جھگیوں کی مکین
کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے، بے شک بڑاشہرہے،اس کا دل بھی بڑاہے،اس شہر میں ہر قوم اور ہر طبقے کے لوگ آکر بستے ہیں،
چند روز قبل کی بات ہے جب گلستان جوہر میں جھگیوں میں آگ لگ گئی اور اس بڑھتی ہوئی آگ نے ایک تین سالہ بچی شائستہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور چند ساعتوں میں بچی جل کر خاکستر ہوگئی، چھیپا والوں نے ملبے سے کوئلہ نما بچی کو بیلچے اور پھاؤڑے کی مدد سے نکالا۔ آتشزدگی کے حوالے سے یہ پہلا واقعہ ہرگز نہیں ہے بلکہ ہر روز کہیں نہ کہیں اس قسم کے سانحات رونما ہوتے ہی رہتے ہیں۔
جلنے والوں کی اکثریت میں مزدور، محنت کش لوگ ہی شامل ہیں، یہ لوگ صوبہ پنجاب سے روزگار کے سلسلے میں کراچی آتے ہیں اور محنت مشقت کرکے رزق حلال کماتے ہیں، کچھ خاندان سالہا سال سے یہاں مقیم ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو سال دو سال بعد رہ کر اتنا کما لیتے ہیں کہ واپس جاکر اپنے کچے گھروں کو پکا کرلیں، ضروریات زندگی کی اشیا خرید لیں تاکہ زیست بسر کرنا آسان ہوجائے۔
زیادہ تر یہ لوگ رحیم یار خان اور راجن پور سے تعلق رکھتے ہیں، سرائیکی زبان بولتے ہیں، اگر پنجاب کی حکومت اور مذکورہ اضلاع اور گاؤں کے مکینوں کو جاگیردار اور وڈیرے انسان سمجھیں اور انسانیت کے ناتے انھیں ان کے کام کی پوری اجرت دیں، ان کو علاج معالجہ اور تعلیمی سہولیات میسر کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ غربا و مساکین اپنا آبائی شہر چھوڑ کر کراچی جیسے بڑے شہر میں آکر عارضی طور ڈیرے ڈالیں، جھونپڑیاں بنائیں اور لوگوں کے گھروں میں خواتین کام کاج کریں اور ان کے ننھے، معصوم بچے کیڑے مکوڑوں کی طرح مٹی میں رلتے پھریں، ماں باپ روزگار کی غرض سے باہر نکل جاتے ہیں اور ننھے بچے گلیوں اور سڑکوں پر مٹی میں کھیلنے پر مجبور ہوں۔
کچھ ذمے داریاں حکومت اور امرا و رؤسا کی ہوتی ہیں کہ وہ ان کا خیال رکھیں اور صاحب حیثیت لوگ ان کے حقوق ادا کریں، ان کے بچوں کے تعلیمی اخراجات اور کفالت کی ذمے داری اٹھالیں لیکن اس کے ساتھ ہی گھر کے سربراہ کی ذمے داری سب سے اہم ہوتی ہے کہ وہ گھر کے تمام افراد کی کفالت کا ذمے دار ہے، معاشی مسائل کو سلجھانے میں اسے اپنا کردار ادا کرنا لازم ہوتا ہے، لیکن یہاں پر معاملہ بالکل الٹ نظر آتا ہے، عورت بے چاری گھروں کے کام کرے یا بچوں کی پرورش کرے۔
اگر وہ بے چاری کام نہ کرسکے تو فاقوں کی نوبت آجاتی ہے اور ماں ہونے کے ناتے وہ یہ کیسے برداشت کرسکتی ہے کہ اس کے ننھے منے بچے بھوکے، پیاسے رہیں، لیکن باپ کو نہ اپنی ذمے داریوں کا خیال آتا ہے اور نہ بیوی بچوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے، ان ماسیوں کے زیادہ تر مرد اپنی بیوی، بیٹیوں اور بہوؤں پر ہی اضافی بوجھ ڈال دیتے ہیں جوکہ بہت بڑا ظلم اور اللہ کی نافرمانی ہے۔ وہ خود اگر ڈرائیوری یا کوئی اور کام کرتے ہیں تو اپنی کمائی ہوئی رقم سے یا تو جوا کھیلتے ہیں یا غیر ضروری کاموں پر خرچ کردیتے ہیں، ورنہ زیادہ تر آرام کرتے اور پلنگ توڑتے ہیں۔
