برطانوی لڑکی جو دن میں صرف دو گھنٹے جاگتی ہے
بیتھ گوڈیئر نامی لڑکی Kleine-Levin نامی سینڈروم میں مبتلا ہے جسے ’’سلیپنگ بیوٹی‘‘ بھی کہتے ہیں۔
وہ Kleine-Levin یا سلیپنگ بیوٹی سینڈروم میں مبتلا ہے جس کے وجہ سے وہ دن میں صرف دو گھنٹے جاگتی ہے۔ یہ ایک ایسی عصبیاتی کیفیت ہے جو چند ہفتوں میں تیزی دکھاتی ہے اور ایک سے تین ہفتوں تک رہتی ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا فرد ایک دن (چوبیس گھنٹوں) میں 22گھنٹوں تک سوتا ہے۔ اس دوران وہ کوئی کام نہیں کرسکتا۔ بیتھ جب جاگتی ہے، اس وقت اس کی کیفیت کسی بچے جیسی ہوتی ہے۔ وہ ضدی اور ہٹ دھرم دکھائی دیتی ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اس کیفیت کا سبب کیا ہے، لیکن یہ زیادہ تر نوجوانوں کو متاثر کرتی ہے جس کا کوئی علاج بھی نہیں ہے۔
ہمارے نوجوان سونے میں ماہر ہیں۔ انہیں جب بھی موقع ملتا ہے، وہ گھوڑے بیچ کر سوتے ہیں، لیکن Beth Goodierنامی بیس سالہ نوجوان لڑکی ایک ایسی کیفیت میں مبتلا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے وہ دن کے 24گھنٹوں میں سے 22گھنٹے سوتے ہوئے گزارتی ہے۔ بیتھKleine-Levin نامی سینڈروم میں مبتلا ہے، اسے ''سلیپنگ بیوٹی'' بھی کہتے ہیں۔
بیتھ گوڈیئر کا تعلق انگلستان کے علاقےStockport, Greater Manchesteسے ہے۔ اس کیفیت نے بیتھ کی زندگی عذاب کردی ہے۔ وہ 16 سال کی عمر میںاس عصبیاتی کیفیت میں مبتلا ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اوسطاً اس کی رات 18گھنٹوں کی ہوتی ہے۔ عام طور سے بیتھ پر اس کیفیت کا حملہ ہر پانچ ہفتے بعد ہوتا ہے تو وہ ایک سے تین ہفتوں تک نیند یا غنودگی کی کیفیت میں مبتلا رہتی ہے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اسے چوبیس گھنٹے نگرانی اور خصوصی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہاں تک کہ جب وہ جاگتی ہے تو بھی اس کی حالت کسی ننھے بچے کی سی ہوتی ہے، وہ کچھ الجھی ہوئی، بے چین اور چڑچڑی دکھائی دیتی ہے۔ اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ اسے حقیقت اور خواب کے درمیان بھی کوئی اندازہ نہیں ہوپاتا۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں صرف ایک ہزار کے قریب افراد اس عارضے میں مبتلا ہیں اور ان میں سے بھی 70فی صد مریض مرد ہیں اور باقی خواتین۔ اس مرض کے اسباب ابھی تک واضح نہیں ہوسکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا علاج بھی دریافت نہیں ہوسکا ہے۔ حال ہی میں بیتھ نے بی بی سی کے پروگرام ''بریک فاسٹ'' میں اپنی اس کیفیت پر بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اسے ہر پانچ ہفتوں بعد یہ کیفیت پریشان کرتی ہے، جس سے ظاہر ہے اسے سخت چڑچڑاہٹ اور بیزاری ہوتی ہے۔ اس حوالے سے بیتھ نے کہا:''میری زندگی کا ابھی تک آدھا حصہ بستر میں سوتے ہوئے گزرا ہے۔
یہ وہ وقت ہے جب کالج یا یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد نوجوان کوئی اچھی ملازمت تلاش کرتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کیا ہیں اور کن صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ مگر Kleine-Levin سینڈروم اس اہم وقت کو آپ سے چھین لیتا ہے۔ میری زندگی تو گویا ایک جگہ ٹھہر چکی ہے۔ مجھے پتا ہی نہیں چل رہا کہ میں کون ہوں، مجھے کیا کرنا ہے۔ مجھے تو اس بیماری کی وجہ سے زندگی کے صرف چھوٹے چھوٹے ٹکڑے یاد رہ گئے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ میری زندگی کہیں جاکر کھوگئی ہے، یہ میرے پاس نہیں ہے۔''
