تقسیم واضح ہو رہی ہے
پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک‘ وہ کہ ہم نے جس کے ماحول کو برکت دی ہے۔
یہ وہ سرزمین ہے جس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ ''اور بچا کر لے گئے ہم اسے (ابراہیمؑ) اور لوطؑ کو اس سرزمین کی طرف جس میں ہم نے تمام جہانوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں (انبیاء:71)۔ یہ سرزمین شام ہے جسے بلادالشام یا اخباد الشام کہا جاتا تھا۔ یہ خطہ دریائے فرات سے ارض فلسطین تک پھیلا ہوا ہے جس میں موجودہ دورکے اسرائیل' لبنان' اردن اور شام کے ممالک آتے ہیں۔ یہ تقسیم جنگ عظیم اول کے بعد عالمی طاقتوں کی قائم کردہ قومی ریاستوں کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئی۔
سید الانبیاءﷺ نے یہیں سے آسمانوں کی طرف اپنے معراج کے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس سے پہلے مکہ سے اس سرزمین تک کے سفر کو اللہ نے دو مسجدوں مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے درمیان کا سفر بتاتے ہوئے فرمایا ''پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک' وہ کہ ہم نے جس کے ماحول کو برکت دی ہے (بنی اسرائیل)۔ پیغمبروں کی سرزمین۔ تین ابراہیمی مذاہب کا روحانی مرکز۔ قدیم رومی سلطنت نے اس کو 64 قبل مسیح میں فتح کیا اور پھر مدتوں یہ اس کے ایک مرکزی حصے کے طور پر جانا جاتا رہا۔
اس سے پہلے ایک طویل عرصہ یہ سکندر یونانی کے جرنیل سیلوکس (Seleucis) کے زیر تسلط رہا۔ جس سرزمین پر حضرت دائود ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کی عظیم بادشاہت قائم ہوئی۔ بنی اسرائیل پر نعمتوں اور نوازشات کا نزول بھی اسی سرزمین پر ہوا اور ان پر عذاب کے کوڑے بھی یہیں برسے۔ یہ خطہ ازل سے اہمیت کا حامل ہے اور سید الانبیاء کی بشارتوں کے مطابق قیامت سے قبل ہونے والی جنگ عظیم میں بھی مسلمانوں کی فتح و نصرت کی علامت ہو گا۔
رسول اکرمﷺ کی حیات طیبہ میں کسی عالمی طاقت سے جو دو لڑائیاں ہوئیں وہ اسی شام کے علاقے میں برپا ہوئیں اور قیصر روم کی افواج سے ہوئیں۔ فتح مکہ کے بعد جب آپؐ نے ارد گرد کے حکمرانوں کو دعوتی پیغامات بھیجے تو ہرقل کے عیسائی حاکم کے نائب شرجیل بن عمرو غسانی نے آپؐ کے سفیر حضرت حارث ؓ بن عمیر کو راستے میں شہید کر دیا۔ آپ نے اس عالمی طاقت روم سے سفیر کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ بن حارث کی سربراہی میں لشکر روانہ کیا اور اسے خود مدینے سے باہر چھوڑنے آئے۔ شارف کے مقام پر لڑائی ہوئی۔ حضرت زید بن حارثؓ شہید ہوئے تو علم حضرت جعفرؓ کے سپرد ہوا۔ آپ کا داہنا ہاتھ کٹ گیا تو اسے بائیں ہاتھ سے پکڑا' بایاں بھی کٹ گیا تو سینے پر شہادت تک سنبھالے رکھا۔ اس کے بعد عبداللہ بن رواحہؓ علمبردار ہوئے وہ بھی شہید کر دیے گئے۔
اس کے بعد خالد بن ولیدؓ نے علم سنبھالا' بے جگری سے لڑے' نو تلواریں ٹوٹیں اور اپنی فوج کو بچا کر لے آئے۔ اسی معرکے میں حضرت جعفر کو طیار اور خالد بن ولید کو سیف اللہ کا لقب حاصل ہوا۔ آپؐ نے واپس آنے والوں کے بارے میں فرمایا یہ کراری ہیں' یعنی یہ دوبارہ لڑنے جائیں گے۔ رجب 9 ہجری کو اطلاع ملی کہ قیصر اپنی فوجیں لے کر مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے آ رہا ہے۔ وہ جس کی آدھی دنیا پر حکومت تھی جو ایران کو تازہ تازہ شکست دے چکا تھا۔ حضورؐ نے طے کیا کہ اسے عرب کی سرزمین میں گھسنے سے پہلے ہی دفاعی مقابلہ کرتے ہوئے روک دیا جائے۔
یہ غزوہ تبوک کا وہ منظر ہے جس میں مسلمانوں نے ایثار اور انفاق کی مثالیں قائم کیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنے گھر کا پورا سامان اسی غزوہ کے لیے اٹھا لائے۔ تیس ہزار جانثار سید الانبیاءؐ کی سربراہی میں روانہ ہوئے لیکن روم کی فوج نہ آئی۔ اس لیے کہ ان کو کسی نے اطلاع دی تھی کہ نعوذ باللہ مدینہ کے نبیؐ کا انتقال ہو گیا ہے اس لیے یہ حملہ کرنے کا بہترین وقت ہے۔ اطلاع غلط ثابت ہونے پر وہ آگے روانہ نہ ہوئے۔ اس کے باوجود بھی رسول اکرمﷺ نے وہاں ایک ماہ تک فوجی کیمپ قائم رکھا۔ یہ تھی شام کی اہمیت۔ اسی لیے حضرت عمرؓ کے زمانے میں 15 ہجری میں اسے فتح کرنے کے لیے لشکر روانہ کیا گیا۔
