پاکستان میں سائبر کرائم بڑھنے لگے
تھری جی ٹیکنالوجی آنے کے بعد بلیک میلنگ کی وارداتوں میں اضافہ
ہمارے یہاں اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ کوئی نئی ٹیکنالوجی آنے کے کیا کیا نقصانات ہوسکتے ہیں اور ان سے بچنے کے لیے کیا تدبیر کی جانی چاہیے۔ تھری جی ٹیکنالوجی کی پاکستان آمد کے حوالے سے بھی یہی صورت حال سامنے آئی ہے۔
اس جدید ٹیکنالوجی کے پاکستان آنے پر بہت خوشیاں منائی گئیں، بہت شور ہوا، لیکن متعلقہ اداروں نے اس امر پر غور نہیں کیا کہ یہ ٹیکنالوجی اپنے ساتھ کچھ خطرات بھی لارہی ہے، جن کا تیکنیکی بنیادوں پر سدباب کیا جانا ضروری ہے۔ سو وہی ہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق تھری جی ٹیکنالوجی آنے کے بعد پاکستان میں سائبر کرائم کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
ملک بھر میں تیزی سے بڑھتے سائبر کرائمز کی نوعیت مختلف قسم کی ہے، جن میں سے ایک بلیک میلنگ بھی ہے۔ منفی ذہنیت کے حامل افراد کی جانب سے وڈیوکالنگ کے ذریعے نوجوان لڑکیوں اور خواتین سے بات چیت کرکے اس بات چیت کو ریکارڈ کرلیا جاتا ہے، پھر یا تو اس مکالمے کو کسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر اپ لوڈ کردیا جاتا ہے یا ایسا کرنے کی دھمکی دے کر ان لڑکیوں اور خواتین کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ اس گھناؤنے فعل کے حامل جرائم کے بڑھنے کے ساتھ تھری جی ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد دھوکہ دہی کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت پورے ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد تین کروڑ تک پہنچ چکی ہے، جو کہ ملک کی مجموعی آبادی کا سولہ فی صد سے زاید ہے، جب پاکستان میں فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد رواں سال کے ستمبر تک ایک کروڑ چون لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور ہر بارہ سیکنڈ بعد ایک نیا صارف فیس بک سے وابستہ ہورہا ہے۔ یہ مجموعی آبادی کا آٹھ فی صد بنتا ہے، جس سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں آن لائن سرگرمیاں کس تیزی سے فروغ پارہی ہیں اور پاکستانی ان سے وابستہ ہورہے ہیں۔ ان سرگرمیوں میں سماجی کے ساتھ تجارتی اور مالی سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔ چناں چہ ہمارے ملک میں اسی رفتار سے سائبر کرائم کی تعداد اور رفتار بڑھ رہی ہے۔
اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں صورت حال مزید خراب ہوجائے گی، کیوں کہ موبائل فون صارفین کی بہت بڑی تعداد مختلف کمپنیوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے تیز ترین تھری جی انٹرنیٹ پیکیجز حاصل کررہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے بعد اسمارٹ فونز کے ذریعے وڈیو بنانا اور اس کو کسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر اپ لوڈ کرنا آسان اور سستا ہوگیا ہے۔ اس کے لیے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