بیتھ کی ممی جینی نے اپنی بیٹی کی اس بیماری کے حوالے سے بڑے دکھی لہجے میں کہا:''جب میری بیٹی جاگتی ہے، یعنی پوری طرح ہوش و حواس میں ہوتی ہے تو یا تو وہ بستر پر لیٹی رہتی ہے یا سوفے پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھتی رہتی ہے۔ عام طور سے وہ پہلے سے دیکھی ہوئی چیزیں، شوز یا ڈرامے ہی بار بار دیکھتی ہے۔
اسے ان چیزوں کو دیکھنے میں زیادہ مزہ آتا ہے جن کا انجام وہ پہلے سے جانتی ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری میں مبتلا افراد وقفوں کے دوران عام طور سے نارمل بھی ہوجاتے ہیں، مگر یہ لوگ اس کیفیت میں مبتلا رہنے کی وجہ سے ڈیپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بیتھ کی ممی نے اپنی بیٹی کی دیکھ بھال کرنے کے لیے اپنی ملازمت چھوڑ دی ہے۔ یہ گھرانا پوری کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح بیتھ کو اس مشکل سے نجات دلادے، اسی لیے سب لوگ اس کیفیت کے دوران باری باری بیتھ کو وقت دیتے ہیں۔''
بی بی سی کی ویب سائٹ پر لکھا گیا ہے کہKleine-Levin Syndrome نے بیتھ کی زندگی کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس بے چاری کی زندگی ایک جگہ ٹھہر کر رہ گئی ہے۔ اسے گھر سے باہر جانے نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اس کو یونی ورسٹی جانے کی اجازت ہے۔ اس کیفیت نے بیتھ کو کسی بچے کی طرح کردیا ہے، خاص طور سے جب وہ جاگ رہی ہوتی ہے تو اسے دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ وہ کوئی بالغ یا جوان لڑکی ہے، بلکہ وہ الجھی ہوئی اور بیزار دکھائی دیتی ہے۔ اس کی ممی جینی کو بیتھ کی نگرانی کرنی پڑتی ہے، وہی ہر لمحے اس کا خیال رکھتی ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس کیفیت میں مبتلا ہونے کے دوران متاثرہ فرد کسی بچے کی طرح ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اسے ذرا ذرا سی دیر میں غصہ آجاتا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے وہ کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں ہے۔ اس بیماری کے شکار افراد بہت زیادہ کھانے لگتے ہیں، پھر بھی ان کی بھوک کم نہیں ہوتی۔
یہ بیماری زندگی کے کسی نہ کسی اہم موڑ پر حملہ آور ہوتی ہے، خاص طور سے دورِبلوغت میں یہ اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بیماری یا انفیکشن کے بعد یہ یکایک اپنی علامات ظاہر کردیتی ہے۔ اس دورے کی علامات بہت تیزی سے نمودار ہوتی ہیں اور چند روز یا چند ہفتوں کے درمیان ختم ہوجاتی ہیں۔
ابھی تک سونے والی اس بیماری یا عارضے کی کوئی مستند یا ٹھوس وجہ دریافت نہیں ہوسکی، اسی لیے اس کا علاج بھی دریافت نہیں ہوسکا البتہ اس کا علاج یہ ہے کہ متاثرہ فرد پر اس کے گھر والے خصوصی توجہ دیں اور محبت سے اس کی نگرانی کریں، اس پر نگاہ رکھیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دس سے پندرہ سال بعد اس عارضے میں رفتہ رفتہ کمی ہونے لگتی ہے۔
