسے ہیرو تلاش کرنے لگیں جن کے کارنامے قوم میں دوبارہ احساس تفاخر پیدا کرسکیں اور ان میں ہمت و حوصلے کو جنم دیں۔ کوہ پیمائی نے انہیں ایسے ہی بے مثال ہیرو فراہم کردیئے۔
1949ء کے بعد یورپی کوہ پیما اپنی حکومتوں کے مالی تعاون سے خصوصاً پاک و ہند کا رخ کرنے لگے جہاں 8 ہزار میٹر (26246 فٹ) سے بلند ''چودہ'' پہاڑ واقع ہیں۔ پہلی کامیابی فرانسیسی کوہ پیماؤں، موریس ہرزوگ اور لوئس لیشنال کوملی جنہوں نے جون 1950ء میں دنیا کا دسواں اونچا پہاڑ، اننا پورنا سرکیا۔
یہ انسانی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ انسان 8 ہزار سے زیادہ بلند پہاڑ پہ پہنچا اور اسے مسخر کرلیا۔ یہ کامیابی ایک لحاظ سے اس امر کی نشانی بھی تھی کہ حیرت انگیز انسانی ترقی کا دور شروع ہوچکا۔ بعدازاں دیگر بلند چوٹیاں بھی انسانی قدموں تلے آتی چلی گئیں۔ مئی 1953ء میں کیوی کوہ پیما، ایڈمنڈ ہیلری نیپالی قلی (شیرپا) تینزنگ نورگے کے ساتھ دنیا کی بلند ترین چوٹی، ماؤنٹ ایورسٹ جاپہنچا۔ صرف ایک ماہ چار دن بعد آسٹروی کوہ پیما، ہرمن بول نے پاکستان میں واقع نویں اونچے پہاڑ، نانگا پربت پر اپنا جھنڈا گاڑ دیا۔پڑوسی یورپی ممالک کے کوہ پیماؤں کی فتوحات دیکھ کر اطالوی کوہ پیما مچل اٹھے۔ اب وہ ایسا کارنامہ دکھانا چاہتے تھے کہ ہر جگہ ان کی ''واہ واہ'' ہوسکے۔ چناں چہ ان کی نظریں پاکستان میں واقع دوسری بلند ترین چوٹی ''کے ٹو'' پر مرکوز ہوگئی۔ اسے سر کرکے یقیناً اطالوی کوہ پیما عالمی شہرت حاصل کرلیتے۔
ماؤنٹ ایورسٹ بے شک بلند ترین پہاڑ ہے لیکن وہ کے ٹو کی طرح عمودی چٹانیں،غیر مرئی کھائیاں اور چھوٹے بڑے گڑھے نہیں رکھتا۔ اسی لیے کے ٹو پر چڑھنا بڑا جان جوکھم کا کام ہے۔ پچھلے ایک سو برس میں کئی کوہ پیما کے ٹو کی چوٹی پر پہنچنے کی آرزو لیے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی باعث کے ٹو عرف عام میں ''قاتل پہاڑ'' کہلاتا ہے۔اطالوی کوہ پیماؤں کی ٹیم اواخر مئی 1954ء میں پاکستان پہنچی۔ اس کی قیادت مشہور اطالوی کوہ پیما، کاؤنٹ (نواب) آردیتو دیسیو(Ardito Desio) کررہا تھا۔ پاکستان میں قدم دھرتے ہی ٹیم نے ہنزہ کا رخ کیا۔ وہاں کاؤنٹ دیسیو میر ہنزہ سے ملا تاکہ قلیوں کا بندوبست کرسکے۔
میرہنزہ نے چند قلی انہیں دے ڈالے جن کا لیڈر امیر مہدی تھا۔ 41 سالہ امیر مہدی ہنزہ کے گاؤں حسن آباد میں پیدا ہوا۔ اسے لڑکپن ہی سے پہاڑوں پر چڑھنے کا شوق تھا۔ اسی مشغلے نے اسے قدرتی طور پر اچھا خاصا کوہ پیما بنا دیا۔امیر مہدی دلیر، انسان دوست اور مخلص آدمی تھا۔ پچھلے سال اسی نے ہرمن بول کے ساتھ نانگا پربت کی چڑھائی میں بطور قلی خدمات انجام دی تھیں۔ بول اترتے وقت شدید تھکن کا شکار ہوگیا ۔ چناںچہ امیر مہدی اور اس کے ساتھی نے باری باری بول کو اپنی کمر پر لاد کر بقیہ راستہ طے کیا اور اسے بخیر و عافیت نیچے بیس کیمپ تک پہنچایا۔ یوں امیر مہدی نے فرض شناسی اور انسان دوستی کی بہترین مثال قائم کردی۔
