اسلام فوبیا
۔اسلام فوبیا میں گرفتار مغربی ممالک کے شہریوں کے روئیے مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندی سے بھی بڑھ کر ثابت ہو رہے ہیں۔
سعودی عرب سے شائع اخبار الوطن میں اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے اسلام فوبیا کے مقابلے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال آمیز اقدامات کی روک تھام اور مختلف تہذیبوں کے مابین پر امن بقاء باہمی کے معیارات کی تقویت کے لیے مزید کوششیں انجام دیں جائیں ۔
دہشت گردی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اس کا کسی ملک ، دین اور شہریت سے کوئی تعلق نہیں اور سب سے بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اسلامی ممالک اور مسلمان دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ بنے ہیں۔اسلام فوبیا کے شکار مغربی ممالک کا یہ رویہ سانحہ ستمبر کے بعد شدت اختیار کرگیا ، خاص کر امریکی معاشرے میں عدم برداشت اور مذہبی رواداری تیزی سے ختم ہونا شروع ہوئی نائن الیون کے واقعے کے بعد ہندو انتہا پسندوں نے بھی مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے عجیب و غریب طریقے اپنائے جس میں سکھوں کو مسلمانوں کے ساتھ نتھی کرنا بھی تھا ۔ مختلف گوردواروں پر حملے کے بعد اوک کریک گوردوارے کے سربراہ ڈاکٹر ستونت سنگھ کلیکا کا کہنا تھا کہ سکھوں کو کافی عرصے سے دہمکیاں مل رہی تھیں ، سکھ رہنما اور انسانی حقوق کی کارکن محترمہ ولیری کور نے اس واقعے کو امریکا میں مذہبی منافرت کا شاخسانہ قرار دیا ، ویکری کور کا کہنا تھا کہ امریکی میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف چلنے والی مہم سے سکھ بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں مسلمانوں کے حقوق بیلجیم نامی سول سوسائٹی کی زیر قیادت برسلز عدلیہ کے سامنے جمع ہوئے اور بڑھتے ہوئے اسلام فوبیا اور نسلیت پرستی کے سامنے بند باندھنے کی اپیل کی گئی ، مسلمانوں کے حقوق بیلجیم نامی سول سوسائٹی کے سربراہ فواد بینیک ہلف نے کہا کہ پر امن ماحول میں وقار کے ساتھ زندگی گذارنے ، معاشرے کا ایک حصہ بننے اور معاشرے میں مساوی شرکت کے علاوہ ہمارا اور کوئی مطالبہ نہیں ہے۔ مظاہرین نے چار لیوئی شہر میں گھریلو چپقلش کے بعد حراست میں لیے جانے والے اور پولیس اسٹیشن میں اپنی زندگی سے محروم ہونے والے شمالی افریقہ النسل طارق یوسف کی موت کی وجہ کو بھی منظر عام پر لانے اور ذمے داروں کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔اسلام فوبیا میں گرفتار مغربی ممالک کے شہریوں کے روئیے مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندی سے بھی بڑھ کر ثابت ہو رہے ہیں۔
حکومت ہالینڈ اور مسلمانوں کے درمیان ارتباط کی آرگنائزیشن کے سربراہ ابوبکر ازتور کے مطابق حالیہ سالوں میںہالینڈ میں مقیم مسلمانوں کے خلاف حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور مساجد میں خنزیر کے سر پھینکے جانے کے واقعات بھی رونما ہوئے۔جب کہ فرانس کے وزیر داخلہ نے تسلیم کیا ہے کہ مسلم مخالف افعال کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ، فرانسسی وزیرداخلہ مینول والس نے اسلام فوبیا کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے اسلام مخالف کارروائیوں کی بات کی ،حالاں کہ فرانس میں مقیم مسلمان کئی سالوں سے اسلام فوبیا کا شکار ہوتے آرہے ہیں۔جس میں مسلم خواتین کے حجاب پر عائد پابندیاں بھی شامل ہیں۔