بی بی سی کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے بیتھ نے کہا:''میری خواہش ہے کہ جب میں جاگ رہی ہوں یعنی ٹھیک حالت میں ہوں تو کوئی مثبت اور تعمیری کام کروں۔ میں اس سوسائٹی کے لیے ایک مفید اور کارآمد شہری بننا چاہتی ہوں، مگر اپنی اس کیفیت کی وجہ سے سوسو کر میں تھک چکی ہوں۔ بہرحال جب تک میری بیماری کا سبب معلوم نہیں ہوتا اور اس کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوتا، اس وقت میں اس عجیب و غریب خلل کے حوالے سے شعور بیدار کرنا چاہتی ہوں۔ متعدد لوگ اور گروپ اس ضمن میں میری مدد کرنے کو تیار ہیں۔ میں ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں۔''
KLEINE-LEVIN SYNDROME آخر ہے کیا؟
یہ ایک ایسا عصبیاتی خلل یا بگاڑ ہے جو دورِبلوغت میں شروع ہوتا ہے اور بعض کیسوں میں یہ کسی انفیکشن یا بیماری کے بعد ظہور میں آتا ہے۔ اس بیماری کی خاص باتیں یہ ہیں:
٭اس میں متاثرہ فرد بے تحاشا سوتا ہے اور ایک دن کے 24گھنٹوں میں سے 22گھنٹوں تک سوتا رہتا ہے۔
٭اس بیماری کی علامات یکایک اور بڑی تیزی سے ظاہر ہوتی ہیں اور چند روز یا چند ہفتوں بعد ختم ہوجاتی ہیں۔
٭اس تکلیف دہ کیفیت میں متاثرہ فرد کسی ضدی اور ہٹ دھرم بچے کی طرح سلوک کرتا ہے۔ وہ غصے اور چڑچڑاہٹ کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے آپے میں نہیں ہے۔
٭اس خلل میں مبتلا فرد کو بہت زیادہ بھوک لگنے لگتی ہے اور وہ ضرورت سے زیادہ کھانے لگتا ہے، لیکن پھر بھی اس کی بھوک نہیں مٹتی۔
٭اس بیماری میں مبتلا مریضوں کو دیکھا گیا کہ جب وہ نارمل کیفیت میں ہوتے ہیں تو بھی اس کے اثر سے نہیں نکل پاتے۔ یہ لوگ ڈیپریشن میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔
٭دنیا بھر میں لگ بھگ 1000افراد اس خلل یا بگاڑ سے متاثر ہیں جسے عام طور سے Sleeping Beauty Syndromeکہہ کر پکارا جاتا ہے اور اس سے متاثر ہونے والے دو تہائی افراد مرد ہوتے ہیں۔
٭اس بیماری یعنی سلیپنگ بیوٹی سینڈروم کا نہ تو ابھی تک سبب دریافت کیا جاسکا ہے اور نہ ہی اس کا علاج، اس لیے اس کا واحد علاج یہ ہے کہ متاثرہ فرد کے گھر والے، اس کے چاہنے والے اس پر نظر رکھیں اور اس کی بڑی محبت اور توجہ سے دیکھ بھال کریں تاکہ ان جانے میں کہیں وہ خود کو کوئی نقصان نہ پہنچالے۔
٭ ریسرچ کے بعد ماہرین نے بتایا ہے کہ اس کیفیت کی شدت8 سے 12ہفتوں کے درمیان خود بخود کم ہوجاتی ہے۔
ہمارے نوجوان سونے میں ماہر ہیں۔ انہیں جب بھی موقع ملتا ہے، وہ گھوڑے بیچ کر سوتے ہیں، لیکن Beth Goodierنامی بیس سالہ نوجوان لڑکی ایک ایسی کیفیت میں مبتلا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے وہ دن کے 24گھنٹوں میں سے 22گھنٹے سوتے ہوئے گزارتی ہے۔ بیتھKleine-Levin نامی سینڈروم میں مبتلا ہے، اسے ''سلیپنگ بیوٹی'' بھی کہتے ہیں۔
بیتھ گوڈیئر کا تعلق انگلستان کے علاقےStockport, Greater Manchesteسے ہے۔ اس کیفیت نے بیتھ کی زندگی عذاب کردی ہے۔ وہ 16 سال کی عمر میںاس عصبیاتی کیفیت میں مبتلا ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اوسطاً اس کی رات 18گھنٹوں کی ہوتی ہے۔ عام طور سے بیتھ پر اس کیفیت کا حملہ ہر پانچ ہفتے بعد ہوتا ہے تو وہ ایک سے تین ہفتوں تک نیند یا غنودگی کی کیفیت میں مبتلا رہتی ہے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اسے چوبیس گھنٹے نگرانی اور خصوصی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہاں تک کہ جب وہ جاگتی ہے تو بھی اس کی حالت کسی ننھے بچے کی سی ہوتی ہے، وہ کچھ الجھی ہوئی، بے چین اور چڑچڑی دکھائی دیتی ہے۔ اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ اسے حقیقت اور خواب کے درمیان بھی کوئی اندازہ نہیں ہوپاتا۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں صرف ایک ہزار کے قریب افراد اس عارضے میں مبتلا ہیں اور ان میں سے بھی 70فی صد مریض مرد ہیں اور باقی خواتین۔ اس مرض کے اسباب ابھی تک واضح نہیں ہوسکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا علاج بھی دریافت نہیں ہوسکا ہے۔ حال ہی میں بیتھ نے بی بی سی کے پروگرام ''بریک فاسٹ'' میں اپنی اس کیفیت پر بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اسے ہر پانچ ہفتوں بعد یہ کیفیت پریشان کرتی ہے، جس سے ظاہر ہے اسے سخت چڑچڑاہٹ اور بیزاری ہوتی ہے۔ اس حوالے سے بیتھ نے کہا:''میری زندگی کا ابھی تک آدھا حصہ بستر میں سوتے ہوئے گزرا ہے۔
یہ وہ وقت ہے جب کالج یا یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد نوجوان کوئی اچھی ملازمت تلاش کرتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کیا ہیں اور کن صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ مگر Kleine-Levin سینڈروم اس اہم وقت کو آپ سے چھین لیتا ہے۔ میری زندگی تو گویا ایک جگہ ٹھہر چکی ہے۔ مجھے پتا ہی نہیں چل رہا کہ میں کون ہوں، مجھے کیا کرنا ہے۔ مجھے تو اس بیماری کی وجہ سے زندگی کے صرف چھوٹے چھوٹے ٹکڑے یاد رہ گئے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ میری زندگی کہیں جاکر کھوگئی ہے، یہ میرے پاس نہیں ہے۔''
بیتھ کی ممی جینی نے اپنی بیٹی کی اس بیماری کے حوالے سے بڑے دکھی لہجے میں کہا:''جب میری بیٹی جاگتی ہے، یعنی پوری طرح ہوش و حواس میں ہوتی ہے تو یا تو وہ بستر پر لیٹی رہتی ہے یا سوفے پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھتی رہتی ہے۔ عام طور سے وہ پہلے سے دیکھی ہوئی چیزیں، شوز یا ڈرامے ہی بار بار دیکھتی ہے۔
اسے ان چیزوں کو دیکھنے میں زیادہ مزہ آتا ہے جن کا انجام وہ پہلے سے جانتی ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری میں مبتلا افراد وقفوں کے دوران عام طور سے نارمل بھی ہوجاتے ہیں، مگر یہ لوگ اس کیفیت میں مبتلا رہنے کی وجہ سے ڈیپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بیتھ کی ممی نے اپنی بیٹی کی دیکھ بھال کرنے کے لیے اپنی ملازمت چھوڑ دی ہے۔ یہ گھرانا پوری کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح بیتھ کو اس مشکل سے نجات دلادے، اسی لیے سب لوگ اس کیفیت کے دوران باری باری بیتھ کو وقت دیتے ہیں۔''
بی بی سی کی ویب سائٹ پر لکھا گیا ہے کہKleine-Levin Syndrome نے بیتھ کی زندگی کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس بے چاری کی زندگی ایک جگہ ٹھہر کر رہ گئی ہے۔ اسے گھر سے باہر جانے نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اس کو یونی ورسٹی جانے کی اجازت ہے۔ اس کیفیت نے بیتھ کو کسی بچے کی طرح کردیا ہے، خاص طور سے جب وہ جاگ رہی ہوتی ہے تو اسے دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ وہ کوئی بالغ یا جوان لڑکی ہے، بلکہ وہ الجھی ہوئی اور بیزار دکھائی دیتی ہے۔ اس کی ممی جینی کو بیتھ کی نگرانی کرنی پڑتی ہے، وہی ہر لمحے اس کا خیال رکھتی ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس کیفیت میں مبتلا ہونے کے دوران متاثرہ فرد کسی بچے کی طرح ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اسے ذرا ذرا سی دیر میں غصہ آجاتا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے وہ کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں ہے۔ اس بیماری کے شکار افراد بہت زیادہ کھانے لگتے ہیں، پھر بھی ان کی بھوک کم نہیں ہوتی۔