اب اطالویوں کے ساتھ بھی وہ ایک پُر خطر اور دلچسپ مہم کا منتظر تھا۔ افسوس کہ اس معصوم آدمی کو علم نہ تھا کہ اطالوی ٹیم گروہ بندی کا شکار ہے۔ دراصل اطالوی ٹیم میں شامل دو کوہ پیما، اشیل کومپاگنونی(Achille Compagnoni) اور لائنو لیسیڈیلی (Lino Lacedelli )نواب دیسیو کے منظور نظر تھے۔ وہ انہیں ہر قیمت پر کے ٹو کی چوٹی پر کھڑا دیکھنا چاہتا تھا۔ انہی تینوں نے یہ منصوبہ بھی بنایا کہ صرف وہی کے ٹو سر کرنے پر عزت، شہرت اور دولت سے سرفراز ہوں۔ گویا وہ جھوٹی شان کے پجاری بن بیٹھے۔
اطالوی ٹیم کا کم عمر ترین رکن 24 سالہ والٹر بوناتی(Walter Bonatti ) تھا جو بعد ازاں مشہور کوہ پیما بنا۔تب بھی وہی جسمانی و ذہنی طور پر سب سے زیادہ طاقتور تھا۔ مگر وہ دیگر ارکان کے مانند امیر طبقے سے نہیں تھا۔ اس کا باپ معمولی پارچہ فروش تھا۔ اسی لیے اسے ٹیم میں اہمیت حاصل نہیں تھی۔ بہرحال اسے کومپاگنونی اور لیسیڈیلی کا شریک کار بنا دیا گیا۔تینوں کوہ پیما امیر مہدی سمیت کے ٹو کی چڑھائی کے خطرناک سفر پر روانہ ہوئے۔ موسم خوشگوار تھا، اس لیے وہ بتدریج چڑھتے چلے گئے۔ راہ میں انہوں نے آٹھ پڑاؤ یا کیمپ قائم کیے۔ آٹھواں کیمپ 29 جولائی 1954ء کو 25400 فٹ کی بلندی پر لگایا گیا۔اسی رات پروگرام یہ بنا کہ کومپاگنونی اور لیسیڈیلی اگلی صبح اجالا ہوتے ہی چڑھائی شروع کریں اور 26,575 فٹ پر پہنچ کر نواں کیمپ لگائیں ۔ شام کو بوناتی اور امیر مہدی آکسیجن کی بوتلیں لیے ان کے پاس پہنچ جائیں۔ چناں چہ علی الصبح دونوں نے چڑھائی کا آغاز کردیا۔
30 جولائی کی شام بہ مطابق پروگرام بوناتی اور امیر مہدی نویں کیمپ کی مقررہ کردہ جگہ جاپہنچے۔ مگر یہ کیا... وہاں تو کیمپ کا نام و نشان نہ تھا۔ یہ دیکھ کر دونوں ہکا بکا رہ گئے ۔تب تاریکی چھانے لگی تھی اور ٹھنڈ میں بھی اضافہ ہوگیا ۔بوناتی نے زور دار آواز میں اپنے ساتھیوں کو پکارا۔ کچھ دیر ہوا شائیں شائیں کرتی رہی' پھر انہیں اوپر سے کومپاگنونی کی آواز آئی۔ وہ کہہ رہا تھا ''آکسیجن کی بوتلیں وہاں چھوڑ کر نیچے چلے جاؤ۔''
اب بوناتی نے بغور آواز کی سمت دیکھا' تو وہاں اسے لیمپ کی روشنی نظر آئی۔ وہ جگہ قریباً چھ سو فٹ دور تھی۔ بوناتی نے چیخ کر ساتھیوں کو بتایا: ''اندھیرا چھا چکا۔ اب ہم کیسے نیچے جائیں؟ پھر امیر مہدی بہت تھک چکا، وہ اب سفر کے قابل نہیں۔''
جواب یہی آیا کہ بوتلیں چھوڑ کر واپس چلے جاؤ۔ یہ سن کر بوناتی کو غصہ آ گیا۔ وہ بولا: ''ہم تمہارے پاس آ رہے ہیں۔'' یہ سنتے ہی اوپر جلتا لیمپ بجھا دیا گیا۔ یہ دیکھ کر بوناتی کو بڑا صدمہ پہنچا۔ اسے یقین نہیں آیا کہ ساتھی ان کے ساتھ ایسا ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک کر سکتے ہیں۔دراصل 26 ہزار فٹ کے بعد چڑھائی بہت دشوار گزار تھی۔ اور اندھیرے میں اوپر جانا اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔ بوناتی نے ساتھیوں کو کئی آوازیں دیں لیکن انہوں نے جواب نہ دیا۔ یوں ان ظالموں نے اپنے ہی دو ساتھیوں کو شدید ٹھنڈ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