گذشتہ دن انگلستان کی پولیس نے فیس بک اور ٹویٹر پر اسلام کے خلاف تبلیغ کرنے والے چار افراد کو گرفتار کیا ، 22 سالہ بنجامین اور اس کے دیگر ساتھی فیس بک اور ٹویٹر پر اسلام مخالف بیانات دے کر مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہے تھے۔لینکو لنشیر اور سومرسٹ شہروں کی پولیس نے اسلام فوبیا کی تبلیغ کرنے کے جرم میں کچھ افراد سے تفتیش بھی کی اور ان پر مذہبی اور نسلی نفرت پھیلانے کا الزام لگایا۔ 2013ء میں لندن پولیس نے ایک رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ 2013ء کے دوران اس ملک کے مسلمانوں کے خلاف مجرمانہ اقدامات میں اضافہ ہوا ہے 2011میں 318، 2012ء میں 334جب کہ 2013ء میں 500واقعات ہوئے ، صرف مئی اور جون میں 212واقعات ہوئے۔
اسلام فوبیا کی بنیادی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ غیر مسلموں کا اسلام میں داخل ہونا اور مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ انگلستان اور ولیز میں تازہ مردم شماری کے تجزیئے کے مطابق پانچ سال تک کی عمر کے ہر دس بچوں میں سے ایک مسلمان ہے ، قومی اعداد و شمار کے دفتر کے مطابق ساڑھے چار سال تک کی عمر کے کل ساڑھے تین ملین بچوں میں سے تقریبا تین لاکھ بیس ہزار بچے مسلمان ہیں، مسلمان بچوں کی شرح 9فیصدی ہے ، اوکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ کو لیمن نے کہا کہ مذکورہ اعداد و شمار حیرت انگیز ہے ، عرصہ دراز سے انگلستان مسلمانوں کو پناہ دے رہا ہے، پہلے یہاں پاکستان بنگلہ دیش اور ہندوستان سے مسلمان آیا کرتے تھے لیکن اب افریقی ممالک اور مشرق وسطی سے بھی مسلمان انگلستان کا رخ کر رہے ہیں۔
امریکا میں مسلمانوں کی آبادی 30لاکھ بتائی گئی جو 2030ء تک بڑھ کر 60لاکھ20ہزار تک پہنچ جائے گی۔شمالی امریکا میں1990سے2010ء تک مسلمانوں کی آبادی میں 91فیصد کی رفتار سے اضافہ ہوا اور مسلم افراد کی تعداد 10لاکھ80ہزار سے بڑھ کر30لاکھ 50ہزار تک پہنچ گئی جب کہ آنے والے بیس سالوں میں شمالی امریکا میں مسلم افراد کی تعداد 80لاکھ 90ہزار ہونے کا امکان ہے۔برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی20لاکھ 30ہزار سے بڑھ کر50لاکھ 60ہزار اور فرانس میں 40لاکھ 70ہزار سے بڑھ کر60لاکھ 90ہزار کے قریب پہنچ جائے گی جب کہ فرانس میں اس وقت بھی مساجد کی تعداد کھتولک چرچ سے زائد ہے۔2010ء تک یورپ میں مسلمانوں کی آبادی5کروڑ کے قریب تھی جو 2030تک بڑھ کر6کروڑ کے قریب پہنچ جائے گی۔فورم آن ریلجن اینڈ پبلک لائف نامی ایک امریکی ادارے کی جانب سے بین المذاہب شرح آبادی کا ایک سروے کیا گیا جس کے مطابق 2030ء میں جب دنیا کی آبادی تقریبا8ارب3کروڑ سے تجاوز کر جائے گی تو اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی آبادی 2ارب20کروڑ ہوگی۔
ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے دنیا سمٹ گئی ہے اور انسانوں کا آپس میں رابطہ اور حال احوال بہت سہل ہوگیا ہے اس لیے دنیا جہاں ایک جیب میں جگہ پا لیتی ہے تواب کسی کے لیے حقائق کو جاننا مشکل نہیں رہا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا تمام تر وسائل کے باوجود بے اثر ہو رہا ہے ، جس کی تازہ مثال غزہ میں مغربی میڈیا کا جانبدارانہ رویہ تھا جس میں دنیا کو یکطرفہ خبر دی جا رہی تھی ، لیکن جب سوشل میڈیا کے توسط سے اصل حقائق اور تصاویر منظر عام پر آئیں تو سچ کو لاکھ چھپانے کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور مغرب کو شرمندگی ملی۔