یہ بیماری زندگی کے کسی نہ کسی اہم موڑ پر حملہ آور ہوتی ہے، خاص طور سے دورِبلوغت میں یہ اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بیماری یا انفیکشن کے بعد یہ یکایک اپنی علامات ظاہر کردیتی ہے۔ اس دورے کی علامات بہت تیزی سے نمودار ہوتی ہیں اور چند روز یا چند ہفتوں کے درمیان ختم ہوجاتی ہیں۔
ابھی تک سونے والی اس بیماری یا عارضے کی کوئی مستند یا ٹھوس وجہ دریافت نہیں ہوسکی، اسی لیے اس کا علاج بھی دریافت نہیں ہوسکا البتہ اس کا علاج یہ ہے کہ متاثرہ فرد پر اس کے گھر والے خصوصی توجہ دیں اور محبت سے اس کی نگرانی کریں، اس پر نگاہ رکھیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دس سے پندرہ سال بعد اس عارضے میں رفتہ رفتہ کمی ہونے لگتی ہے۔
بی بی سی کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے بیتھ نے کہا:''میری خواہش ہے کہ جب میں جاگ رہی ہوں یعنی ٹھیک حالت میں ہوں تو کوئی مثبت اور تعمیری کام کروں۔ میں اس سوسائٹی کے لیے ایک مفید اور کارآمد شہری بننا چاہتی ہوں، مگر اپنی اس کیفیت کی وجہ سے سوسو کر میں تھک چکی ہوں۔ بہرحال جب تک میری بیماری کا سبب معلوم نہیں ہوتا اور اس کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوتا، اس وقت میں اس عجیب و غریب خلل کے حوالے سے شعور بیدار کرنا چاہتی ہوں۔ متعدد لوگ اور گروپ اس ضمن میں میری مدد کرنے کو تیار ہیں۔ میں ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں۔''
KLEINE-LEVIN SYNDROME آخر ہے کیا؟
یہ ایک ایسا عصبیاتی خلل یا بگاڑ ہے جو دورِبلوغت میں شروع ہوتا ہے اور بعض کیسوں میں یہ کسی انفیکشن یا بیماری کے بعد ظہور میں آتا ہے۔ اس بیماری کی خاص باتیں یہ ہیں:
٭اس میں متاثرہ فرد بے تحاشا سوتا ہے اور ایک دن کے 24گھنٹوں میں سے 22گھنٹوں تک سوتا رہتا ہے۔
٭اس بیماری کی علامات یکایک اور بڑی تیزی سے ظاہر ہوتی ہیں اور چند روز یا چند ہفتوں بعد ختم ہوجاتی ہیں۔
٭اس تکلیف دہ کیفیت میں متاثرہ فرد کسی ضدی اور ہٹ دھرم بچے کی طرح سلوک کرتا ہے۔ وہ غصے اور چڑچڑاہٹ کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے آپے میں نہیں ہے۔
٭اس خلل میں مبتلا فرد کو بہت زیادہ بھوک لگنے لگتی ہے اور وہ ضرورت سے زیادہ کھانے لگتا ہے، لیکن پھر بھی اس کی بھوک نہیں مٹتی۔
٭اس بیماری میں مبتلا مریضوں کو دیکھا گیا کہ جب وہ نارمل کیفیت میں ہوتے ہیں تو بھی اس کے اثر سے نہیں نکل پاتے۔ یہ لوگ ڈیپریشن میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔
٭دنیا بھر میں لگ بھگ 1000افراد اس خلل یا بگاڑ سے متاثر ہیں جسے عام طور سے Sleeping Beauty Syndromeکہہ کر پکارا جاتا ہے اور اس سے متاثر ہونے والے دو تہائی افراد مرد ہوتے ہیں۔
٭اس بیماری یعنی سلیپنگ بیوٹی سینڈروم کا نہ تو ابھی تک سبب دریافت کیا جاسکا ہے اور نہ ہی اس کا علاج، اس لیے اس کا واحد علاج یہ ہے کہ متاثرہ فرد کے گھر والے، اس کے چاہنے والے اس پر نظر رکھیں اور اس کی بڑی محبت اور توجہ سے دیکھ بھال کریں تاکہ ان جانے میں کہیں وہ خود کو کوئی نقصان نہ پہنچالے۔
٭ ریسرچ کے بعد ماہرین نے بتایا ہے کہ اس کیفیت کی شدت8 سے 12ہفتوں کے درمیان خود بخود کم ہوجاتی ہے۔