بلدیاتی انتخابات ناگزیر ہوگئے
کسی جمہوری حکومت کے دور میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے، جس کی وجہ سے عوام اذیتوں کا شکار رہے۔
ISLAMABAD:
آج کل دھرنوں اور جلسوں کی سیاست سے کم سے کم عوام کا سیاسی شعور تو اجاگر ہوگیا۔ لیکن ان دھرنوں سے حکومت پر جو دباؤ تھا وہ کمزور ہوتا چلا گیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے غیر متوقع طور پر اسلام آباد دھرنا ختم کردیا جس کا منفی اثر ان کے ہی مریدوں پر زیادہ ہوا۔
یقیناً اگر یہ دھرنا محرم الحرام کے تقدس میں ختم ہوا تو پھر کسی اور جگہ دھرنا یا جلسہ کرنا مناسب نہیں، حالانکہ ان کے ساتھ وحدت المسلمین کے رہنما موجود تھے، غالباً انھوں نے بھی یہی کہا ہوگا کہ محرم میں دھرنا ختم کردیں، حالانکہ اس سے بہتر تجویز یہ تھی کہ ان دھرنوں کو کم سے کم عاشورہ تک ذکر اور فکر حسین میں تبدیل کردیتے۔ وہ خود ماشاء اﷲ مقرر ہیں، ان کے ساتھ دوسرے علما بھی، اس طرح دھرنا بھی رہتا اور تسلسل بھی اور وقت کی مناسبت سے ذکر و فکر بھی۔
ڈاکٹر طاہر القادری میں علمی اور سیاسی صلاحیت بھی ہے اور وہ نظریہ طالبان کے حامی بھی نہیں، نہ رہے ہیں۔ جب کہ عمران خان نے پورے انتخابات میں نظریہ طالبان کی حمایت سے خیبر پختونخوا میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے۔
ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے جب بھی عام انتخابات کے ذریعے کوئی جمہوری حکومت آتی ہے وہ پاکستانی ریاست کی بنیادی شرط پوری نہیں کرتی، کسی جمہوری حکومت کے دور میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے، جس کی وجہ سے عوام اذیتوں کا شکار رہے۔ اور حیرت ہے سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود ابھی تک بلدیاتی انتخابات کی تیاری کا پہلا مرحلہ حد بندی کا کام نہ ہوا۔ جمہوری حکومت والے اگر عوام کے مسائل کے حل کرنے میں سنجیدہ ہوتے تو سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کرواتے۔ اب بھی وقت ہے، محرم الحرام کے فوراً بعد ان انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔
اس وقت ہماری عدلیہ پر بڑی ذمے داری ہے، وہ پاکستان میں عوام کے بنیادی حقوق کو پامال ہونے سے بچائے۔ مثال کے طور پر ہر جگہ فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کا حق ہوتا ہے، لیکن یہاں ہر شہر میں جہاں مارکیٹیں اور بازار ہیں، وہاں پورا فٹ پاتھ تجاوزات کی زد میں ہے، 12 فٹ کے فٹ پاتھ پر صرف 2 سے 3 فٹ چلنے کی جگہ ہے۔ تمام سڑکیں کوڑا کرکٹ سے بھری ہیں، پارکوں کی شادابی ختم ہوگئی، فلاحی، پلاٹوں پر ناجائز قبضہ ہے۔ اس بڑے شہر میں مافیاز پیدا ہوگئیں۔
عوام نہ قانون سے ڈرتے ہیں نہ پولیس سے، اگر ڈرتے ہیں تو ان مافیا والوں سے۔ اس لیے ہماری عدالتیں جن کے لیے عوام نے بڑی تحریک چلائی، انھیں آزاد کرایا، ان پر ذمے داری ہے کہ اس پہلو پر بھی نظر رکھیں۔ کیونکہ ان کے حکم سے زیادہ موثر کوئی حکم نہیں۔ اس عدلیہ نے پہلے سب سے اہم کام سوموٹو سے کیے، جن کے عوام نے پذیرائی کی ہے۔ خاص طور پر بلدیاتی انتخابات میں کسی عذر کو قبول نہ کیا جائے، اسی مردم شماری پر انتخابات کروائے جائیں یا پھر پرانی بلدیاتی یونین بحال کردی جائیں۔
کیونکہ جیسے ہی بلدیاتی انتخابات مکمل ہوں گے، لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں گے، تو سیاسی توازن بہتر ہوگا، اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ان بلدیاتی اداروں کی وجہ سے حکومت کا حصہ بن جائیں گی۔ لیکن یہ بلدیاتی انتخابات ایسے ہوں جس میں کوئی فرقہ واریت، لسانیت، صوبائی عصبیت نہ ہو۔ صرف ایک اصول قائم کیا جائے کہ صرف نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والوں کو انتخابات میں حصہ لینے کا حق ہو۔ جو اس انتخابات میں حصہ لے اس کا مستقل مسکن اسی علاقے کا ہو، جہاں سے انتخابات لڑ رہا ہے، کسی اور علاقے سے انتخابات نہ لڑے۔
یہ وقت کا تقاضا ہے، تمام سیاسی پارٹیاں مل کر نظریہ پاکستان، وفاق، ریاست، فوج کو مضبوط کریں۔ کیونکہ آنے والا وقت بتلا رہا ہے کہ ہمیں پھر ایک بار ہندوستان سے کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے متحرک ہونا ہوگا، کیونکہ ابھی اقوام متحدہ میں یہ قرارداد موجود ہے کہ کشمیریوں کی آزادی کے لیے انھیں آزاد رائے دہی کا حق حاصل ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جس قائداعظم محمد علی جناح نے مصر میں قیام اسرائیل سے پہلے یہ پیش گوئی کی تھی کہ یہاں یہودیوں کی آبادی کا مقصد اسرائیل بنانا ہے، اسی قائد نے کہا تھا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ ہماری فوجی صلاحیت میں کوئی کمی نہیں، ہم اب ایک جوہری قوت ہیں۔
کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اپنا کھویا ہوا وقار حاصل نہ کرسکے۔ موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف کی تقریریں ان کی ملک وطن سے والہانہ محبت کی عکاس ہیں، ایسے نڈر اور شجیع جنرل بار بار نہیں آتے۔ اس لیے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر ملک میں یک جہتی پیدا کرنے کے لیے قومی اتحاد بنا کر سیاسی جلسے کرنے چاہئیں۔ صرف ان سے مقابلہ کریں جو پاکستان کے نظریے کو ختم کرکے اپنا نظریہ ٹھونسنا چاہتے ہیں۔
سیاسی پارٹیوں کا اتحاد دفاع وطن کو مضبوط کرتا ہے اور دشمن کو خوفزدہ۔ اگر ہم نے اب بھی چپقلش، افراتفری کی سیاست کو جاری رکھا اور ریاست کو کمزور کرتے رہے تو ہمیں خدانخواستہ ایسا نقصان ہوگا جس کا مداوا ممکن نہیں ہوگا۔ بس اس کا حل یہ ہے فوری طور پر پاک فوج کی نگرانی میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں، جس میں فوج پولنگ اسٹیشن کے اندر بھی موجود ہو اور صاف و شفاف انتخابات سے سیاسی پولرائزیشن کم ہوگا۔ وطن مضبوط ہوگا اور مسئلہ کشمیر اجاگر ہوگا، اور نظریہ پاکستان غالب آئے گا۔