بوناتی نوجوان' مضبوط جسم کا مالک اور باہمت تھا لیکن امیر مہدی اپنے اندر واپس جانے کا حوصلہ نہ پاتا۔ چنانچہ بوناتی نے وہیں ایک گڑھا کھودا اور دونوں ساتھی اس میں دبک گئے۔ وہ شدید سردی کے باعث ٹھٹھر رہے تھے۔یہ کوہ پیمائی کی جدید تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ کیمپ کے گرم ماحول کے بغیر کھلی فضا میں دو انسانوں نے ساڑھے چھبیس ہزار فٹ کی بلندی پر رات گزاری۔ ساری رات دونوں اپنی ٹانگوں پر کلہاڑیاں مارتے رہے تاکہ خون رواں دواں رہے۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ یوں خون کی نالیاں ٹوٹ سکتی ہیں۔ لہٰذا فراسٹ بائٹ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔صبح چار بجے وہ نئی مصیبت میں گرفتار ہو گئے۔ ہوا یہ کہ تھوڑا سا طوفان آیا تو ان پر برف آ گری اور وہ دب گئے۔ بوناتی نے بڑی تگ و دو کے بعد اپنے آپ اور ساتھی کو برفانی قبر سے نکالا۔ اگر وہ قوی اعصاب کا مالک نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ دونوں گڑھے میں زندہ دفن ہو جاتے۔
جب صبح ہوئی تو ان کی قلفی جم چکی تھی۔ مگر دھوپ نے ان میں جینے کی امنگ پیدا کر دی۔ چنانچہ وہ جی کڑا کر اٹھے اور گرتے پڑتے آٹھویں کیمپ میں جا پہنچے ۔ وہاں چولھا موجود تھا۔ جب اسے جلا کر آگ تاپی تو حواس کچھ ٹھکانے آئے۔ مگر امیر مہدی شدید تکلیف میں تھا... اس کے پیروں میں فراسٹ بائٹ نے حملہ کر دیا تھا۔صبح گیارہ بجے کومپاگنونی اور لیسیڈیلی اپنے آرام دہ کیمپ سے نکلے۔ نیچے آئے، آکسیجن کی بوتلیں لیں اور دوبارہ چڑھائی کرنے لگے۔ آخر شام کو وہ کے ٹو کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ یوں اطالوی کوہ پیماؤں کے ہاتھوں دنیا کی دوسری بڑی چوٹی بھی سر ہوئی۔یہ یقینا تاریخ ساز لمحہ تھا۔ مگر یہ اعزاز پانے کی خاطر کومپاگنونی اور لیسیڈیلی نے جس دغا بازی اور شقاوت کا مظاہرہ کیا' اس نے ان کے کارنامے پہ بدنما داغ لگا دیا۔ یہ جوڑا رات گیارہ بجے آٹھویں کیمپ میں پہنچا۔
قدرتی طور پر بوناتی کا پارہ چڑھا ہوا تھا مگر اس نے کمال صبر و ضبط سے کام لیا۔ حتیٰ کہ اپنے ساتھیوں کی ٹانگوں پر مالش کی جو دکھ رہی تھیں۔ بوناتی کو یقین تھا کہ ساتھی اپنے افسوس ناک طرز عمل پر اس سے معذرت کریں گے۔ مگر دونوں نے پشیمانی و شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے ایک لفظ نہیں کہا۔ حتیٰ کہ جب دیسیو نے اسی فتح سے متعلق اپنی کتاب ''Victory over k2'' تحریر کی تو سرسری طور پر یہ ذکر کیا کہ بوناتی اور امیر مہدی نے ''منفی پچاس سینٹی گریڈ'' درجہ حرارت میں 26 ہزار فٹ بلندی پر کھلی جگہ رات گزاری۔
امیر مہدی کے پیر فراسٹ بائٹ کا نشانہ بن چکے تھے۔ جب انہیں راولپنڈی کے فوجی ہسپتال پہنچایا گیا تو زہر پورے جسم میں پھیلنے ہی والا تھا۔ چنانچہ پیروں کی ساری انگلیاں کاٹنا پڑیں تاکہ ان کی جان بچ سکے۔ صد افسوس اس کے بعد امیر تمام عمر پہاڑ پر نہ چڑھ سکے۔ اگلے کئی سال انھوں نے بڑی تکلیف دہ زندگی گزاری۔ یوں دو خود غرض اطالوی کوہ پیماؤں نے ایک معصوم پاکستانی باشندے کی زندگی تباہ کر دی۔جب امیر مہدی کے ساتھ پیش آئے الم ناک واقعے کی خبر عالمی سطح پر پھیلی تو اطالوی حکومت بہت جزبز ہوئی۔ اٹلی میں تو کومپاگنونی اور لیسیڈیلی کے کارنامے پر بہت خوشیاں منائی جا رہی تھیں اور وہ قومی ہیرو کا درجہ پا چکے تھے۔
