تلخ و ترش کے جواب میں
عاصمہ جہانگیر نے کمال کیا کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے بجائے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ عمران تو بونگا ہے۔
لاہور:
یہ جو آجکل سیاسی تو تو میں میں ہو رہی ہے اس سے کچھ زبان و بیان کے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ اصل میں تو دھرنوں نے یہ فضا پیدا کی ہے۔ وہاں جذبات کا پارہ جب چڑھنا شروع ہوا تو زبانیں بھی بے لگام ہوتی چلی گئیں۔ لیجیے اس پر ہمیں سوداؔ کا ایک مصرعہ یاد آ گیا
گھوڑے کو دو نہ دو لگام منھ کو ذرا لگام دو
لیکن منھ جب کھلتے ہیں تو انھیں لگام دینا مشکل کام ہے۔ عمران خان کی گرمی بیان نے زیادہ شہرت پائی۔ ان کے متعلق عام کہا جا رہا ہے کہ وہ حریفوں پر جب چڑھائی کرتے ہیں تو جو منھ میں آتا ہے کہہ بیٹھتے ہیں۔ اور لازم نہیں کہ ہمیشہ شائستگی بیان کو ملحوظ رکھیں۔ مگر محترمہ عاصمہ جہانگیر نے کمال کیا کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے بجائے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ عمران تو بونگا ہے اس کی بات کا کیا جواب دیا جائے۔ پھر بونگا کہنے پر بس نہیں کیا۔ کہا کہ نفسیاتی کیس ہے۔ اس کے علاج کے لیے کسی نفسیاتی معالج سے رجوع کیا جائے۔
مگر یاروں نے خالی بونگے کے لفظ کو پکڑ لیا اور کہنا شروع کیا کہ عاصمہ جہانگیر نے عمران خان کو بونگے خاں کے لقب سے نوازا ہے۔
ایک دوست نے آ کر ہم سے پوچھا کہ انتظار صاحب آپ بتائیں کہ یہ لفظ بونگا جو ہے اصل میں اس کا مطلب ہے کیا۔ ہم نے کہا کہ اس قبیل کے کتنے لفظ اردو میں چالو ہیں۔ جیسے بونگا، بانگڑو' گاؤدی' ڈیوٹ' الو کی دم' بغ چونچ' چغد' الو' بغلول وغیرہ وغیرہ اور لازم نہیں کہ یہ سب لفظ آپ کو لغت میں مل جائیں۔ ان تراشیدہ ترکیبوں لفظوں کا کمال یہ ہے کہ استعمال ہونے پر ان کے معنی خود بخود سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ لو ڈیوٹ پر ایک لطیفہ سن لو۔ ایک فرنگی اردو کا بہت مطالعہ کرنے کے بعد سر سید احمد خاں سے ملا تو کہنے لگا کہ میں نے اپنے مطالعے کے زور پر اردو زبان پر پوری قدرت حاصل کرلی ہے۔
سرسید مسکرائے اور بولے میاں تم نرے ڈیوٹ ہو۔ وہ فرنگی بہت پریشان ہوا۔ سوچا کہ یہ کیا لفظ ہے اور اس کے کیا معنی ہیں۔ لغت کھول کر دیکھی تو اس میں یہ لفظ ہی ندارد تھا۔ دیکھئے ویسے تو ڈیوٹ اس شے کو کہتے ہیں جس پر چراغ رکھا جاتا ہے مگر بول چال میں بیوقوف کو بھی ڈیوٹ کہتے ہیں مگر کیوں' کیسے۔ اس کی کوئی منطق نہیں ہے۔
اچھا خیر جب دوست نے اصرار کیا کہ اس لفظ کا صحیح مفہوم کیا ہے تو ہم نے بھی سوچا کہ یہاں کسی سیاسی لیڈر نے تقریر کرتے ہوئے جوش بیان میں تو یہ لفظ استعمال نہیں کیا۔ عاصمہ جہانگیر نے بہت تحمل کے ساتھ جواب دیتے ہوئے عمران خاں کو اس خطاب سے نوازا ہے۔ تو اس کے کوئی مخصوص معنی ان کے پیش نظر ہوں گے۔ سو ہم نے فرہنگ آصفیہ کھولی۔ وہاں اس لفظ کے یہ معنی نظر آئے۔ ''احمق' کج فہم' اوندھی عقل کا' اناڑی' بھس وغیرہ کا مخروطی شکل کا اونچا انبار''۔
آگے آپ خود طے کریں کہ یہاں کونسے معنی درست بیٹھتے ہیں۔ یعنی موصوفہ نے کونسے معنی پیش نظر رکھے ہوں گے۔
خیر اس تو تو میں کا تو فی الحال کوئی انت نظر نہیں آ رہا۔ جاری رہے گی اور جانے آگے چل کر کیا رنگ لائے گی۔ اور یہ آج کا قصہ تھوڑا ہی ہے۔ پاکستانی سیاست کی تو لگتا ہے کہ اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی گئی تھی۔ سدا سے اس کا رنگ یہی رہا ہے۔ اور ہمارے سیاست دان ؎
ہیں کوا کب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