اسلام فوبیا کے شکار ، انتہاپسند عناصر کی جانب سے مساجد پر حملے ، گستاخانہ خاکے ، نعوذ باللہ توہین رسالت ﷺ اور قرآن کریم کی بے حرمتی جیسے واقعات کو اظہار رائے آزادی کا نام دیکر مسلم امہ کے خلاف نفرت کو پروان چڑھانے کا موقع مغرب نے خود فراہم کیا ، جس کے بعد ان ممالک نے پڑھی لکھی عوام نے ازخود اسلام کا مطالعہ شروع کیا اور روشنی حاصل کرنے والوں کو اللہ تعالی نے راستہ دکھایا کہ اب یہ کہا جارہا ہے، اگلے چند سالوں میں یورپ مسلمانوں کے زیر نگیں اس لیے ہو جائے گا کیونکہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ افکار سے تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ پروپیگنڈا کرکے انھیں شدت پسند ، انتہا پسند اور دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے بار بار مسلم ممالک میں مہم جوئی کی جاتی ہے لیکن جتنی قوت سے مغرب استعماری قوتیں جارحیت کرتی ہیں انھیں اسی شدت کے ساتھ شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں جب کسی اقلیت کے خلاف کسی مسلم شخص یا گروہ کے خلاف دانستہ یا نادانستہ کوئی کاروائی ہوجاتی ہے تو سول سوسائٹی سمیت سیاسی و مذہبی جماعتیں تک مذمت میں اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ انھیں پوری دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم تک دکھائی نہیں دیتے ۔صرف پوائنٹ اسکورنگ کے لیے یا مغرب کی خوشنودی کے لیے اپنی حدود تک پھلانگ جاتے ہیں ۔کسی شخص کے انفرادی فعل کو پوری مسلم امہ پر تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے اور رائی کا پہاڑ بنا کر اسلام مخالف قوتیں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی کو بھی ،اور کسی بھی واقعے کو استعمال کرتی ہیں۔
دہشت گردی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اس کا کسی ملک ، دین اور شہریت سے کوئی تعلق نہیں اور سب سے بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اسلامی ممالک اور مسلمان دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ بنے ہیں۔اسلام فوبیا کے شکار مغربی ممالک کا یہ رویہ سانحہ ستمبر کے بعد شدت اختیار کرگیا ، خاص کر امریکی معاشرے میں عدم برداشت اور مذہبی رواداری تیزی سے ختم ہونا شروع ہوئی نائن الیون کے واقعے کے بعد ہندو انتہا پسندوں نے بھی مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے عجیب و غریب طریقے اپنائے جس میں سکھوں کو مسلمانوں کے ساتھ نتھی کرنا بھی تھا ۔ مختلف گوردواروں پر حملے کے بعد اوک کریک گوردوارے کے سربراہ ڈاکٹر ستونت سنگھ کلیکا کا کہنا تھا کہ سکھوں کو کافی عرصے سے دہمکیاں مل رہی تھیں ، سکھ رہنما اور انسانی حقوق کی کارکن محترمہ ولیری کور نے اس واقعے کو امریکا میں مذہبی منافرت کا شاخسانہ قرار دیا ، ویکری کور کا کہنا تھا کہ امریکی میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف چلنے والی مہم سے سکھ بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں مسلمانوں کے حقوق بیلجیم نامی سول سوسائٹی کی زیر قیادت برسلز عدلیہ کے سامنے جمع ہوئے اور بڑھتے ہوئے اسلام فوبیا اور نسلیت پرستی کے سامنے بند باندھنے کی اپیل کی گئی ، مسلمانوں کے حقوق بیلجیم نامی سول سوسائٹی کے سربراہ فواد بینیک ہلف نے کہا کہ پر امن ماحول میں وقار کے ساتھ زندگی گذارنے ، معاشرے کا ایک حصہ بننے اور معاشرے میں مساوی شرکت کے علاوہ ہمارا اور کوئی مطالبہ نہیں ہے۔ مظاہرین نے چار لیوئی شہر میں گھریلو چپقلش کے بعد حراست میں لیے جانے والے اور پولیس اسٹیشن میں اپنی زندگی سے محروم ہونے والے شمالی افریقہ النسل طارق یوسف کی موت کی وجہ کو بھی منظر عام پر لانے اور ذمے داروں کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔اسلام فوبیا میں گرفتار مغربی ممالک کے شہریوں کے روئیے مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندی سے بھی بڑھ کر ثابت ہو رہے ہیں۔
حکومت ہالینڈ اور مسلمانوں کے درمیان ارتباط کی آرگنائزیشن کے سربراہ ابوبکر ازتور کے مطابق حالیہ سالوں میںہالینڈ میں مقیم مسلمانوں کے خلاف حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور مساجد میں خنزیر کے سر پھینکے جانے کے واقعات بھی رونما ہوئے۔جب کہ فرانس کے وزیر داخلہ نے تسلیم کیا ہے کہ مسلم مخالف افعال کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ، فرانسسی وزیرداخلہ مینول والس نے اسلام فوبیا کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے اسلام مخالف کارروائیوں کی بات کی ،حالاں کہ فرانس میں مقیم مسلمان کئی سالوں سے اسلام فوبیا کا شکار ہوتے آرہے ہیں۔جس میں مسلم خواتین کے حجاب پر عائد پابندیاں بھی شامل ہیں۔
گذشتہ دن انگلستان کی پولیس نے فیس بک اور ٹویٹر پر اسلام کے خلاف تبلیغ کرنے والے چار افراد کو گرفتار کیا ، 22 سالہ بنجامین اور اس کے دیگر ساتھی فیس بک اور ٹویٹر پر اسلام مخالف بیانات دے کر مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہے تھے۔لینکو لنشیر اور سومرسٹ شہروں کی پولیس نے اسلام فوبیا کی تبلیغ کرنے کے جرم میں کچھ افراد سے تفتیش بھی کی اور ان پر مذہبی اور نسلی نفرت پھیلانے کا الزام لگایا۔ 2013ء میں لندن پولیس نے ایک رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ 2013ء کے دوران اس ملک کے مسلمانوں کے خلاف مجرمانہ اقدامات میں اضافہ ہوا ہے 2011میں 318، 2012ء میں 334جب کہ 2013ء میں 500واقعات ہوئے ، صرف مئی اور جون میں 212واقعات ہوئے۔
اسلام فوبیا کی بنیادی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ غیر مسلموں کا اسلام میں داخل ہونا اور مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ انگلستان اور ولیز میں تازہ مردم شماری کے تجزیئے کے مطابق پانچ سال تک کی عمر کے ہر دس بچوں میں سے ایک مسلمان ہے ، قومی اعداد و شمار کے دفتر کے مطابق ساڑھے چار سال تک کی عمر کے کل ساڑھے تین ملین بچوں میں سے تقریبا تین لاکھ بیس ہزار بچے مسلمان ہیں، مسلمان بچوں کی شرح 9فیصدی ہے ، اوکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ کو لیمن نے کہا کہ مذکورہ اعداد و شمار حیرت انگیز ہے ، عرصہ دراز سے انگلستان مسلمانوں کو پناہ دے رہا ہے، پہلے یہاں پاکستان بنگلہ دیش اور ہندوستان سے مسلمان آیا کرتے تھے لیکن اب افریقی ممالک اور مشرق وسطی سے بھی مسلمان انگلستان کا رخ کر رہے ہیں۔