انہیں بدنامی سے بچانے کی خاطر اطالوی حکومت نے بیچارے بوناتی کو قربانی کا بکرا بنا لیا۔ یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ بوناتی نے بوتلوں میں آکسیجن کم رکھی کیونکہ وہ کومپاگنونی اور لیسیڈیلی سے قبل کے ٹو کی چوٹی پر پہنچنا چاہتا تھا۔ اور یہ کہ اس نے امیر مہدی کو بھی یہ کہہ کر اپنے دامِ فریب میں پھنسا لیا کہ وہ کے ٹو پر چڑھنے والے پہلے پاکستانی بننے کا اعزاز پا سکتا ہے۔
اسی پروپیگنڈے کے باعث اٹلی میں بوناتی کو اچھوت سمجھا جانے لگا۔ چنانچہ وہ بھی گوشہ نشین ہو گیا اور تنہا کوہ پیمائی کرنے لگا۔ بوناتی اپنی آپ بیتی ''My Mountainis'' میں لکھتا ہے:''کے ٹو مہم سے قبل میں سبھی انسانوں پر اعتماد کرتا اور ان سے محبت رکھتا تھا۔ لیکن جب میں دغا بازی کا شکار ہوا تو انسانیت پر سے میرا اعتبار اٹھ گیا۔''
آخر 2004ء میں لیسیڈیلی کی آپ بیتی شائع ہوئی۔ اس میں لیسیڈیلی نے اقرار کیا کہ اگر 30 جولائی کو بوناتی اور امیرمہدی آکسیجن کی بوتلیں لے کر نہ آتے تو وہ چوٹی پر نہیں پہنچ پاتے۔ بعدازاں اس نے ایک انٹرویو میں بوناتی اور امیر مہدی کے ساتھ ناروا سلوک کا ذمے دارکومپاگنونی کو قرار دیا۔
2007ء میں اٹلی کے الپائن کلب نے اس دلدوز واقعے کی تحقیقات کرائیں۔ تحقیق سے افشا ہوا کہ کومپاگنونی اور لیسیڈیلی نے جان بوجھ کر دونوں ساتھیوں کو اپنے خیمے میں داخل نہ ہونے دیا کیونکہ وہی فاتحِ کے ٹو کہلوانا چاہتے تھے۔ چنانچہ سرکاری طور پر بوناتی اور امیر مہدی بے گناہ قرار پائے۔
مگر یہ خبر سننے سے پہلے ہی دسمبر 1999ء میں امیر مہدی اللہ کو پیارا ہو چکا تھا۔ اطالوی حکومت نے اس کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسے ایک قومی تمغہ تو دیالیکن کسی نقد انعام سے محروم رکھا۔ آج بھی بہت کم پاکستانی امیر مہدی کو جانتے ہیں جو 1954ء میں کے ٹو پر پہنچتے تو یقینا قومی کوہ پیمائی کی تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف سے لکھوا لیتے۔اب بھی کے ٹو اور نانگا پربت کی پہلی بار چڑھائی میں مرحوم کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ایسے ہی باہمت انسان انسانی عزم و حوصلے کا معیار بلند سے بلند تر کر جاتے ہیں۔
کبھی آپ آگے ہوتے ہیں، کبھی پیچھے۔'' گویا میری کہنا چاہتی ہے کہ زندگی میں ہر انسان کو ناکامیاں ملتی ہیں تو کامیابیاں بھی! لیکن کئی انسان یہ فلسفہِ زندگی نہیں سمجھتے، حتیٰ کہ اپنی کامیابی کی خاطر دوسروں کی جان خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی خوفناک واقعہ ٹھیک ساٹھ سال قبل دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ، کے ٹو پر پیش آیا۔ اس واقعے کی داستان بڑی سبق آموز ہے۔ وہ آشکار کرتی ہے کہ انسان شہرت، عزت اور دولت پانے کی خاطر اپنوں کو بھی روند ڈالتا ہے، افسوس!