اسی طرح تھری جی ٹیکنالوجی کے ذریعے وڈیوکالنگ بہت آسان ہوگئی ہے اور صارفین کی بہت بڑی تعداد ٹینگو، اسکائپ اور واٹس اپ کے ذریعے وڈیو کالنگ کی سہولت استعمال کررہی ہے، جب کہ مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد اس سہولت کے اپنے ناپاک مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں اور ان کے جرائم میں بلیک میلنگ سرفہرست ہے۔ مختلف ممالک میں فیس بک سمیت دیگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر کسی کو بدنام کرنے یا بلیک میل کرنے پر ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت اور فوری ایکشن لیا جاتا ہے اور اس جرم کے مرتکب افراد سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن پاکستان میں ایسی شکایات کو سردخانے کی نذر کردیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق صرف لاہور میں اب تک ایسی کئی لڑکیاں اور خواتین خودکشی کرچکی ہیں جن کی نامناسب وڈیوز اور تصاویر فیس بک سمیت دیگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر اپ لوڈ کردی گئی تھیں اور انھیں بدنام کیا جارہا تھا۔یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے نوجوان لڑکیوں اور خواتین کو بلیک میل کرنے کے واقعات تو طویل عرصے سے جاری ہیں لیکن تھری جی ٹیکنالوجی آنے کے بعد ان میں تیزی آگئی ہے۔ تھری جی ٹیکنالوجی آنے سے پہلے سائبر کرائم کی وارداتیں کرنے والے افراد عمومی طور پر کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کا سہارا لیتے تھے، اور انٹرنیٹ کمپنیوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے کنکشن استعمال کرتے تھے۔
انھیں ان کے کمپیوٹر کی آئی پی اور انٹرنیٹ کنکشن کی رجسٹریشن کی مدد سے ٹریس کرلیا جاتا تھا، جب کہ موبائل سے اس نوعیت کی واردات کرنا بہت مشکل کام تھا، لیکن پاکستان میں تھری جی ٹیکنالوجی آنے کے بعد ہر موبائل کمپنی نے اپنے صارفین کو ان کی موبائل سِموں کے ذریعے تیزترین انٹرنیٹ سروس فراہم کرنی شروع کردی ہے، جس کی وجہ سے صارفین اپنے موبائل فون پر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے علاوہ سماجی رابطوں کے دیگر نیٹ ورکس اسکائپ، ٹینگو، واٹس اپ اور وائبر وغیرہ آسانی سے چلاسکتے ہیں، بل کہ ان کے ذریعے وڈیو کالنگ بھی بہت آسان ہوگئی ہے۔
یہ آسانی جہاں عام صارفین کے لیے سہولت لائی ہے، وہیں مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد کے لیے بھی اس کی وجہ سے ان کا کام آسان ہوگیا ہے۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ بلیک میلنگ اور سائبر کرائم کی دیگر وارداتوں کے انسداد کے لیے کوئی سنجیدہ اور مؤثر اقدامات نہیں کیے جارہے۔ حکومت کی جانب سے موبائل کمپنیوں کو تھری جی ٹیکنالوجی کی نیلامی میں شرکت کی دعوت دی گئی تو یہ نہیں سوچا گیا کہ عوام کو تیز ترین انٹرنیٹ کی سہولت دینے کے ساتھ ہی اس کے منفی استعمال کو روکنے کے لیے کوئی نظام وضع کیا جانا چاہیے، اس بے پرواہی کی وجہ سے آج کتنی ہی زندگیاں متاثر ہورہی ہیں۔
یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ سائبر کرائم کی وارداتوں پر کام کرنے والے ایک افسر کے مطابق اس وقت سب سے بڑا مسئلہ موبائل فون کی غیرقانونی سموں کا پھیلاؤ ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے جرم کرنے والا شخص اگر اپنے نام کی رجسٹرڈ سِم کے ذریعے جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا سراغ لگانا مشکل کام نہیں، لیکن اگر کوئی شخص کسی دوسرے کے نام کی سم یا غیرقانونی طور پر حاصل کی گئی سم پر تھری جی ٹیکنالوجی حاصل کرکے کوئی مجرمانہ حرکت کرتا ہے تو اس کا سراغ لگانا بہت مشکل ہے۔ اگر حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں نے اس صورت حال پر توجہ نہ دی تو ملک میں سائبر کرائم کی وارداتیں خوف ناک حد تک بڑھ جائیں گی۔
دوسری طرف اس حوالے سے خواتین کو بھی پوری طرح محتاط رہنا چاہیے اور نوجوان لڑکیوں کے والدین کو بھی اس حوالے سے پوری طرح چوکنّا رہنے کی ضرورت ہے۔ ہماری اس تحریر کا مقصد یہی ہے کہ ایک طرف حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں کی اس خوف ناک صورت حال کی طرف متوجہ کیا جائے اور دوسری طرف لڑکیوں اور خواتین کو اس خطرے سے آگاہ کیا جائے۔