ارے ان سے اچھے تو ہمارے کرکٹ کے کھلاڑی ہیں۔ مرتے ہیں' پٹتے ہیں اور پھر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ دیکھو ادھر کیسا انقلاب آیا ہے۔ انقلاب کا نعرہ اس طرف لگ رہا تھا۔ آیا ادھر۔ بالکل پنجابی فلموں کا منظر کہ ہیرو پٹ رہا ہے۔ پٹتے پٹتے برا حال ہو گیا ہے۔ سانس باقی ہے۔ وہ بھی کتنی دیر چلے گا لیکن اچانک وہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور پھر ولن پر اس طرح پل پڑتا ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ سو ادھر یہی نقشہ ہوا۔ جب پاکستانی کرکٹ ٹیم بہت خوار و خستہ ہو گئی اور یاروں نے پاکستان کے نام اس کھیل پر فاتحہ پڑھ لی تو ایک کھلاڑی جس کا نام یونس خاں ہے اسے ایسا طیش آیا کہ پہلے ہی ہلہ میں سینچری بنا ڈالی اور پھر بناتا ہی چلا گیا۔
پھر کپتان مصباح الحق کی بھی حمیت جاگی۔ اس نے بھی ٹپ ٹپ کرتے کرتے دھواں دھار چوکے چھکے مارنے شروع کر دیے۔ سینچری' پھر سینچری اور پھر سینچری۔ اگلے پچھلے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ کرکٹ کے پچھلے ہیروز پس منظر میں چلے گئے۔ یہ دو نئے ہیرو یونس خاں اور مصباح الحق پاکستانی کرکٹ کے چاند سورج بن گئے۔ اور اس طرح بنے کہ پچھلے چاند سورج ان کے مقابلہ میں ماند پڑ گئے۔ ظہیر عباس' جاوید میاں داد' انضمام الحق' عمران خاں۔ سب نے کھسک کر ان نو واردوں کی مقدم حیثیت کو مان لیا۔
کرکٹ کا کھیل عجب کھیل ہے۔ کیسے کیسے ریکارڈ قائم ہوتے ہیں اور کتنی جلدی ٹوٹ جاتے ہیں۔ پھر نئے ریکارڈ' نئے ہیرو۔ تو زندگی کا اصلی کھیل تو کرکٹ کے کھیل میں نظر آتا ہے۔ ہر کمالے را زوالے۔ اور پاکستان کے بلے بازوں کا عالم تو اقبال کے لفظوں میں وہ ہے کہ صورت خورشید جیتے ہیں ع
اِدھر نکلے اُدھر ڈوبے' اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
مگر ایسا نقشہ ہماری سیاست میں کیوں نظر نہیں آتا۔ کبھی تو اس دنیا کے بھی دلدر دور ہونے چاہئیں مگر یہاں مضمون یہ ہے کہ ع
ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے
اور اب تو ویسے بھی اسلامی دنیا میں نئی شورشوں نئے فتنوں کا دور دورہ ہے۔ ہر نئی قیامت' ہر نیا فتنہ پاکستان کو کیسے ڈھونڈ نکالتا ہے۔ وہ جو داعش کا بگولہ اٹھا ہے وہ ابھی تک تو عراق اور شام ہی میں اپنا جلوہ دکھا رہا ہے۔ پاکستان کے سلسلہ میں ابھی تک ''دلی دور است'' کا مضمون ہے۔ اور نجم سیٹھی صاحب کے تجزیے کو پڑھ کر ہم بالکل ہی مطمئن ہوگئے تھے کہ یہ بگولہ ادھر ہی گردش کرتا رہے گا۔
کس اعتماد سے انھوں نے حالات کا تجزیہ کر کے پریشان ہونے والی مخلوق کو یہ یقین دلایا تھا کہ پاکستان پر اس کی یلغار کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن ابھی ان کا تجزیہ پڑھ کر ہم نے اطمینان کا سانس لیا ہی تھا کہ اس خبر نے ہمیں آ لیا کہ ارے داعش والوں کے پرچم تو لہراتے لہراتے ٹیکسلا میں آن پہنچے ہیں۔ کس شان سے وہاں جا بجا بجلی کے کھمبوں پر لہرا رہے ہیں۔ اب کھوج لگانے والے یہ کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا یہ داعش کے کسی ہمدرد گروپ کی کارستانی ہے یا خود داعش نے کسی طور یہ کارستانی کی ہے۔
ہوشیار' خبردار۔ گندھارا آرٹ خطرے میں ہے۔ ٹیکسلا پاکستان کا وہ قیمتی علاقہ ہے جہاں گندھارا آرٹ کی دولت بکھری پڑی ہے اور کتنی دولت ابھی دبی پڑی ہے۔ اب تک اس دولت پر اسمگلروں کے دانت تھے۔ اب یہ نئے دانت نمودار ہوئے ہیں۔ یہ دانت زیادہ خطرناک ہیں۔ یاد کرو بامیان والے مہاتما بدھ کے مجسمہ کو جسے طالبان نے کفر کفر کہہ کر توڑ پھوڑ ڈالا۔ عالمی سطح پر کتنا شور مچا۔ کتنی ان کی منتیں کی گئیں۔ مگر انھوں نے ایک نہ سنی۔ ارے کیسا آرٹ کیسے پچھلی انسانی تہذیبوں کے اثر آثار۔ یہ تو مسلمانوں کے اس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں جنھیں اسلامی تاریخ کے اثر آثار کے تحفظ سے بھی بدعت کی بو آتی ہے۔ اور گندھارا آرٹ تو ہے ہی ان کے حساب سے سیدھا کفر۔