جمہوریت انسانی حقوق اور معاشی ترقی

جمہوریت کا متضاد Monarchyہے۔یہ ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جس میں ریاستی امور فردِ واحد کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔


عابد میر November 15, 2014
[email protected]

WASHINGTON: جمہوریت جسے انگریزی میں Democrayکہتے ہیں یہ اصطلاح بنیادی طور پرلاطینی لفظ Demokratia سے ماخوذ ہے، جو لاطینی ہی کے دو الفاظ Demosیعنی عوام اورKratosیعنی طاقت پر مبنی ہے۔

گویا اس کا بنیادی مفہوم ہے؛ عوام کی طاقت۔ یہ لفظ سب سے پہلے پانچویں صدی قبل از مسیح میں یونان کے قدیم شہر ایتھنز میں ارسطو نے استعمال کیا۔ جب کہ ایتھنز کا بادشاہ Cleisthenes(508-9، ق م) میں اپنی ریاست کے لیے بروئے کار لایا، جسے ایتھینین ڈیمو کریسی بھی کہا جاتا ہے؛ اس کی بنیاد دو اہم اصولوں ،مساوات اور آزادی پر تھی۔ڈیمو کریسی کی مستند تعریف ہمیں ان الفاظ میں ملتی ہے؛ ''Democracy is a form of government in which all eligilbe citizens have an equal say in the decisions that affect thier lives''۔ یعنی، جمہوریت ایسا طرزِ حکمرانی ہے ،جس میں تمام اہل شہری ، ان کی زندگیوں پر اثرانداز ہونے والے تمام فیصلوں میں برابر کے شریک ہو سکتے ہوں۔سادہ الفاظ میں ہم کہتے ہیں ؛عوام کی حکومت، عوام کی جانب سے، عوام کے لیے۔

جمہوریت کا متضاد Monarchyہے۔یہ ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جس میں ریاستی امور فردِ واحد کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ،جو موروثی طور پر منتخب ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈکٹیٹر شپ ، آٹو کریسی وغیرہ بھی اسی طرز کے نظام ہیں۔ جب کہ ان سے ملتا جلتا طرز ِحکمرانی Oligracyہے۔ جس میں کچھ افراد یا ایک مخصوص طبقہ اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے۔

اب تک کی معلوم انسانی تاریخ میں جمہوریت، انسانی معاشرے کے استحکام کے لیے کامیاب طرز ِحکومت ہے۔ گو کہ اس میں بھی اختلاف کے پہلو موجود ہیں۔ اس کی کئی خصوصیات پر اعتراضات بھی کیے گئے ہیں۔ لیکن جمہوری حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کا اصل حسن یہی ہے کہ آپ اس نظام میں رہتے ہوئے نہ صرف اس سے اختلاف کر سکتے ہیں، بلکہ اسے رد بھی کر سکتے ہیں۔اس لیے جمہوریت ہی کو کامیاب معاشروں کی ضمانت سمجھا جاتا ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک میں کامیابی سے رائج یہ نظام اس دعویٰ کی تائید بھی کرتا ہے۔

اب آئیے انسانی حقوق پہ بات کرتے ہیں۔وہ باتیں یا چیزیں جنھیں آج ہم سب تمام انسانوں کا بنیادی انسانی حق تسلیم کرتے ہیں، یہ کسی ایک الہامی کتاب، عقیدے یا نظریے کی دین نہیں، بلکہ نوعِ انسانی نے سیکڑوں برسوں کے مسلسل تجربے اور جدوجہد سے انھیں حاصل کیا ہے۔حقوق سے متعلق پہلا تحریری معاہدہ ہمیں سائرس اعظم کے زمانے میں ملتا ہے۔جس کا زمانہ 530سے 539قبل از مسیح کا ہے۔ اس کی دریافت 1879ء میں قدیم میسو پوٹیمیا کے علاقہ بابل سے ہوئی۔ اسے Akkadain اسکرپٹ میں لکھا گیا ہے ، جسے انسانی تاریخ کے اولین رسم الخط میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہ ایک سیلنڈر سے دریافت ہوا تھا، اس لیے اسے سائرس سلینڈر بھی کہا جاتا ہے۔

لیکن اس میں صرف ایک فاتح کے حقوق کا تعین کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ انگلینڈ میں بادشاہ کے خلاف 1215ء میں ہونے والے میگنا کارٹا معاہدے کو بھی انسانی حقوق کی ابتدائی شکل تسلیم کیا جاتا ہے۔ (لاطینی زبان کے اس لفظ کے معنی ہیں، عظیم چارٹر)انسانی حقوق کا قدیم ترین ریکارڈ ہمیں1264ء میں ہونیوالے Statute of Kalisz میں ملتا ہے، جسے جنرل چارٹر آف جیوش لبریشن بھی کہا جاتا ہے۔ پولینڈ میں ہونے والے اس معاہدے میں عیسائی اقلیتوں کو مراعات دی گئیں۔1525ء میں جرمنی میں ہونے والی کسان بغاوت کی ناکامی کے بعد، حکمران اور محنت کش طبقات کے حقوق کا معاہدہ طے ہوا۔