ہوا یہ کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد شکست خوردہ یورپی ممالک خصوصاً جرمنی، اٹلی، فرانس وغیرہ میں عوام اپنی ہار کی وجہ سے بہت پژمردہ، مایوس اور شکستہ حال تھے۔ چنانچہ ان ملکوں کی حکومتیں ایسے ہیرو تلاش کرنے لگیں جن کے کارنامے قوم میں دوبارہ احساس تفاخر پیدا کرسکیں اور ان میں ہمت و حوصلے کو جنم دیں۔ کوہ پیمائی نے انہیں ایسے ہی بے مثال ہیرو فراہم کردیئے۔
1949ء کے بعد یورپی کوہ پیما اپنی حکومتوں کے مالی تعاون سے خصوصاً پاک و ہند کا رخ کرنے لگے جہاں 8 ہزار میٹر (26246 فٹ) سے بلند ''چودہ'' پہاڑ واقع ہیں۔ پہلی کامیابی فرانسیسی کوہ پیماؤں، موریس ہرزوگ اور لوئس لیشنال کوملی جنہوں نے جون 1950ء میں دنیا کا دسواں اونچا پہاڑ، اننا پورنا سرکیا۔
یہ انسانی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ انسان 8 ہزار سے زیادہ بلند پہاڑ پہ پہنچا اور اسے مسخر کرلیا۔ یہ کامیابی ایک لحاظ سے اس امر کی نشانی بھی تھی کہ حیرت انگیز انسانی ترقی کا دور شروع ہوچکا۔ بعدازاں دیگر بلند چوٹیاں بھی انسانی قدموں تلے آتی چلی گئیں۔ مئی 1953ء میں کیوی کوہ پیما، ایڈمنڈ ہیلری نیپالی قلی (شیرپا) تینزنگ نورگے کے ساتھ دنیا کی بلند ترین چوٹی، ماؤنٹ ایورسٹ جاپہنچا۔ صرف ایک ماہ چار دن بعد آسٹروی کوہ پیما، ہرمن بول نے پاکستان میں واقع نویں اونچے پہاڑ، نانگا پربت پر اپنا جھنڈا گاڑ دیا۔پڑوسی یورپی ممالک کے کوہ پیماؤں کی فتوحات دیکھ کر اطالوی کوہ پیما مچل اٹھے۔ اب وہ ایسا کارنامہ دکھانا چاہتے تھے کہ ہر جگہ ان کی ''واہ واہ'' ہوسکے۔ چناں چہ ان کی نظریں پاکستان میں واقع دوسری بلند ترین چوٹی ''کے ٹو'' پر مرکوز ہوگئی۔ اسے سر کرکے یقیناً اطالوی کوہ پیما عالمی شہرت حاصل کرلیتے۔
ماؤنٹ ایورسٹ بے شک بلند ترین پہاڑ ہے لیکن وہ کے ٹو کی طرح عمودی چٹانیں،غیر مرئی کھائیاں اور چھوٹے بڑے گڑھے نہیں رکھتا۔ اسی لیے کے ٹو پر چڑھنا بڑا جان جوکھم کا کام ہے۔ پچھلے ایک سو برس میں کئی کوہ پیما کے ٹو کی چوٹی پر پہنچنے کی آرزو لیے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی باعث کے ٹو عرف عام میں ''قاتل پہاڑ'' کہلاتا ہے۔اطالوی کوہ پیماؤں کی ٹیم اواخر مئی 1954ء میں پاکستان پہنچی۔ اس کی قیادت مشہور اطالوی کوہ پیما، کاؤنٹ (نواب) آردیتو دیسیو(Ardito Desio) کررہا تھا۔ پاکستان میں قدم دھرتے ہی ٹیم نے ہنزہ کا رخ کیا۔ وہاں کاؤنٹ دیسیو میر ہنزہ سے ملا تاکہ قلیوں کا بندوبست کرسکے۔
میرہنزہ نے چند قلی انہیں دے ڈالے جن کا لیڈر امیر مہدی تھا۔ 41 سالہ امیر مہدی ہنزہ کے گاؤں حسن آباد میں پیدا ہوا۔ اسے لڑکپن ہی سے پہاڑوں پر چڑھنے کا شوق تھا۔ اسی مشغلے نے اسے قدرتی طور پر اچھا خاصا کوہ پیما بنا دیا۔امیر مہدی دلیر، انسان دوست اور مخلص آدمی تھا۔ پچھلے سال اسی نے ہرمن بول کے ساتھ نانگا پربت کی چڑھائی میں بطور قلی خدمات انجام دی تھیں۔ بول اترتے وقت شدید تھکن کا شکار ہوگیا ۔ چناںچہ امیر مہدی اور اس کے ساتھی نے باری باری بول کو اپنی کمر پر لاد کر بقیہ راستہ طے کیا اور اسے بخیر و عافیت نیچے بیس کیمپ تک پہنچایا۔ یوں امیر مہدی نے فرض شناسی اور انسان دوستی کی بہترین مثال قائم کردی۔
اب اطالویوں کے ساتھ بھی وہ ایک پُر خطر اور دلچسپ مہم کا منتظر تھا۔ افسوس کہ اس معصوم آدمی کو علم نہ تھا کہ اطالوی ٹیم گروہ بندی کا شکار ہے۔ دراصل اطالوی ٹیم میں شامل دو کوہ پیما، اشیل کومپاگنونی(Achille Compagnoni) اور لائنو لیسیڈیلی (Lino Lacedelli )نواب دیسیو کے منظور نظر تھے۔ وہ انہیں ہر قیمت پر کے ٹو کی چوٹی پر کھڑا دیکھنا چاہتا تھا۔ انہی تینوں نے یہ منصوبہ بھی بنایا کہ صرف وہی کے ٹو سر کرنے پر عزت، شہرت اور دولت سے سرفراز ہوں۔ گویا وہ جھوٹی شان کے پجاری بن بیٹھے۔
اطالوی ٹیم کا کم عمر ترین رکن 24 سالہ والٹر بوناتی(Walter Bonatti ) تھا جو بعد ازاں مشہور کوہ پیما بنا۔تب بھی وہی جسمانی و ذہنی طور پر سب سے زیادہ طاقتور تھا۔ مگر وہ دیگر ارکان کے مانند امیر طبقے سے نہیں تھا۔ اس کا باپ معمولی پارچہ فروش تھا۔ اسی لیے اسے ٹیم میں اہمیت حاصل نہیں تھی۔ بہرحال اسے کومپاگنونی اور لیسیڈیلی کا شریک کار بنا دیا گیا۔تینوں کوہ پیما امیر مہدی سمیت کے ٹو کی چڑھائی کے خطرناک سفر پر روانہ ہوئے۔ موسم خوشگوار تھا، اس لیے وہ بتدریج چڑھتے چلے گئے۔ راہ میں انہوں نے آٹھ پڑاؤ یا کیمپ قائم کیے۔ آٹھواں کیمپ 29 جولائی 1954ء کو 25400 فٹ کی بلندی پر لگایا گیا۔اسی رات پروگرام یہ بنا کہ کومپاگنونی اور لیسیڈیلی اگلی صبح اجالا ہوتے ہی چڑھائی شروع کریں اور 26,575 فٹ پر پہنچ کر نواں کیمپ لگائیں ۔ شام کو بوناتی اور امیر مہدی آکسیجن کی بوتلیں لیے ان کے پاس پہنچ جائیں۔ چناں چہ علی الصبح دونوں نے چڑھائی کا آغاز کردیا۔
30 جولائی کی شام بہ مطابق پروگرام بوناتی اور امیر مہدی نویں کیمپ کی مقررہ کردہ جگہ جاپہنچے۔ مگر یہ کیا... وہاں تو کیمپ کا نام و نشان نہ تھا۔ یہ دیکھ کر دونوں ہکا بکا رہ گئے ۔تب تاریکی چھانے لگی تھی اور ٹھنڈ میں بھی اضافہ ہوگیا ۔بوناتی نے زور دار آواز میں اپنے ساتھیوں کو پکارا۔ کچھ دیر ہوا شائیں شائیں کرتی رہی' پھر انہیں اوپر سے کومپاگنونی کی آواز آئی۔ وہ کہہ رہا تھا ''آکسیجن کی بوتلیں وہاں چھوڑ کر نیچے چلے جاؤ۔''
اب بوناتی نے بغور آواز کی سمت دیکھا' تو وہاں اسے لیمپ کی روشنی نظر آئی۔ وہ جگہ قریباً چھ سو فٹ دور تھی۔ بوناتی نے چیخ کر ساتھیوں کو بتایا: ''اندھیرا چھا چکا۔ اب ہم کیسے نیچے جائیں؟ پھر امیر مہدی بہت تھک چکا، وہ اب سفر کے قابل نہیں۔''
جواب یہی آیا کہ بوتلیں چھوڑ کر واپس چلے جاؤ۔ یہ سن کر بوناتی کو غصہ آ گیا۔ وہ بولا: ''ہم تمہارے پاس آ رہے ہیں۔'' یہ سنتے ہی اوپر جلتا لیمپ بجھا دیا گیا۔ یہ دیکھ کر بوناتی کو بڑا صدمہ پہنچا۔ اسے یقین نہیں آیا کہ ساتھی ان کے ساتھ ایسا ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک کر سکتے ہیں۔دراصل 26 ہزار فٹ کے بعد چڑھائی بہت دشوار گزار تھی۔ اور اندھیرے میں اوپر جانا اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔ بوناتی نے ساتھیوں کو کئی آوازیں دیں لیکن انہوں نے جواب نہ دیا۔ یوں ان ظالموں نے اپنے ہی دو ساتھیوں کو شدید ٹھنڈ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
