اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کا اعلان
شرح سود کم ہونے سے حکومتی قرضوں میں کمی ہو گی مگر دوسری جانب بینک کھاتوں اور بچت اسکیموں پر بھی منافع کم ہو جائے گا۔
لاہور:
اسٹیٹ بینک نے سال 2014ء کی آخری مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے آیندہ دو ماہ نومبر ' دسمبر کے لیے شرح سود 0.5 فیصد کم کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے نتیجے میں قرضوں پر سود کی شرح گھٹ کر 9.5 فیصد ہو گئی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان اشرف محمود وتھرا کی سربراہی میں اسٹیٹ بینک کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کی منظوری دی گئی۔ واضح رہے کہ گزشتہ چار ماہ سے شرح سود 10 فیصد پر برقرار تھی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شرح سود کم ہونے سے حکومتی قرضوں میں کمی ہو گی مگر دوسری جانب بینک کھاتوں اور بچت اسکیموں پر بھی منافع کم ہو جائے گا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بچت اسکیموں میں زیادہ تر مجبور،بوڑھے اور ریٹائرڈ افراد کا سرمایہ ہوتا ہے ان کا منافع کم ہونے سے یہ بے بس افراد مزید مالی پریشانیوں کا شکار ہو جائیں گے۔ حکومت کو اس مسئلے پر توجہ دینی ہو گی ملکی ترقی کے ثمرات سے ان بے بس افراد کو محروم کرنا قطعی طور پر مناسب نہیں۔
رپورٹ کے مطابق اکتوبر میں مہنگائی تیزی سے کم ہو کر 5.8 فیصد پر آ گئی ہے جس کی وجہ غذائی اشیا کی بھرپور رسد اور تیل سمیت دیگر چیزوں کی قیمتوں میں کمی کو قرار دیا گیا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کتنی کمی آئی اور عوام کو اس کا کتنا فائدہ پہنچا وہ سب کو معلوم ہے۔بازاروں میں گھی'دودھ 'آٹا 'سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ ڈھونڈنا پڑے گا کہ مہنگائی میں کمی کہاں واقع ہوئی ہے۔
حکومت نے ایک جانب پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی ہے تو دوسری جانب بجلی کی سبسڈی میں کٹوتی اور گیس انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس پر محصول عائد کرنے سے مہنگائی کو بلندی کی جانب مہمیز کرنے کے بھی تمام انتظامات کر دیے ہیں۔ عام آدمی جو پہلے ہی کم آمدنی اور ناکافی ضروریات کے حصول کے گھن چکر میں پسا چلا جا رہا ہے اگر بجلی اور گیس مزید مہنگی ہو جاتی ہے تو اس کے مسائل میں بھی تیزی سے اضافہ ہو گا۔ ایک جانب ابھی تک توانائی کا بحران بدستور موجود ہے تو دوسری جانب اس کی قیمتوں میں اضافہ بڑے پیمانے کی اشیاء سازی کی نمو کو بھی محدود کر دے گا۔
صنعتی اور زرعی ترقی کے لیے اولین شرط ہے کہ توانائی وافر مقدار میں اور سستی ہو ۔ اگر توانائی کی قیمتوں میں کمی نہ کی گئی تو حکومت کے ترقی کے دعوے صرف دعوئوں ہی کی حد تک محدود رہیں گے۔ رپورٹ کے مطابق طویل المدتی مالیاتی استحکام کے لیے جی ڈی پی میں ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کے لیے اصلاحات کرنا ہوگی۔