برطانیہ کی پارلیمنٹ نے پہلی بار 1689ء میں حقوق کا بل پاس کیا، جس میں پروٹسٹنٹ فرقہ کی سیاسی اجارہ داری کو یقینی بنایا گیا۔ فرانس کی قومی اسمبلی نے 1789ء میں Declaration of the rights of man and the citizensمنظور کیا۔آگے چل کر Karel Vasakنامی فلسفی نے انسانی حقوق کو تین بنیادی حصوں میں تقسیم کر کے ان کی شکل مزید واضح کر دی۔ انسانی حقوق کی زبان میں اسے Three Generationsکہا جاتا ہے۔ پہلے حصے میں شہری اور سیاسی حقوق ، دوسرے حصے میں معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق ، جب کہ تیسرے حصے میں Solidarity Rightsشامل ہیں، جن میں امن اور صاف ماحول وغیرہ کا تذکرہ ہے۔

دوسری طرف انسانی حقوق کے اس فلسفے پر تنقید کرنے والے ناقد فلسفیوں کی بھی کمی نہیں رہی۔ جرمی بینتھن، ایڈم برک، فریڈرک نطشے اور کارل مارکس جیسے فلسفیوں نے اس پر سخت تنقید کی کہ ایک ظالم اور مظلوم انسان کے بنیادی حقوق کیوںکر یکساں ہو سکتے ہیں؟اس کے باوجود انسانی حقوق کی تحریک کا ارتقا جاری رہا۔ غلامی جیسے بنیادی انسانی حق کی پامالی کو سولہویں صدی تک ختم نہیں کیا جا سکا تھا۔ امریکا نے 1777ء سے 1804ء کے درمیان غلامی کے ادارے ختم کیے۔ برطانیہ نے 1807ء میں Salve Trad Actاور1833ء میں غلامی کے خاتمے کا قانون بنایا۔

بالآخردوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد اقوام عالم اس نتیجے پر پہنچیں کہ اب طاقت کا قانون ختم ہونا چاہیے اوردنیا کے تمام انسانوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ دنیا کی تمام مہذب اقوام سر جوڑ کر بیٹھ گئیں اور 10دسمبر1948 کو انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ (UDHR) منظور کر لیا گیا۔ اس میں بنیادی حقوق جیسے کہ جینے کا حق، تشدد سے آزادی، غلامی سے آزادی، تحریر و تقریر کی آزادی، نظریہ اور عقیدے کی آزادی، مکالمے کی آزادی، صنفی شناخت کی آزادی، صحت، تعلیم اور خوراک کا حق تسلیم کیا گیا۔

دنیا کے سبھی ممالک نے ان حقوق کو اپنے آئین میں شامل کیا، اور اپنے شہریوں کو ان کی فراہمی یقینی بنانے کا عہد کیا۔اور اب کچھ بات معاشی ترقی کی۔معاشی ترقی کی اصطلاح بیسویں صدی کی ایجاد ہے ۔امریکا صدر ہنری ٹرومین نے 1949 میں پہلی دفعہ اپنی تقریر میں Economic Developmentکی اصطلاح استعمال کی۔ اس سے مراد معاشی پالیسی سازوں کا وہ مستحکم عمل ہے جو کسی خاص علاقہ یا خطے کے لوگوں کے معیارِ زندگی سے متعلق ہو۔یہ ایک عام فہم بات ہے کہ کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی کا انحصار اس کی معیشت پر ہوتا ہے۔

ملکی معیشت کا انحصار شہریوں سے وصول کیے جانے والے بلواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسز پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ملکی وسائل کو بھی بروئے کار لایا جاتا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جنھوں نے اپنے ہاں جمہوری کلچر کے تسلسل کو رائج کیا، وہاں ملکی معیشت خوب پھلی اور پھولی۔ پاکستان کے پہلو میں واقع بھارت اس کی ایک واضح مثال ہے۔ جو غربت جیسے اہم مسئلے سے دوچار ہونے کے باوجود اپنی ملکی معیشت کو مستحکم رکھے ہوئے ہے، تو اس کی بنیادی وجہ وہاں کا جمہوری تسلسل ہی ہے۔

گویادنیا کے جمہوری ممالک کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جہاں جمہوریت مضبوط ہوگی، وہیں انسانی حقوق میسر ہوں گے، اور جب انسانی حقوق کی فراوانی ہو گی تو معاشی ترقی بھی یقینی ہو گی۔یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ دائرے کی وہ کڑیاں ہیں، جن میں سے ایک بھی کڑی اگر کم ہو، تو معاشرہ انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔آمر حکومتیں بنیادی انسانی حقوق کو معطل کر دیتی ہیں، لیکن معاشی ترقی کوبظاہر یقینی بناتی ہیں، جس سے معاشرہ حبس اور گھٹن کا شکار ہوجاتا ہے، اور بالآخر ایک دن لاوا پھٹ پڑتا ہے۔ عرب ممالک میں آنے والا انقلاب اس کی ایک واضح مثال ہے۔

پاکستانی معاشرہ میں اول تو جمہوری کلچر پروان چڑھ ہی نہیں سکا، اور اب جب جمہوری عمل ایک سمت پہ چل پڑا ہے تو کاروباری ذہنیت کے حامل افراد نے جمہوریت کو یرغمال بنا لیا ہے۔ لیکن اس کے باجود یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جمہوریت کا جواب مزید جمہوریت ہوگی نہ کہ آمریت کی کوئی اورشکل۔ جمہوری تسلسل برقرار رہے گا تو انسانی حقوق کی فراہمی یقینی ہو گی، اور تبھی معاشی ترقی ممکن ہو گی۔ تبھی معاشرے پھلیں پھولیں گے، انسان شاد ہوں گے، سماج آباد ہوں گے۔

(ایچ آر سی پی کے سیمینار میں پیش کیا گیا)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں