افغانستان کے صدر اشرف غنی کا دورہ پاکستان
افغان صدر کا دورہ پاکستان اور خطے کے لیے نیک شگون ثابت ہو گا اور اس دورے سے باہمی تعلقات خوشگوار ہوئے۔
افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے پاکستان کے اپنے پہلے دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ کر راولپنڈ ی میں جی ایچ کیو کا دورہ کیا اور پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی۔ اس موقع پر سرتاج عزیز کے علاوہ سیکریٹری خارجہ، سیکریٹری دفاع اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر بھی موجود تھے۔
معزز افغان مہمان نے بعد ازاں صدر مملکت ممنون حسین، وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار اور وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ ہفتہ کو ان کی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات ہوئی۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف گزشتہ روز لندن سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ افغان صدر کے ہمراہ افغان وزیر دفاع جنرل بسم اللہ محمدی کے علاوہ افغان چیف آف جنرل اسٹاف جنرل شیر محمد کریمی اور دیگر اعلیٰ سیکیورٹی حکام بھی پاکستان تشریف لائے تھے۔
افغان صدر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کو سراہتے ہوئے افغان فورسز کی تربیت اور سرحدی نگرانی و مینجمنٹ کے ساتھ دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون کی خواہش ظاہر کی اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے افغانستان کے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ پاکستان کی فوجی تربیت گاہوں میں افغان آرمی کی تربیت کے حوالے سے معاملات طے کرنے پر بات چیت جاری ہے جب کہ افغانستان نے پاکستان کی جانب سے افغان آرمی کی تربیت کی پیشکش قبول کر لی ہے۔ دہشتگردی سے مل کر نمٹنے کے لیے افغانستان کے تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے افغان صدر نے کہا کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ دفاعی تعلقات کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ کے مطابق افغان صدر کا دورہ پاکستان اور خطے کے لیے نیک شگون ثابت ہو گا اور اس دورے سے باہمی تعلقات خوشگوار ہوئے۔ دونوں ممالک کی سیکیورٹی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ بعض مبصرین کی طرف سے افغان صدر کے جی ایچ کیو کی وزٹ کو غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا جس سے دونوں پڑوسی ممالک میں مستقبل کے گہرے برادرانہ تعلقات کی آئینہ داری ہوتی ہے۔ نیز مجموعی طور پر افغان صدر کی پاکستان آمد سے مثبت تاثر پیدا ہوا ہے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار پاکستان تشریف لائے ہیں۔ وہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کی حکومت میں بھی اہم ذمے داریاں نبھاتے رہے ہیں۔ انھیں امریکا اور مغربی ممالک کے بھی خاصا قریب سمجھا جاتا ہے، یوں دیکھا جائے تو وہ پاک افغان تعلقات کی نوعیت اور ان میں موجود تلخیوں سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں افغانستان میں جو کچھ ہوا، وہ دونوں ملکوں کی قیادت کے سامنے ہے۔ اس کے بعد افغان مجاہدین گروپوں پر مشتمل جو حکومتیں قائم ہوئیں اس کی روداد سے بھی دونوں ملکوں کی قیادت آگاہ ہے۔ پھر طالبان کا ظہور اور کابل پر ان کا اقتدار قائم ہوا، اس سے بھی بخوبی آگاہی ہے۔
اب گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ جاری ہے اس کی شدت اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے بھی دونوں ملکوں کی قیادت خوبی آگاہ ہے۔ صدر اشرف غنی عوامی جمہوریہ چین کا بھی دورہ کر چکے ہیں۔ اس طرح ان کا دورہ پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں باہمی تجارت اور اقتصادی تعاون چاہتی ہیں لیکن انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ جب تک جنوبی افغانستان اور پاکستان کے شمالی مغربی علاقوں میں حالات نارمل نہیں ہوتے، یہ باتیں محض باتیں ہی رہیں گی۔