یہ جنگ یرموک تھی جس کے نتیجے میں بلاد شام مسلمانوں کی ریاست میں شامل ہوا۔ اس جنگ میں اہل بیت رسولﷺ سے پہلے شہید نے جان جان آفرین کے سپرد کی۔ یہ تھے نواسہ رسول حضرت علی بن العاصؓ۔ ان کی عمر اس وقت بائیس برس تھی۔ یہ آپؐ کی بیٹی سیدہ زینب کے صاحبزادے ہونے کی وجہ سے علی زینبیؓ بھی کہلاتے تھے۔ اس نواسہ رسول کی شہادت اور شوق شہادت پر علامہ اقبال نے بانگ درا میں ایک نظم ''جنگ یرموک کا ایک واقعہ تحریر کی ہے
صف بستہ تھے عرب کے جوانان تیغ بند
تھی منتظر حنا کی عروس زمین شام
اک نوجوان صورت سیماب مضطرب
آکر ہوا امیر عساکر سے ہم کلام
اے بوعبیدہ رخصت پیکار دے مجھے
لبریز ہو گیا مرے صبر و سکوں کا جام
بیتاب ہو رہا ہوں فراق رسول میں
اک دم کی زندگی بھی محبت میں ہے حرام
جاتا ہوں میں حضور رسالت پناہ میں
لے جاؤں گا خوشی سے اگر ہو کوئی پیام
بولا امیر فوج کہ وہ نوجواں ہے تو
پیروں پہ تیرے عشق کا واجب ہے احترام
پہنچے جو بار گاہ رسول امیں میں تو
کرنا یہ عرض میری طرف سے پس از سلام
ہم پر کرم کیا ہے خدائے غیور نے
پورے ہوئے جو وعدے کیے تھے حضورؐ نے
شام کی یہ فتح مسلمانوں کی شجاعت اور نواسہ رسولﷺ حضرت علی بن العاص کی شہادت کی یادگار ہے۔ شام کی یہ سرزمین جس میں اللہ نے عالمین کے لیے برکت رکھی آج جنگ و جدل اور خاک و خون میں غلطاں ہے۔ اسی سرزمین پر اسرائیل بھی اپنے مظالم جاری رکھے ہوئے ہے اور لبنان بھی خون آشامی اور خوف میں زندہ ہے لیکن دمشق اور حلب کے وہ علاقے جن کے بارے میں رسول اکرمؐ نے فرمایا تھا کہ یہاں مسلمانوں اور دجال کے ساتھ آخری معرکہ ہو گا۔ یہیں غوطہ کے پاس سیدنا امام مہدی کا ہیڈ کوارٹر ہو گا۔ یہیں حضرت عیسیٰ کا نزول ہو گا اور وہ دجال کو قتل کریں گے۔
یہ سب علاقے گزشتہ دو سالوں سے ایک مستقل لڑائی کا شکار ہیں۔ یہی علاقہ ہے کہ جہاں مسلمانوں کو ایک ملت واحد سمجھ کر ان پر حملہ کیا جاتا ہے۔ انھیں اکٹھا نہیں ہونے دیا جاتا۔ اسی شام کے علاقے کو جنگ عظیم اول کے بعد چھوٹی چھوٹی قومی ریاستوں میں تقسیم کر کے ان پر اپنے ٹوڈی' بدترین ظالم حکمران مسلط کیے گئے۔ جس جگہ سے میرے اللہ نے نصرت کا پرچم بلند کرنا ہو' کیسے ہو سکتا ہے کہ وہاں دجال کی طاقتیں اور یاجوج و ماجوج کا نظام حملہ آور نہ ہو۔
سید الانبیاءﷺ نے فرمایا ''قیامت سے پہلے یہ واقعہ ضرور ہو کر رہے گا کہ اہل روم اہل اسلام سے اعمان یا دابق (حلب کے آس پاس) جنگ نہ کرلیں (مسلم): ایک اور جگہ فرمایا ''ہجرت کے بعد ہجرت ہو گی پس بہترین شخص وہ ہو گا جو اس جگہ ہجرت کر کے جائے گا جہاں حضرت ابراہیم نے ہجرت کی (یعنی شام) ( ابو دائود)۔ زمانہ آخر کی جنگوں کے دوران حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کی حدیث صحیح مسلم میں یوں ہے ''رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ''دمشق کے مشرقی جانب سفید مینار پر حضرت عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے '' پھر فرمایا ''وہ دجال کو تلاش کریں گے حتی کہ باب لُد پر اسے پا لیں گے اور قتل کر دیں گے( ابن ماجہ)۔
احادیث کا ایک طویل باب ہے جس میں شام کی فضیلت اور اس کے لیے برکت کی دعائیں ہیں۔ یہ بابرکت سرزمین ایک بار اور شاید آخری بار ایک آخری معرکے میں داخل ہو رہی ہے۔ جو سیدنا امام مہدی کا ہیڈ کوارٹر اور ان کا مرکز خلافت ہو گا لیکن اس عظیم جنگ سے پہلے رسول اللہ ﷺکے مطابق دنیا دو خیموں میں تقسیم ہو جائے گی' ایک جانب پورا کفر اور دوسری جانب پورا ایمان یعنی نفاق نہیں ہو گا۔ تقسیم واضح ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف امریکا' اسرائیل اور اس کے حواری اور دوسری جانب نہتے' یہ مزید واضح ہو جائے گی کہ اب وقت قریب آ پہنچا ہے۔