ادب اور دور جدید

علم وآگہی میں اس قدر وسعت آئی ہے کہ وہ ان گنت پرتوں میں منقسم ہوگئی ہے اور ہر پرت کا اپنا فلسفہ ہے۔

muqtidakhan@hotmail.com

ایک عمومی رائے پائی جاتی ہے کہ ادب زوال پذیر ہے، شاعری ختم ہورہی ہے اور افسانہ بستر مرگ پر ہے۔ یہی کچھ تنقید کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مابعد جدیدیت کے بعد تنقید میں نئے رجحان کی گنجائش ختم ہوگئی ہے۔ بعض احباب کی فلسفے کے بارے میں بھی یہی رائے ہے کہ اب اس کی چنداں ضرورت نہیں رہی۔ اپنے دعوے کی دلیل میں وہ برٹرینڈرسل کا یہ مقولہ پیش کرتے ہیں کہ When skill prevails, wisdom fades یعنی ''ہنرمندی میں اضافہ، دانش کو گہنا دیتا ہے۔'' اس سلسلے میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ برٹرینڈرسل اور ژان پال سارتر کے بعد کوئی بڑا فلسفی پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی پیدا ہونے کا امکان ہے۔ یہ ایک سوچ تو ہوسکتی ہے، مگر حقیقت نہیں۔ اس لیے اس پر بحث کی ضرورت ہے۔

میں ذاتی طور پر اس نقطہ نظر سے متفق نہیں ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ دنیا ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے، اس لیے زندگی کے ہر شعبہ میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے اور رجحانات بدل رہے ہیں۔ علم وآگہی میں اس قدر وسعت آئی ہے کہ وہ ان گنت پرتوں میں منقسم ہوگئی ہے اور ہر پرت کا اپنا فلسفہ ہے۔ اس لیے فلسفہ کی پرانی حیثیت پر اصرار نہیں کیا جاسکتا۔ یہی کچھ معاملہ ادب کا ہے۔ ہر دور کے اپنے تقاضے اور ضروریات ہوتی ہیں۔

آج ادب کے انداز اور موضوعات کے تنوع میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، جس نے شاعری، افسانے، ناول اور تنقید نگاری میں انیسویں صدی کے رومانوی اور بیسویں صدی کے مزاحمتی رنگ کے ساتھ نئے موضوعات پر طبع آزمائی کی راہ کھولی ہے۔ خاص طور پر افسانہ نے انیسویں صدی کے اوائل میں تیزی کے ساتھ اردو ادب میں اپنی جگہ بنائی۔

منشی پریم چند سے شروع ہونے والی افسانہ کی روایت نے کرشن چندر، عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو، راجندرسنگھ بیدی، ابوالفضل صدیقی سمیت ان گنت افسانہ نگاروں نے ہندوستانی معاشرے کی نفسیاتی کیفیت، دم توڑتی سماجی روایات اور اس وقت کے معروضی سیاسی حالات کی عکاسی کرکے ایک نئی شناخت دی۔ پھر تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاملات و مسائل افسانہ نگاروں کے موضوعات بنے۔ خاص طور پر سعادت حسن منٹو اور احمد ندیم قاسمی نے اس موضوع پر معرکۃ الآرا افسانے تحریر کیے۔

ڈاکٹر احسن فاروقی، نعیم آوری سے انتظار حسین اور زاہدہ حنا تک اردو افسانہ کئی جہتیں اختیار کرچکا ہے۔ آج کا افسانہ سماجی ناہمواریوں، معاشرے میں بڑھتے ہوئے نفسیاتی معاملات و مسائل اور گلوبلائزیشن کی حشرسامانیوں سمیت ان گنت موضوعات کو اپنے اندر سمیٹ رہا ہے۔

یہی کچھ معاملہ شاعری کا ہے، جس نے مغل اور اودھ کے درباروں میں کی جانے والی شاعری کے حصار سے نکل کر فکروفلسفہ اور زمانے کے کرب ومسائل کو اپنے اندر سمو کر نئی وسعتیں حاصل کی ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ افتخار عارف اردو شاعری کا آخری بڑا نام ہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔ کیونکہ دنیا بھر میں ہونے والی شاعری کی مختلف اصناف کے استعمال سے اردو شاعری کے دامن میں وسعت آئی ہے۔

خاص طور پر جاپانی شاعری کی صنف ہائیکو کے اردو میں کامیاب تجربات ہوئے ہیں اور کئی شعرا نے ہائیکو میں بہت عمدہ شاعری کی۔ اسی طرح محسن بھوپانی نے 1970 کے عشرے میں نظمانے کے عنوان سے آزاد شاعری کی طرز پر افسانچے تحریر کرکے شاعری کو ایک نیا اسلوب دیا۔ لہٰذا بعض حلقوں کا یہ دعویٰ کہ اردو ادب یا شاعری دم توڑ رہی ہے، حلق سے نہیں اترتا۔