افغانستان کے صدر اشرف کا پاک فوج کے سربراہ سے ملنا اور جنرل ہیڈکوارٹر کا دورہ کرنا اور پھر وہاں انھیں حساس ایشوز پر بریفنگ دینا، بہت اہمیت کی حامل پیش رفت ہے۔ جناب اشرف غنی کو یقینا بہت سے معاملات سے آگاہی حاصل ہوئی ہو گی اور وہ اس کی روشنی میں پالیسیاں تشکیل دے سکتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں لیکن ان کی تاریخ تلخیوں سے بھری ہوئی ہے۔ افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی۔ اس کے بعد پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کرنے والا بھی ایک افغان ہی تھا۔ اس کے بعد کی تاریخ بھی کوئی خوشگوار نہیں ہے۔
بہر حال ان تمام تلخیوں کے باوجود دونوں ملکوں کی عوام کے درمیان گہرے برادرانہ تعلقات چلے آ رہے ہیں۔ پاکستان میں اب تک تقریباً 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین موجود ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو اس حوالے سے بھی افغانستان کے صدر سے بات کرنی چاہیے اور ان افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کو زمینی حقائق سامنے رکھ کر پالیسی تشکیل دینی ہو گی۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی کو معلوم ہی ہو گا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرنے والے گروہوں کی قیادت افغانستان میں روپوش ہے۔
مولوی فضل اللہ کے بارے میں کئی بار یہ انکشاف ہو چکا ہے کہ وہ افغانستان کے صوبہ نورستان اور کنڑ میں نقل و حرکت کرتا رہتا ہے۔ افغانستان کی حکومت کو اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر افغانستان پاکستان سے کچھ چاہتا ہے تو اسے پاکستان کو بھی کچھ دینا چاہیے۔ اسی طرح پاکستان کی حکومت کو بھی فاٹا میں ایسے عناصر کا خاتمہ کرنا چاہیے جو دونوں ملکوں کی سرحدوں کا احترام نہیں کرتے۔ جب دونوں ملکوں کی حکومتیں ایک دوسرے کے اقتدار اعلیٰ اور سرحدوں کے تقدس کا خیال کریں گی تو پھر باہمی تعلقات بہتر بنانا آسان ہو جائے گا۔
معزز افغان مہمان نے بعد ازاں صدر مملکت ممنون حسین، وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار اور وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ ہفتہ کو ان کی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات ہوئی۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف گزشتہ روز لندن سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ افغان صدر کے ہمراہ افغان وزیر دفاع جنرل بسم اللہ محمدی کے علاوہ افغان چیف آف جنرل اسٹاف جنرل شیر محمد کریمی اور دیگر اعلیٰ سیکیورٹی حکام بھی پاکستان تشریف لائے تھے۔
افغان صدر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کو سراہتے ہوئے افغان فورسز کی تربیت اور سرحدی نگرانی و مینجمنٹ کے ساتھ دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون کی خواہش ظاہر کی اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے افغانستان کے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ پاکستان کی فوجی تربیت گاہوں میں افغان آرمی کی تربیت کے حوالے سے معاملات طے کرنے پر بات چیت جاری ہے جب کہ افغانستان نے پاکستان کی جانب سے افغان آرمی کی تربیت کی پیشکش قبول کر لی ہے۔ دہشتگردی سے مل کر نمٹنے کے لیے افغانستان کے تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے افغان صدر نے کہا کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ دفاعی تعلقات کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ کے مطابق افغان صدر کا دورہ پاکستان اور خطے کے لیے نیک شگون ثابت ہو گا اور اس دورے سے باہمی تعلقات خوشگوار ہوئے۔ دونوں ممالک کی سیکیورٹی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ بعض مبصرین کی طرف سے افغان صدر کے جی ایچ کیو کی وزٹ کو غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا جس سے دونوں پڑوسی ممالک میں مستقبل کے گہرے برادرانہ تعلقات کی آئینہ داری ہوتی ہے۔ نیز مجموعی طور پر افغان صدر کی پاکستان آمد سے مثبت تاثر پیدا ہوا ہے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار پاکستان تشریف لائے ہیں۔ وہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کی حکومت میں بھی اہم ذمے داریاں نبھاتے رہے ہیں۔ انھیں امریکا اور مغربی ممالک کے بھی خاصا قریب سمجھا جاتا ہے، یوں دیکھا جائے تو وہ پاک افغان تعلقات کی نوعیت اور ان میں موجود تلخیوں سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں افغانستان میں جو کچھ ہوا، وہ دونوں ملکوں کی قیادت کے سامنے ہے۔ اس کے بعد افغان مجاہدین گروپوں پر مشتمل جو حکومتیں قائم ہوئیں اس کی روداد سے بھی دونوں ملکوں کی قیادت آگاہ ہے۔ پھر طالبان کا ظہور اور کابل پر ان کا اقتدار قائم ہوا، اس سے بھی بخوبی آگاہی ہے۔
اب گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ جاری ہے اس کی شدت اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے بھی دونوں ملکوں کی قیادت خوبی آگاہ ہے۔ صدر اشرف غنی عوامی جمہوریہ چین کا بھی دورہ کر چکے ہیں۔ اس طرح ان کا دورہ پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں باہمی تجارت اور اقتصادی تعاون چاہتی ہیں لیکن انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ جب تک جنوبی افغانستان اور پاکستان کے شمالی مغربی علاقوں میں حالات نارمل نہیں ہوتے، یہ باتیں محض باتیں ہی رہیں گی۔
افغانستان کے صدر اشرف کا پاک فوج کے سربراہ سے ملنا اور جنرل ہیڈکوارٹر کا دورہ کرنا اور پھر وہاں انھیں حساس ایشوز پر بریفنگ دینا، بہت اہمیت کی حامل پیش رفت ہے۔ جناب اشرف غنی کو یقینا بہت سے معاملات سے آگاہی حاصل ہوئی ہو گی اور وہ اس کی روشنی میں پالیسیاں تشکیل دے سکتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں لیکن ان کی تاریخ تلخیوں سے بھری ہوئی ہے۔ افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی۔ اس کے بعد پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کرنے والا بھی ایک افغان ہی تھا۔ اس کے بعد کی تاریخ بھی کوئی خوشگوار نہیں ہے۔
بہر حال ان تمام تلخیوں کے باوجود دونوں ملکوں کی عوام کے درمیان گہرے برادرانہ تعلقات چلے آ رہے ہیں۔ پاکستان میں اب تک تقریباً 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین موجود ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو اس حوالے سے بھی افغانستان کے صدر سے بات کرنی چاہیے اور ان افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کو زمینی حقائق سامنے رکھ کر پالیسی تشکیل دینی ہو گی۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی کو معلوم ہی ہو گا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرنے والے گروہوں کی قیادت افغانستان میں روپوش ہے۔
مولوی فضل اللہ کے بارے میں کئی بار یہ انکشاف ہو چکا ہے کہ وہ افغانستان کے صوبہ نورستان اور کنڑ میں نقل و حرکت کرتا رہتا ہے۔ افغانستان کی حکومت کو اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر افغانستان پاکستان سے کچھ چاہتا ہے تو اسے پاکستان کو بھی کچھ دینا چاہیے۔ اسی طرح پاکستان کی حکومت کو بھی فاٹا میں ایسے عناصر کا خاتمہ کرنا چاہیے جو دونوں ملکوں کی سرحدوں کا احترام نہیں کرتے۔ جب دونوں ملکوں کی حکومتیں ایک دوسرے کے اقتدار اعلیٰ اور سرحدوں کے تقدس کا خیال کریں گی تو پھر باہمی تعلقات بہتر بنانا آسان ہو جائے گا۔