بہت کم لوگ ایسے ہیں جو خود بھی کماتے ہیں اور ان کے گھر والے بھی۔ کچھ لوگ بچوں کو بھی سرکاری اسکول میں پڑھانے بٹھاتے ہیں لیکن جوں ہی تعلیمی اخراجات بڑھتے ہیں یہ لوگ اسکولوں سے اپنی اولاد کی ہمیشہ کے لیے چھٹی کرا دیتے ہیں اور پھر بے چارے یہ چھوٹے لڑکے اور لڑکیاں ساری عمر محنت کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ اسی طرح نسل در نسل جہالت، غربت اور بے حسی کا سلسلہ جاری وساری رہتا ہے۔
مذکورہ واقعے کی میں خود شاہد ہوں کہ غریب خاندانوں نے خالی پلاٹوں پر جھونپڑیاں بنائی ہوئی تھیں، ان ہی میں رہائش پذیر تھے، جس دن آگ لگنے والا واقعہ پیش آیا اور جس وقت آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے ہماری کئی پڑوسنوں نے فائر بریگیڈ اور 15 کو فون کیا، لیکن فون انگیج ہی ملتا رہا اور آگ بڑھتی رہی اور جب نمبر ملا تو ان صاحب نے جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ ''پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی'' پہلے تو مکمل پتا معلوم کیا، خیر یہاں تک تو بات ٹھیک ہے، لیکن اس کے بعد نام پوچھنے پر نہ کہ اصرار رہا بلکہ بضد تھے، آپ سے تم اور تم سے ''تو'' پر آگئے... ''تجھے اپنا نام بتانے میں آخر اعتراض کیا ہے؟'' وہ بڑے خوشگوار موڈ میں تھے، ادھر جان و مال پر بنی ہوئی تھی، لیکن وہاں جوں تک نہیں رینگ رہی تھی، وہ تو اگر فون بند نہ کیا جاتا تو نہ جانے کتنی دیر تفریح کرتے، اور الٹے سیدھے جملے بول کر مدد مانگنے والوں کے اعتبار کی کرچیاں کرتے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اعتبار تو ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گیا تھا، بھلا ہو ایدھی والوں کا کہ وہ کیسی بھی لاش ہو، سربریدہ، زخمی، جلی ہوئی، مختلف ٹکڑوں میں ہو، ایدھی صاحب جن کی عظمت کو زمانہ سلام کر رہا ہے وہ خود اور ان کے کارکن غسل دیتے ہیں، کفن کا انتظام کرتے ہیں اور اگر لواحقین چاہیں تو تدفین کے لیے بھی اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، گویا انسانیت کی خدمت ہی ان کا نصب العین ہے۔
کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے ، بے شک بڑا شہر ہے، اس کا دل بھی بڑا ہے، اس شہر میں ہر قوم اور ہر طبقے کے لوگ آکر بستے ہیں، نہ صرف یہ کہ یہ شہر انھیں جگہ دیتا ہے بلکہ کراچی کے لوگ بھی دریا دل اور وسیع النظر ہیں وہ بھی سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر صوبے کے لوگ کراچی میں پرسکون زندگی بسر کر رہے ہیں، اگر تفرقہ ہے، نفرت اور تعصب ہے تو چند مخصوص لوگوں کی وجہ سے جو بھائی کو بھائی سے لڑانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
ورنہ ہر برے وقت میں سب ساتھ ساتھ ہوتے ہیں، آتشزدگی والے دن پورا محلہ اداس رہا اور دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے محنت کشوں کی مدد کرنے کی کوشش کی گئی، اگر حکومت کو ذرہ برابر بھی اپنی ذمے داریوں کا احساس ہو تو وہ ان لوگوں کے لیے دو یا ایک کمرے کے مکانات بنوا سکتی ہے۔ ''بے نظیر انکم سپورٹ'' کی دھوم تو بہت ہے لیکن فائدہ کسی کو حاصل نہیں، بے چارے تھوڑی سی رقم کے لیے مصائب برداشت کرتے ہیں تب بھی رقم وصول نہیں کرپاتے۔
گرمی، سردی، بارش ہر موسم میں یہ غریب لوگ دکھ اٹھاتے ہیں اور اپنے ہی وطن میں رہتے ہوئے ہزاروں مصائب کا شکار ہیں۔ صاحب ثروت اور مخیر حضرات ان جھگی نشینوں پر محبت بھری نظر ڈالیں اور ان کے لیے چھوٹے چھوٹے کوارٹروں کی تعمیرات شروع کردیں اور تکمیل کے بعد ان کے حوالے کردیں، ان کے اس نیک عمل سے ان کے روپے پیسے میں کمی نہیں آئے گی بلکہ اضافہ ہی ہوگا اور بے چارے یہ مزدوری کرنے والے لوگ آتشزدگی کے واقعات سے محفوظ ہوجائیں گے، موسموں کی سنگینی سے بچ جائیں گے اور جان و مال محفوظ رہے گا۔ ہے کوئی جو اس کار خیر میں حصہ لے؟
جلنے والوں کی اکثریت میں مزدور، محنت کش لوگ ہی شامل ہیں، یہ لوگ صوبہ پنجاب سے روزگار کے سلسلے میں کراچی آتے ہیں اور محنت مشقت کرکے رزق حلال کماتے ہیں، کچھ خاندان سالہا سال سے یہاں مقیم ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو سال دو سال بعد رہ کر اتنا کما لیتے ہیں کہ واپس جاکر اپنے کچے گھروں کو پکا کرلیں، ضروریات زندگی کی اشیا خرید لیں تاکہ زیست بسر کرنا آسان ہوجائے۔
زیادہ تر یہ لوگ رحیم یار خان اور راجن پور سے تعلق رکھتے ہیں، سرائیکی زبان بولتے ہیں، اگر پنجاب کی حکومت اور مذکورہ اضلاع اور گاؤں کے مکینوں کو جاگیردار اور وڈیرے انسان سمجھیں اور انسانیت کے ناتے انھیں ان کے کام کی پوری اجرت دیں، ان کو علاج معالجہ اور تعلیمی سہولیات میسر کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ غربا و مساکین اپنا آبائی شہر چھوڑ کر کراچی جیسے بڑے شہر میں آکر عارضی طور ڈیرے ڈالیں، جھونپڑیاں بنائیں اور لوگوں کے گھروں میں خواتین کام کاج کریں اور ان کے ننھے، معصوم بچے کیڑے مکوڑوں کی طرح مٹی میں رلتے پھریں، ماں باپ روزگار کی غرض سے باہر نکل جاتے ہیں اور ننھے بچے گلیوں اور سڑکوں پر مٹی میں کھیلنے پر مجبور ہوں۔
کچھ ذمے داریاں حکومت اور امرا و رؤسا کی ہوتی ہیں کہ وہ ان کا خیال رکھیں اور صاحب حیثیت لوگ ان کے حقوق ادا کریں، ان کے بچوں کے تعلیمی اخراجات اور کفالت کی ذمے داری اٹھالیں لیکن اس کے ساتھ ہی گھر کے سربراہ کی ذمے داری سب سے اہم ہوتی ہے کہ وہ گھر کے تمام افراد کی کفالت کا ذمے دار ہے، معاشی مسائل کو سلجھانے میں اسے اپنا کردار ادا کرنا لازم ہوتا ہے، لیکن یہاں پر معاملہ بالکل الٹ نظر آتا ہے، عورت بے چاری گھروں کے کام کرے یا بچوں کی پرورش کرے۔
اگر وہ بے چاری کام نہ کرسکے تو فاقوں کی نوبت آجاتی ہے اور ماں ہونے کے ناتے وہ یہ کیسے برداشت کرسکتی ہے کہ اس کے ننھے منے بچے بھوکے، پیاسے رہیں، لیکن باپ کو نہ اپنی ذمے داریوں کا خیال آتا ہے اور نہ بیوی بچوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے، ان ماسیوں کے زیادہ تر مرد اپنی بیوی، بیٹیوں اور بہوؤں پر ہی اضافی بوجھ ڈال دیتے ہیں جوکہ بہت بڑا ظلم اور اللہ کی نافرمانی ہے۔ وہ خود اگر ڈرائیوری یا کوئی اور کام کرتے ہیں تو اپنی کمائی ہوئی رقم سے یا تو جوا کھیلتے ہیں یا غیر ضروری کاموں پر خرچ کردیتے ہیں، ورنہ زیادہ تر آرام کرتے اور پلنگ توڑتے ہیں۔
بہت کم لوگ ایسے ہیں جو خود بھی کماتے ہیں اور ان کے گھر والے بھی۔ کچھ لوگ بچوں کو بھی سرکاری اسکول میں پڑھانے بٹھاتے ہیں لیکن جوں ہی تعلیمی اخراجات بڑھتے ہیں یہ لوگ اسکولوں سے اپنی اولاد کی ہمیشہ کے لیے چھٹی کرا دیتے ہیں اور پھر بے چارے یہ چھوٹے لڑکے اور لڑکیاں ساری عمر محنت کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ اسی طرح نسل در نسل جہالت، غربت اور بے حسی کا سلسلہ جاری وساری رہتا ہے۔