بوناتی نوجوان' مضبوط جسم کا مالک اور باہمت تھا لیکن امیر مہدی اپنے اندر واپس جانے کا حوصلہ نہ پاتا۔ چنانچہ بوناتی نے وہیں ایک گڑھا کھودا اور دونوں ساتھی اس میں دبک گئے۔ وہ شدید سردی کے باعث ٹھٹھر رہے تھے۔یہ کوہ پیمائی کی جدید تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ کیمپ کے گرم ماحول کے بغیر کھلی فضا میں دو انسانوں نے ساڑھے چھبیس ہزار فٹ کی بلندی پر رات گزاری۔ ساری رات دونوں اپنی ٹانگوں پر کلہاڑیاں مارتے رہے تاکہ خون رواں دواں رہے۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ یوں خون کی نالیاں ٹوٹ سکتی ہیں۔ لہٰذا فراسٹ بائٹ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔صبح چار بجے وہ نئی مصیبت میں گرفتار ہو گئے۔ ہوا یہ کہ تھوڑا سا طوفان آیا تو ان پر برف آ گری اور وہ دب گئے۔ بوناتی نے بڑی تگ و دو کے بعد اپنے آپ اور ساتھی کو برفانی قبر سے نکالا۔ اگر وہ قوی اعصاب کا مالک نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ دونوں گڑھے میں زندہ دفن ہو جاتے۔
جب صبح ہوئی تو ان کی قلفی جم چکی تھی۔ مگر دھوپ نے ان میں جینے کی امنگ پیدا کر دی۔ چنانچہ وہ جی کڑا کر اٹھے اور گرتے پڑتے آٹھویں کیمپ میں جا پہنچے ۔ وہاں چولھا موجود تھا۔ جب اسے جلا کر آگ تاپی تو حواس کچھ ٹھکانے آئے۔ مگر امیر مہدی شدید تکلیف میں تھا... اس کے پیروں میں فراسٹ بائٹ نے حملہ کر دیا تھا۔صبح گیارہ بجے کومپاگنونی اور لیسیڈیلی اپنے آرام دہ کیمپ سے نکلے۔ نیچے آئے، آکسیجن کی بوتلیں لیں اور دوبارہ چڑھائی کرنے لگے۔ آخر شام کو وہ کے ٹو کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ یوں اطالوی کوہ پیماؤں کے ہاتھوں دنیا کی دوسری بڑی چوٹی بھی سر ہوئی۔یہ یقینا تاریخ ساز لمحہ تھا۔ مگر یہ اعزاز پانے کی خاطر کومپاگنونی اور لیسیڈیلی نے جس دغا بازی اور شقاوت کا مظاہرہ کیا' اس نے ان کے کارنامے پہ بدنما داغ لگا دیا۔ یہ جوڑا رات گیارہ بجے آٹھویں کیمپ میں پہنچا۔
قدرتی طور پر بوناتی کا پارہ چڑھا ہوا تھا مگر اس نے کمال صبر و ضبط سے کام لیا۔ حتیٰ کہ اپنے ساتھیوں کی ٹانگوں پر مالش کی جو دکھ رہی تھیں۔ بوناتی کو یقین تھا کہ ساتھی اپنے افسوس ناک طرز عمل پر اس سے معذرت کریں گے۔ مگر دونوں نے پشیمانی و شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے ایک لفظ نہیں کہا۔ حتیٰ کہ جب دیسیو نے اسی فتح سے متعلق اپنی کتاب ''Victory over k2'' تحریر کی تو سرسری طور پر یہ ذکر کیا کہ بوناتی اور امیر مہدی نے ''منفی پچاس سینٹی گریڈ'' درجہ حرارت میں 26 ہزار فٹ بلندی پر کھلی جگہ رات گزاری۔