آج جب میںدور جدید کے شاعروں بالخصوص سہیل احمد کی شاعری پر ناقدانہ نظر ڈالتا ہوں تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعری دم توڑنے کے بجائے کروٹ بدل کر نئے آہنگ، نئے انداز اور نئی سمتوں کا تعین کررہی ہے۔ سہیل احمد میں کہیں ن م راشد کی جھلک نظر آتی ہے، تو کہیں وہ مجھے نظم گوئی میں ایک نیا اسلوب ترتیب دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کی کئی نظمیں ان کی سیاسی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، خاص طور پر ''مجھے اس بستی سے خوف آتا ہے'' یا پھر ''مجھے اس بستی میں لے چلو کہ جہاں''۔ حال ہی میں ان کی نئی نظم موہن جو دڑو نظر سے گزری، جو سہیل احمد کی شاعرانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس نظم کے چند اشعار قارئین کی نذر ہیں، جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شاعر کی سوچ اور اپروچ کس مقام پر ہے۔

ہزاروں سال پہلے زندگی مٹی سے نکھری تھی
ہزاروں سال پہلے زندگی مٹی میں بکھری تھی
میں اس مٹی کو چوموں گا، پھر ان ٹیلوں پہ جائوں گا
یہاں بستی میں گیہوں گھاس کی صورت زمیں پر لہلہاتے ہیں
یہاں سورج کی کرنیں صبحدم ہر شاخ میں بیدار ہوتی ہیں
یہاں غنچے ہوا کی سرکشی پہ سخت نالاں ہیں
یہاں پانی کناروں پر سنبھل کر گیت گاتا ہے


آگے لکھتے ہیں۔

یہاں پتھرامانت ہے، یہاں پتھر ضمانت ہے
یہ پتھر کا زمانہ ہے، یہاں پتھر حقیقت ہے

اب اس آخری شعر کا جائزہ لیں تو کس قدر خوبصورتی کے ساتھ شاعر نے زماں و مکاں کا تعین کیا ہے۔ جب کہ اس سے اوپر والے شعر میں وہ دریائے سندھ کا تذکرہ کرتے ہیں جو اس کے برابر مؤدبانہ انداز میں خاموشی کے ساتھ بہہ رہا ہے اور کناروں کے ساتھ بہت ہلکا سا ارتعاش پیدا کرتا ہے۔ یہ ایک طویل نظم ہے، جس کے چند اشعار یہاں پیش کیے گئے ہیں، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شاعر کی تاریخ، سماجیات اور ثقافتی اقدار پر کتنی گہری نظر ہے۔

اسی طرح ان کی ایک نظم سرفہرست ہے، جس کا ایک قطعہ

میرے دل کی زمیں پر اب بہاریں غیر لگتی ہیں
سحر انگیز آنکھوں کی صدائیں غیر لگتی ہیں
جنوں ماتم نہیں کرتا، وفائیں زہر لگتی ہیں
نگہباں چمن کی آرزوئیں قہر لگتی ہیں

اب ان اشعار کی بنت پر غور کریں تو یہ کلاسیکل اور جدید شاعری کا حسین امتزاج ہیں۔ جن میں شاعر نے آفاقی احساسات کو نئے استعاروں میں پرونے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح جب میں سندھی کی جدید شاعری کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ سندھی شاعری نئی وسعتوں کو چھونے کی کوششوں میں مصروف ہے اور دنیا بھر کے نئے افکار وخیالات کو اپنے اندر سمونے کی بھرپور کوشش کررہی ہے، جس سے سندھی ادب کا دامن وسیع ہورہا ہے۔

یہی کچھ معاملہ بلوچی، پشتو اور پنجابی وسرائیکی شاعری کا محسوس ہوتا نظر آرہا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا یا تصور کرنا انتہائی فرسودگی کی علامت ہے کہ شاعری مررہی ہے اور افسانہ جمود کا شکار ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جس طرح سماج ارتقائی عمل سے مسلسل گزر رہا ہے، اسی طرح ادب بھی ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے اور نئی جہتیں تلاش کررہا ہے۔ اقبال نے کہا تھا کہ

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں

اقبال کا یہ شعر جہاں زندگی کے دیگر شعبہ جات پر صادق آتا ہے، وہیں ادب اور شاعری پر بھی اس کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے۔

(نوٹ: یہ مضمون سہیل احمد کی نظم موہن جو دڑو کی تعارفی تقریب میں صدارتی خطبہ کے طور پر پیش کیا گیا)۔
Load Next Story