اسٹیٹ بینک اپنی ہر مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے وقت حکومت سے ٹیکس اصلاحات کا مطالبہ کرتا ہے اور حکومت بھی حسب عادت وعدہ کر کے اسے بھول جاتی ہے۔ماہرین کے مطابق بااثر حکومتی ارکان اورسیاستدانوں کی اکثریت ایمانداری سے ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ حکومت کو ٹیکس اصلاحات کا آغاز حکومتی ارکان اور سیاستدانوں سے کرنا ہو گا۔عوام دوست اقتصادی پالیسی ہی ملکی ترقی کی ضامن ہو سکتی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے سال 2014ء کی آخری مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے آیندہ دو ماہ نومبر ' دسمبر کے لیے شرح سود 0.5 فیصد کم کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے نتیجے میں قرضوں پر سود کی شرح گھٹ کر 9.5 فیصد ہو گئی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان اشرف محمود وتھرا کی سربراہی میں اسٹیٹ بینک کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کی منظوری دی گئی۔ واضح رہے کہ گزشتہ چار ماہ سے شرح سود 10 فیصد پر برقرار تھی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شرح سود کم ہونے سے حکومتی قرضوں میں کمی ہو گی مگر دوسری جانب بینک کھاتوں اور بچت اسکیموں پر بھی منافع کم ہو جائے گا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بچت اسکیموں میں زیادہ تر مجبور،بوڑھے اور ریٹائرڈ افراد کا سرمایہ ہوتا ہے ان کا منافع کم ہونے سے یہ بے بس افراد مزید مالی پریشانیوں کا شکار ہو جائیں گے۔ حکومت کو اس مسئلے پر توجہ دینی ہو گی ملکی ترقی کے ثمرات سے ان بے بس افراد کو محروم کرنا قطعی طور پر مناسب نہیں۔
رپورٹ کے مطابق اکتوبر میں مہنگائی تیزی سے کم ہو کر 5.8 فیصد پر آ گئی ہے جس کی وجہ غذائی اشیا کی بھرپور رسد اور تیل سمیت دیگر چیزوں کی قیمتوں میں کمی کو قرار دیا گیا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کتنی کمی آئی اور عوام کو اس کا کتنا فائدہ پہنچا وہ سب کو معلوم ہے۔بازاروں میں گھی'دودھ 'آٹا 'سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ ڈھونڈنا پڑے گا کہ مہنگائی میں کمی کہاں واقع ہوئی ہے۔
حکومت نے ایک جانب پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی ہے تو دوسری جانب بجلی کی سبسڈی میں کٹوتی اور گیس انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس پر محصول عائد کرنے سے مہنگائی کو بلندی کی جانب مہمیز کرنے کے بھی تمام انتظامات کر دیے ہیں۔ عام آدمی جو پہلے ہی کم آمدنی اور ناکافی ضروریات کے حصول کے گھن چکر میں پسا چلا جا رہا ہے اگر بجلی اور گیس مزید مہنگی ہو جاتی ہے تو اس کے مسائل میں بھی تیزی سے اضافہ ہو گا۔ ایک جانب ابھی تک توانائی کا بحران بدستور موجود ہے تو دوسری جانب اس کی قیمتوں میں اضافہ بڑے پیمانے کی اشیاء سازی کی نمو کو بھی محدود کر دے گا۔
صنعتی اور زرعی ترقی کے لیے اولین شرط ہے کہ توانائی وافر مقدار میں اور سستی ہو ۔ اگر توانائی کی قیمتوں میں کمی نہ کی گئی تو حکومت کے ترقی کے دعوے صرف دعوئوں ہی کی حد تک محدود رہیں گے۔ رپورٹ کے مطابق طویل المدتی مالیاتی استحکام کے لیے جی ڈی پی میں ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کے لیے اصلاحات کرنا ہوگی۔
اسٹیٹ بینک اپنی ہر مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے وقت حکومت سے ٹیکس اصلاحات کا مطالبہ کرتا ہے اور حکومت بھی حسب عادت وعدہ کر کے اسے بھول جاتی ہے۔ماہرین کے مطابق بااثر حکومتی ارکان اورسیاستدانوں کی اکثریت ایمانداری سے ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ حکومت کو ٹیکس اصلاحات کا آغاز حکومتی ارکان اور سیاستدانوں سے کرنا ہو گا۔عوام دوست اقتصادی پالیسی ہی ملکی ترقی کی ضامن ہو سکتی ہے۔