امیر مہدی کے پیر فراسٹ بائٹ کا نشانہ بن چکے تھے۔ جب انہیں راولپنڈی کے فوجی ہسپتال پہنچایا گیا تو زہر پورے جسم میں پھیلنے ہی والا تھا۔ چنانچہ پیروں کی ساری انگلیاں کاٹنا پڑیں تاکہ ان کی جان بچ سکے۔ صد افسوس اس کے بعد امیر تمام عمر پہاڑ پر نہ چڑھ سکے۔ اگلے کئی سال انھوں نے بڑی تکلیف دہ زندگی گزاری۔ یوں دو خود غرض اطالوی کوہ پیماؤں نے ایک معصوم پاکستانی باشندے کی زندگی تباہ کر دی۔جب امیر مہدی کے ساتھ پیش آئے الم ناک واقعے کی خبر عالمی سطح پر پھیلی تو اطالوی حکومت بہت جزبز ہوئی۔ اٹلی میں تو کومپاگنونی اور لیسیڈیلی کے کارنامے پر بہت خوشیاں منائی جا رہی تھیں اور وہ قومی ہیرو کا درجہ پا چکے تھے۔
انہیں بدنامی سے بچانے کی خاطر اطالوی حکومت نے بیچارے بوناتی کو قربانی کا بکرا بنا لیا۔ یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ بوناتی نے بوتلوں میں آکسیجن کم رکھی کیونکہ وہ کومپاگنونی اور لیسیڈیلی سے قبل کے ٹو کی چوٹی پر پہنچنا چاہتا تھا۔ اور یہ کہ اس نے امیر مہدی کو بھی یہ کہہ کر اپنے دامِ فریب میں پھنسا لیا کہ وہ کے ٹو پر چڑھنے والے پہلے پاکستانی بننے کا اعزاز پا سکتا ہے۔
اسی پروپیگنڈے کے باعث اٹلی میں بوناتی کو اچھوت سمجھا جانے لگا۔ چنانچہ وہ بھی گوشہ نشین ہو گیا اور تنہا کوہ پیمائی کرنے لگا۔ بوناتی اپنی آپ بیتی ''My Mountainis'' میں لکھتا ہے:''کے ٹو مہم سے قبل میں سبھی انسانوں پر اعتماد کرتا اور ان سے محبت رکھتا تھا۔ لیکن جب میں دغا بازی کا شکار ہوا تو انسانیت پر سے میرا اعتبار اٹھ گیا۔''
آخر 2004ء میں لیسیڈیلی کی آپ بیتی شائع ہوئی۔ اس میں لیسیڈیلی نے اقرار کیا کہ اگر 30 جولائی کو بوناتی اور امیرمہدی آکسیجن کی بوتلیں لے کر نہ آتے تو وہ چوٹی پر نہیں پہنچ پاتے۔ بعدازاں اس نے ایک انٹرویو میں بوناتی اور امیر مہدی کے ساتھ ناروا سلوک کا ذمے دارکومپاگنونی کو قرار دیا۔
2007ء میں اٹلی کے الپائن کلب نے اس دلدوز واقعے کی تحقیقات کرائیں۔ تحقیق سے افشا ہوا کہ کومپاگنونی اور لیسیڈیلی نے جان بوجھ کر دونوں ساتھیوں کو اپنے خیمے میں داخل نہ ہونے دیا کیونکہ وہی فاتحِ کے ٹو کہلوانا چاہتے تھے۔ چنانچہ سرکاری طور پر بوناتی اور امیر مہدی بے گناہ قرار پائے۔
مگر یہ خبر سننے سے پہلے ہی دسمبر 1999ء میں امیر مہدی اللہ کو پیارا ہو چکا تھا۔ اطالوی حکومت نے اس کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسے ایک قومی تمغہ تو دیالیکن کسی نقد انعام سے محروم رکھا۔ آج بھی بہت کم پاکستانی امیر مہدی کو جانتے ہیں جو 1954ء میں کے ٹو پر پہنچتے تو یقینا قومی کوہ پیمائی کی تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف سے لکھوا لیتے۔اب بھی کے ٹو اور نانگا پربت کی پہلی بار چڑھائی میں مرحوم کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ایسے ہی باہمت انسان انسانی عزم و حوصلے کا معیار بلند سے بلند تر کر جاتے ہیں۔