ایک مزدور رہنما کی سادہ لوحیاں
اگر آپ چاہیں تو ’’بھولے پن‘‘ کی جگہ ذرا اس سے اسٹرانگ اور گاڑھا لفظ استعمال کر سکتے ہیں۔
ایک بڑا ہی دل چسپ خط ہمارے پاس آیا ہے جو سر سے پیر تک اگر ''مزاح'' سے بھرپور نہیں ہے لیکن بھولا پن اس کے لفظ لفظ سے ٹپک رہا ہے، خط پڑھنے کے بعد اگر آپ چاہیں تو ''بھولے پن'' کی جگہ ذرا اس سے اسٹرانگ اور گاڑھا لفظ استعمال کر سکتے ہیں کیوں کہ یہ مکتوب نگار جس کا نام فضل منان ہے اور مزدور یار تخلص کرتا ہے، اپنے وقت کا اکبر الہ آبادی ہے۔
اکبر الہ آبادی کے خلاف تو رقیبوں نے اس وجہ سے تھانے میں پرچا چاک کیا تھا کہ وہ اس ''زمانے'' میں خدا کا نام لینے کا سنگین جرم کرتا ہوتا پایا گیا ہے اور یہ جناب فضل منان مزدور یار جو ہے یہ اس ''زمانے'' میں ''حق'' کی بات کرتا ہے اور وہ بھی ''مزدور'' کے حق کی، جس کے نام ہی میں ''دور'' یا دفع دور کا مادہ موجود ہے، ''مزد'' کا لفظ فارسی میں اجرت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہ قدیم ایران کے سب سے قدیم اور اولین سوشلسٹ لیڈر ''مزدک'' سے تعلق رکھتا ہے مزدور وہ ہوتا ہے جسے ''مزد'' یعنی حق سے ''دور'' رکھا جاتا ہے یا رکھا جائے، اردو میں اس سے کام کروانے کے بعد ''دفع دور'' کرنے کا رواج ہے۔
یہ صاحب مکتوب فضل منان چونکہ مزدوروں کے بھی سردار ہیں اس لیے آپ ان کے بھولے پن کا اندازہ لگا سکتے ہیں ابھی ہم اتنے ہوشیار تو نہیں ہیں کہ لفافہ دیکھ کر خط کا مضمون بھانپ سکیں کیونکہ ہم پکے پکے پاکستانی عوام ہیں اور اگر پاکستانی عوام میں ''لفافہ'' دیکھ کر ''خط'' کا مضمون بھانپنے کی صلاحیت ہوتی تو اب تک اپنے لیڈروں کو اچھی طرح پہچان چکے ہوتے، لیکن پھر بھی خط کا مضمون خط پڑھ کر تو سمجھ سکتے ہیں حالانکہ سچے اور خالص پاکستانی عوام تو یہ بھی نہیں کر سکتے ہیں کتنے ''خط'' ہیں کہ ان کو اٹھاسٹھ سال سے مسلسل پڑھ رہے ہیں بلکہ اتنا پڑھ چکے ہیں کہ تقریباً ہر خط ان کو ازبر ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ان کا ''مضمون'' نہیں بھانپ پاتے اور ہم نے یہ کر دکھایا۔
اس خدا کے سادہ دل بندے فضل منان مزدور یار نے رسالپور سے ہمیں جو خط بھیجا ہے اسے پڑھنے کے فوراً بعد ہم پر وہی کیفیت طاری ہو گئی جو پرانی کہانیوں کے کرداروں پر طاری ہو جاتی تھی، یعنی کبھی ہنستے اور کبھی روتے، روتے روتے ہنس پڑتے تھے اور ہنستے ہنستے اچانک رو پڑے تھے بلکہ اکثر تو ایک آنکھ سے روتے اور دوسری آنکھ سے ہنستے ہوئے پائے جاتے تھے یا ہونٹوں پر ہنسی اور آنکھوں میں آنسو ہوتے تھے، یعنی ''لب خنداں'' اور چشم گریاں ۔۔۔ ہماری یہ کیفیت خط پڑھنے کے بعد اس لیے ہو گئی ہے کہ مزاحیہ نہ ہونے کے باوجود بھی یہ خط مزاح سے بھرپور لگتا ہے خط پڑھنے کے بعد ہمیں پختہ یقین ہو گیا ہے کہ اس اکسیویں صدی کے نئے ۔۔۔ یا انڈر کنسٹرکشن پاکستان میں خدا کے کتنے سادہ دل بندے پائے جاتے ہیں۔
جو عیار ترین سلطانان کرام اور درویشیاں عظام کے بیچ یوں دھنس چکے ہیں جیسے دانتوں کے اندر زباں ۔۔۔ شاید اسی لیے تو ''جنت'' میں رہتے ہیں، خط میں سب سے پہلی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ احمقانہ بات اس نے یہ لکھی ہے کہ معاشرے کی ترقی میں ہم مزدوروں کا ایک اہم کردار ہے، اس ''کردار'' پر ہمیں ایک پرانا سا لطیفہ یاد آ گیا ایک شخص نے دوستوں کو بتایا کہ اس نے فلاں فلم میں بڑا زبردست رول ادا کیا ہے اور پھر اپنے خرچے پر کچھ دوستوں کو وہ فلم دکھانے بھی لے گیا فلم چلتی رہی آخر وہ چلایا دیکھو دیکھو اب میرا رول آنے والا ہے اتنے میں اسکرین پر ایک جنازہ دکھائی دیا کچھ دیر چلتا رہا پھر مقبرے میں پہنچ کر کفن پوش مردے کو قبر میں اتارا گیا اور قبر پھولوں سے بھی سج گئی لیکن وہ شخص کہیں دکھائی نہیں دیا، دوستوں نے پوچھا تم تو اس میں کہیں دکھائی نہیں دیے۔
اس پر وہ بندہ غصے میں بھر کر بولا ۔۔۔ لاش کا کردار کیا تمہارے باپ نے ادا کیا، میں ہی تو تھا وہ ۔۔۔ ہمارے یہ بھولے بادشاہ فضل منان بھی کہتے ہیں کہ معاشرے کی ترقی میں ہم مزدوروں کا ایک اہم کردار ہوتا ہے، یہ تو صرف ابتداء ہے آگے چل کر جناب موصوف نے اور بھی بہت سارے ''لطیفے'' بیان کیے ہیں مثلاً مزدوروں کے حقوق کی باتیں، اجرتوں کی باتیں اور مراعات کی باتیں ۔۔۔ یعنی ان سب چیزوں کی باتیں جو مزدور کی نہیں ہوتیں پھر اس نے مزدوروں کے حقوق اور مراعات وغیرہ کے بارے میں حکومت کے ''اعلانات'' کے حوالے دیے ہیں بجٹوں اور سرکاری بیانوں میں مزدوروں کی کم از کم اجرت کے لطیفے سنائے ہیں، یہاں پر ہمیں ایک اور لطیفہ یاد آ رہا ہے بلکہ دو کہئے کیوں کہ ایک لطیفہ ہے اور دوسرا حقیقہ ۔۔۔
(جاری ہے)