اس جدید ٹیکنالوجی کے پاکستان آنے پر بہت خوشیاں منائی گئیں، بہت شور ہوا، لیکن متعلقہ اداروں نے اس امر پر غور نہیں کیا کہ یہ ٹیکنالوجی اپنے ساتھ کچھ خطرات بھی لارہی ہے، جن کا تیکنیکی بنیادوں پر سدباب کیا جانا ضروری ہے۔ سو وہی ہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق تھری جی ٹیکنالوجی آنے کے بعد پاکستان میں سائبر کرائم کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
ملک بھر میں تیزی سے بڑھتے سائبر کرائمز کی نوعیت مختلف قسم کی ہے، جن میں سے ایک بلیک میلنگ بھی ہے۔ منفی ذہنیت کے حامل افراد کی جانب سے وڈیوکالنگ کے ذریعے نوجوان لڑکیوں اور خواتین سے بات چیت کرکے اس بات چیت کو ریکارڈ کرلیا جاتا ہے، پھر یا تو اس مکالمے کو کسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر اپ لوڈ کردیا جاتا ہے یا ایسا کرنے کی دھمکی دے کر ان لڑکیوں اور خواتین کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ اس گھناؤنے فعل کے حامل جرائم کے بڑھنے کے ساتھ تھری جی ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد دھوکہ دہی کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت پورے ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد تین کروڑ تک پہنچ چکی ہے، جو کہ ملک کی مجموعی آبادی کا سولہ فی صد سے زاید ہے، جب پاکستان میں فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد رواں سال کے ستمبر تک ایک کروڑ چون لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور ہر بارہ سیکنڈ بعد ایک نیا صارف فیس بک سے وابستہ ہورہا ہے۔ یہ مجموعی آبادی کا آٹھ فی صد بنتا ہے، جس سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں آن لائن سرگرمیاں کس تیزی سے فروغ پارہی ہیں اور پاکستانی ان سے وابستہ ہورہے ہیں۔ ان سرگرمیوں میں سماجی کے ساتھ تجارتی اور مالی سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔ چناں چہ ہمارے ملک میں اسی رفتار سے سائبر کرائم کی تعداد اور رفتار بڑھ رہی ہے۔
اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں صورت حال مزید خراب ہوجائے گی، کیوں کہ موبائل فون صارفین کی بہت بڑی تعداد مختلف کمپنیوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے تیز ترین تھری جی انٹرنیٹ پیکیجز حاصل کررہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے بعد اسمارٹ فونز کے ذریعے وڈیو بنانا اور اس کو کسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر اپ لوڈ کرنا آسان اور سستا ہوگیا ہے۔ اس کے لیے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
اسی طرح تھری جی ٹیکنالوجی کے ذریعے وڈیوکالنگ بہت آسان ہوگئی ہے اور صارفین کی بہت بڑی تعداد ٹینگو، اسکائپ اور واٹس اپ کے ذریعے وڈیو کالنگ کی سہولت استعمال کررہی ہے، جب کہ مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد اس سہولت کے اپنے ناپاک مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں اور ان کے جرائم میں بلیک میلنگ سرفہرست ہے۔ مختلف ممالک میں فیس بک سمیت دیگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر کسی کو بدنام کرنے یا بلیک میل کرنے پر ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت اور فوری ایکشن لیا جاتا ہے اور اس جرم کے مرتکب افراد سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن پاکستان میں ایسی شکایات کو سردخانے کی نذر کردیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق صرف لاہور میں اب تک ایسی کئی لڑکیاں اور خواتین خودکشی کرچکی ہیں جن کی نامناسب وڈیوز اور تصاویر فیس بک سمیت دیگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر اپ لوڈ کردی گئی تھیں اور انھیں بدنام کیا جارہا تھا۔یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے نوجوان لڑکیوں اور خواتین کو بلیک میل کرنے کے واقعات تو طویل عرصے سے جاری ہیں لیکن تھری جی ٹیکنالوجی آنے کے بعد ان میں تیزی آگئی ہے۔ تھری جی ٹیکنالوجی آنے سے پہلے سائبر کرائم کی وارداتیں کرنے والے افراد عمومی طور پر کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کا سہارا لیتے تھے، اور انٹرنیٹ کمپنیوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے کنکشن استعمال کرتے تھے۔
انھیں ان کے کمپیوٹر کی آئی پی اور انٹرنیٹ کنکشن کی رجسٹریشن کی مدد سے ٹریس کرلیا جاتا تھا، جب کہ موبائل سے اس نوعیت کی واردات کرنا بہت مشکل کام تھا، لیکن پاکستان میں تھری جی ٹیکنالوجی آنے کے بعد ہر موبائل کمپنی نے اپنے صارفین کو ان کی موبائل سِموں کے ذریعے تیزترین انٹرنیٹ سروس فراہم کرنی شروع کردی ہے، جس کی وجہ سے صارفین اپنے موبائل فون پر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے علاوہ سماجی رابطوں کے دیگر نیٹ ورکس اسکائپ، ٹینگو، واٹس اپ اور وائبر وغیرہ آسانی سے چلاسکتے ہیں، بل کہ ان کے ذریعے وڈیو کالنگ بھی بہت آسان ہوگئی ہے۔
یہ آسانی جہاں عام صارفین کے لیے سہولت لائی ہے، وہیں مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد کے لیے بھی اس کی وجہ سے ان کا کام آسان ہوگیا ہے۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ بلیک میلنگ اور سائبر کرائم کی دیگر وارداتوں کے انسداد کے لیے کوئی سنجیدہ اور مؤثر اقدامات نہیں کیے جارہے۔ حکومت کی جانب سے موبائل کمپنیوں کو تھری جی ٹیکنالوجی کی نیلامی میں شرکت کی دعوت دی گئی تو یہ نہیں سوچا گیا کہ عوام کو تیز ترین انٹرنیٹ کی سہولت دینے کے ساتھ ہی اس کے منفی استعمال کو روکنے کے لیے کوئی نظام وضع کیا جانا چاہیے، اس بے پرواہی کی وجہ سے آج کتنی ہی زندگیاں متاثر ہورہی ہیں۔
یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ سائبر کرائم کی وارداتوں پر کام کرنے والے ایک افسر کے مطابق اس وقت سب سے بڑا مسئلہ موبائل فون کی غیرقانونی سموں کا پھیلاؤ ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے جرم کرنے والا شخص اگر اپنے نام کی رجسٹرڈ سِم کے ذریعے جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا سراغ لگانا مشکل کام نہیں، لیکن اگر کوئی شخص کسی دوسرے کے نام کی سم یا غیرقانونی طور پر حاصل کی گئی سم پر تھری جی ٹیکنالوجی حاصل کرکے کوئی مجرمانہ حرکت کرتا ہے تو اس کا سراغ لگانا بہت مشکل ہے۔ اگر حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں نے اس صورت حال پر توجہ نہ دی تو ملک میں سائبر کرائم کی وارداتیں خوف ناک حد تک بڑھ جائیں گی۔
دوسری طرف اس حوالے سے خواتین کو بھی پوری طرح محتاط رہنا چاہیے اور نوجوان لڑکیوں کے والدین کو بھی اس حوالے سے پوری طرح چوکنّا رہنے کی ضرورت ہے۔ ہماری اس تحریر کا مقصد یہی ہے کہ ایک طرف حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں کی اس خوف ناک صورت حال کی طرف متوجہ کیا جائے اور دوسری طرف لڑکیوں اور خواتین کو اس خطرے سے آگاہ کیا جائے۔