مذکورہ واقعے کی میں خود شاہد ہوں کہ غریب خاندانوں نے خالی پلاٹوں پر جھونپڑیاں بنائی ہوئی تھیں، ان ہی میں رہائش پذیر تھے، جس دن آگ لگنے والا واقعہ پیش آیا اور جس وقت آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے ہماری کئی پڑوسنوں نے فائر بریگیڈ اور 15 کو فون کیا، لیکن فون انگیج ہی ملتا رہا اور آگ بڑھتی رہی اور جب نمبر ملا تو ان صاحب نے جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ ''پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی'' پہلے تو مکمل پتا معلوم کیا، خیر یہاں تک تو بات ٹھیک ہے، لیکن اس کے بعد نام پوچھنے پر نہ کہ اصرار رہا بلکہ بضد تھے، آپ سے تم اور تم سے ''تو'' پر آگئے... ''تجھے اپنا نام بتانے میں آخر اعتراض کیا ہے؟'' وہ بڑے خوشگوار موڈ میں تھے، ادھر جان و مال پر بنی ہوئی تھی، لیکن وہاں جوں تک نہیں رینگ رہی تھی، وہ تو اگر فون بند نہ کیا جاتا تو نہ جانے کتنی دیر تفریح کرتے، اور الٹے سیدھے جملے بول کر مدد مانگنے والوں کے اعتبار کی کرچیاں کرتے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اعتبار تو ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گیا تھا، بھلا ہو ایدھی والوں کا کہ وہ کیسی بھی لاش ہو، سربریدہ، زخمی، جلی ہوئی، مختلف ٹکڑوں میں ہو، ایدھی صاحب جن کی عظمت کو زمانہ سلام کر رہا ہے وہ خود اور ان کے کارکن غسل دیتے ہیں، کفن کا انتظام کرتے ہیں اور اگر لواحقین چاہیں تو تدفین کے لیے بھی اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، گویا انسانیت کی خدمت ہی ان کا نصب العین ہے۔
کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے ، بے شک بڑا شہر ہے، اس کا دل بھی بڑا ہے، اس شہر میں ہر قوم اور ہر طبقے کے لوگ آکر بستے ہیں، نہ صرف یہ کہ یہ شہر انھیں جگہ دیتا ہے بلکہ کراچی کے لوگ بھی دریا دل اور وسیع النظر ہیں وہ بھی سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر صوبے کے لوگ کراچی میں پرسکون زندگی بسر کر رہے ہیں، اگر تفرقہ ہے، نفرت اور تعصب ہے تو چند مخصوص لوگوں کی وجہ سے جو بھائی کو بھائی سے لڑانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
ورنہ ہر برے وقت میں سب ساتھ ساتھ ہوتے ہیں، آتشزدگی والے دن پورا محلہ اداس رہا اور دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے محنت کشوں کی مدد کرنے کی کوشش کی گئی، اگر حکومت کو ذرہ برابر بھی اپنی ذمے داریوں کا احساس ہو تو وہ ان لوگوں کے لیے دو یا ایک کمرے کے مکانات بنوا سکتی ہے۔ ''بے نظیر انکم سپورٹ'' کی دھوم تو بہت ہے لیکن فائدہ کسی کو حاصل نہیں، بے چارے تھوڑی سی رقم کے لیے مصائب برداشت کرتے ہیں تب بھی رقم وصول نہیں کرپاتے۔
گرمی، سردی، بارش ہر موسم میں یہ غریب لوگ دکھ اٹھاتے ہیں اور اپنے ہی وطن میں رہتے ہوئے ہزاروں مصائب کا شکار ہیں۔ صاحب ثروت اور مخیر حضرات ان جھگی نشینوں پر محبت بھری نظر ڈالیں اور ان کے لیے چھوٹے چھوٹے کوارٹروں کی تعمیرات شروع کردیں اور تکمیل کے بعد ان کے حوالے کردیں، ان کے اس نیک عمل سے ان کے روپے پیسے میں کمی نہیں آئے گی بلکہ اضافہ ہی ہوگا اور بے چارے یہ مزدوری کرنے والے لوگ آتشزدگی کے واقعات سے محفوظ ہوجائیں گے، موسموں کی سنگینی سے بچ جائیں گے اور جان و مال محفوظ رہے گا۔ ہے کوئی جو اس کار خیر میں حصہ لے؟