امریکا میں مسلمانوں کی آبادی 30لاکھ بتائی گئی جو 2030ء تک بڑھ کر 60لاکھ20ہزار تک پہنچ جائے گی۔شمالی امریکا میں1990سے2010ء تک مسلمانوں کی آبادی میں 91فیصد کی رفتار سے اضافہ ہوا اور مسلم افراد کی تعداد 10لاکھ80ہزار سے بڑھ کر30لاکھ 50ہزار تک پہنچ گئی جب کہ آنے والے بیس سالوں میں شمالی امریکا میں مسلم افراد کی تعداد 80لاکھ 90ہزار ہونے کا امکان ہے۔برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی20لاکھ 30ہزار سے بڑھ کر50لاکھ 60ہزار اور فرانس میں 40لاکھ 70ہزار سے بڑھ کر60لاکھ 90ہزار کے قریب پہنچ جائے گی جب کہ فرانس میں اس وقت بھی مساجد کی تعداد کھتولک چرچ سے زائد ہے۔2010ء تک یورپ میں مسلمانوں کی آبادی5کروڑ کے قریب تھی جو 2030تک بڑھ کر6کروڑ کے قریب پہنچ جائے گی۔فورم آن ریلجن اینڈ پبلک لائف نامی ایک امریکی ادارے کی جانب سے بین المذاہب شرح آبادی کا ایک سروے کیا گیا جس کے مطابق 2030ء میں جب دنیا کی آبادی تقریبا8ارب3کروڑ سے تجاوز کر جائے گی تو اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی آبادی 2ارب20کروڑ ہوگی۔
ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے دنیا سمٹ گئی ہے اور انسانوں کا آپس میں رابطہ اور حال احوال بہت سہل ہوگیا ہے اس لیے دنیا جہاں ایک جیب میں جگہ پا لیتی ہے تواب کسی کے لیے حقائق کو جاننا مشکل نہیں رہا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا تمام تر وسائل کے باوجود بے اثر ہو رہا ہے ، جس کی تازہ مثال غزہ میں مغربی میڈیا کا جانبدارانہ رویہ تھا جس میں دنیا کو یکطرفہ خبر دی جا رہی تھی ، لیکن جب سوشل میڈیا کے توسط سے اصل حقائق اور تصاویر منظر عام پر آئیں تو سچ کو لاکھ چھپانے کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور مغرب کو شرمندگی ملی۔
اسلام فوبیا کے شکار ، انتہاپسند عناصر کی جانب سے مساجد پر حملے ، گستاخانہ خاکے ، نعوذ باللہ توہین رسالت ﷺ اور قرآن کریم کی بے حرمتی جیسے واقعات کو اظہار رائے آزادی کا نام دیکر مسلم امہ کے خلاف نفرت کو پروان چڑھانے کا موقع مغرب نے خود فراہم کیا ، جس کے بعد ان ممالک نے پڑھی لکھی عوام نے ازخود اسلام کا مطالعہ شروع کیا اور روشنی حاصل کرنے والوں کو اللہ تعالی نے راستہ دکھایا کہ اب یہ کہا جارہا ہے، اگلے چند سالوں میں یورپ مسلمانوں کے زیر نگیں اس لیے ہو جائے گا کیونکہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ افکار سے تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ پروپیگنڈا کرکے انھیں شدت پسند ، انتہا پسند اور دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے بار بار مسلم ممالک میں مہم جوئی کی جاتی ہے لیکن جتنی قوت سے مغرب استعماری قوتیں جارحیت کرتی ہیں انھیں اسی شدت کے ساتھ شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں جب کسی اقلیت کے خلاف کسی مسلم شخص یا گروہ کے خلاف دانستہ یا نادانستہ کوئی کاروائی ہوجاتی ہے تو سول سوسائٹی سمیت سیاسی و مذہبی جماعتیں تک مذمت میں اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ انھیں پوری دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم تک دکھائی نہیں دیتے ۔صرف پوائنٹ اسکورنگ کے لیے یا مغرب کی خوشنودی کے لیے اپنی حدود تک پھلانگ جاتے ہیں ۔کسی شخص کے انفرادی فعل کو پوری مسلم امہ پر تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے اور رائی کا پہاڑ بنا کر اسلام مخالف قوتیں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی کو بھی ،اور کسی بھی واقعے کو استعمال کرتی ہیں۔