ولی عہدی نظام

ہماری کرپٹ جمہوریت میں ولی عہدی نظام کا مطلب آنے والی کئی نسلوں تک اقتدار اختیار اور سیاست کو اپنے قبضے میں رکھنا ہے۔


Zaheer Akhter Bedari November 16, 2014
[email protected]

پاکستان کو ترقی کی سمت پیش رفت میں اگرچہ بہت ساری رکاوٹوں اور دشواریوں کا سامنا ہے لیکن جمہوری ترقی کے راستے میں جو رکاوٹیں کھڑی ہوئی ہیں ان میں ولی عہدی کا کلچر ایک بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ولی عہدی کلچر کے استحکام کی ایک بڑی وجہ ہمارا فیوڈل کلچر ہے جس میں وراثت کے علاوہ شخصیت پرستی ایک اہم ورثہ ہے۔

ولی عہدی نظام برصغیر میں بادشاہوں کا چھوڑا ہوا نظام ہے جس کے مطابق ہر بادشاہ کو یہ قانونی اور اخلاقی حق حاصل تھا کہ وہ اپنے بعد تخت کے لیے کسی ولی عہد کا اعلان کرے، بادشاہ کا نامزد ولی عہد ہی بادشاہ کے بعد تخت و تاج کا مالک بن جاتا تھا۔ شاہانہ دور کے خاتمے اور جمہوری دور کے آغاز کے ساتھ منطقی طور پر ولی عہدی نظام کا خاتمہ ہوجانا چاہیے تھا اور ترقی یافتہ اور اکثر ترقی پذیر ملکوں میں ولی عہدی نظام کا خاتمہ ہوگیا ہے لیکن اسلامی دنیا خصوصاً پاکستان میں ولی عہدی نظام نہ صرف موجود ہے بلکہ اس طرح پھل پھول رہا ہے کہ مذہبی جماعتیں بھی اس کی زد میں آگئی ہیں۔

ہماری کرپٹ جمہوریت میں ولی عہدی نظام کا مطلب آنے والی کئی نسلوں تک اقتدار اختیار اور سیاست کو اپنے قبضے میں رکھنا ہے اور جس اقتدار و اختیار کا مطلب قومی دولت کی لوٹ مار ہو، ایسا اقتدار اپنے ولی عہدوں کو ورثے میں لوٹ مار کے کلچر کے علاوہ کیا دے سکتا ہے۔ اس ولی عہدی نظام میں جو سب سے بڑا نقصان ہے، وہ یہ کہ عوام کے لیے اقتدار تک رسائی کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔

اگرچہ پاکستانی اشرافیہ نے امتیازی غیر منصفانہ انتخابی نظام بلدیاتی نظام وغیرہ کے ذریعے نچلی سطح سے اوپر یعنی قیادت کی طرف جانے والے تمام راستے بند کردیے ہیں لیکن ہماری ہوس اقتدار کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے بعد بھی ولی عہدی نظام کے ذریعے سیاست اور اقتدار پر اپنے خونی پنجے گاڑھے رکھنا چاہتی ہے، اس کلچر کی وجہ سے دوسرا بڑا نقصان میرٹ کا خاتمہ ہے اور جن ملکوں میں صلاحیتوں، اخلاص کے بجائے صرف ولی عہدی ہی میرٹ بن جاتی ہے ان ملکوں میں سیاسی اور جمہوری ارتقا کا سلسلہ رک جاتا ہے۔

ہر جمہوری ملک میں سیاسی کارکن پارٹی اور اس کے منشور کے تابع ہوتے ہیں اور ان کی جد وجہد کا مقصد اپنی پارٹی کے منشور کو نافذ العمل کرنا ہوتا ہے لیکن اس بادشاہی جمہوریت میں شخصیت پرستی اس قدر مستحکم ہوگئی ہے کہ کوئی کارکن نہ منشور کے تابع ہوتا ہے نہ منشور کو اہمیت دیتا ہے۔ اس کی ساری وفاداریاں جمہوری بادشاہوں اور ان کے نکمے، نا اہل، ناتجربہ کار ولی عہدوں کے لیے مختص ہوتی ہیں اور یہ شخصیت پرستی کا اتنا بڑا نقصان ہے کہ اس کا ازالہ ممکن نہیں۔

اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ ہمارے نظام معیشت نے حصول دولت، حصول مراعات کا جو کلچر مضبوط کردیا اس سے ہمارے جمہوری بادشاہ پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور نہ صرف عام کارکنوں کو بلکہ نظریاتی ہونے کے دعویدار کارکنوں کو چھوٹی چھوٹی مراعات دے کر اس طرح اپنے ساتھ لگائے رکھتے ہیں کہ وہ مزدور، کسان، راج کے بجائے ان ہی ولی عہدوں کے نعرے لگاتے ہیں۔

اس حوالے سے دوسرا المیہ یہ ہے کہ وہ سیاسی کارکن جنہوں نے اپنی ساری زندگی اپنی پارٹیوں کی نذر کردی اور دار و رسن کی آزمائشوں سے گزرے اور اس جدوجہد میں ان کے بال سفید ہوگئے اور کمر خمیدہ ہوگئی، وہ بھی جمہوری بادشاہوں کے نامزد کردہ ولی عہدوں کے سامنے سر بسجود رہتے ہیں۔

موقع پرست اور مفاد پرست سیاسی رہنماؤں کو اس قسم کی غلامانہ وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تو بالکل شرم نہیں آتی لیکن بعض بے لوث قسم کے ضعیف العمر کارکن اور رہنما بھی کل کے ناتجربہ کار ولی عہدوں کے سامنے سرتسلیم خم کیے رہتے ہیں تو کم از کم یہ مناظر دیکھنے والوں کو تو شرم آجاتی ہے لیکن پتہ نہیں ان سینئر ترین قربانیاں دینے والے کارکنوں اور رہنماؤں کو شرم کیوں نہیں آتی؟ ان کی خود داری، عزت نفس ان کا ضمیر یقیناً انھیں کچوکے لگاتے ہوںگے لیکن شخصیت پرستی ان سب پر بھاری ہوجاتی ہے۔ وہ ولی عہدوں کی تعریف میں جو قصیدہ خوانی کرتے ہیں، جو نعرے لگاتے ہیں وہ سب ان کے ضمیر، ان کی خودداری کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔

ہماری سیاسی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ جمہوری بادشاہ اپنے ولی عہدوں کو عوام میں مقبول بنانے کے لیے قومی دولت کے اربوں روپوں کے پروجیکٹ اپنی آل اولاد کے حوالے کررہے ہیں اور یہ شہزادے، شہزادیاں اربوں روپوں کی اس دولت کو لوٹ بھی رہی ہیں اور لٹا بھی رہے ہیں۔ بلکہ اب جمہوری بادشاہوں کے درمیان اس قسم کی فیاضیوں کے باضابطہ مقابلے ہورہے ہیں۔

کوئی عوام میں ہزاروں لیپ ٹاپ بانٹ رہا ہے تو کوئی آٹو رکشہ کی کھیپ لے کر عوام کی دستگیری کررہا ہے، کوئی کسانوں اور ہاریوں کے نام پر اپنے غلاموں کو زمینیں بانٹ رہا ہے تو کوئی کوچ اور لوڈنگ گاڑیاں مارکیٹ سے 50 فیصد کم دام پر عوام کو فراہم کرکے اپنے آپ کو عوام میں مقبول بنانے کی کوشش کررہا ہے اور ننگے بھوکے عوام اور بے روزگار نوجوان حکمران بادشاہوں کی اس فیاضی کی طرف یہ جانے بغیر دوڑ رہے ہیں کہ جو یلو کیب، جو رکشے، جو لیپ ٹاپ انھیں بانٹے جارہے ہیں وہ ان ہی کی پیدا کردہ دولت سے خریدے جاتے ہیں اور اس فیاضانہ خرید و فروخت میں بھی اربوں کا ہیر پھیر کیا جاتا ہے، یعنی صورت حال ''میاں کا سر میاں کا جوتا'' بنی ہوئی ہے اور ہماری اشرافیہ دھڑلے سے حلوائی کی دکان پر دادا کی فاتحہ دلوا رہی ہے۔

بادشاہوں کے دور میں طاقت کے بل پر ملک فتح کیے جاتے تھے جس کے لیے کسی اخلاقی یا قانونی جواز کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اور عموماً بادشاہ لوگ مرکر ہی یا مارے جاکر ہی اقتدار چھوڑتے تھے۔ ہمارے جمہوری بادشاہ اب ملک فتح کرنے سے تو رہے البتہ دولت کے زور پر انتخابات خریدتے ہیں اور 5 سالہ اقتدار کی منزل پر منزل مارتے ہیں بلکہ بار بار ان خریدے ہوئے انتخابات سے برسر اقتدار آنے کے لیے آئین میں ترامیم بھی کراتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بادشاہ جو کسی قانون، کسی دستور، کسی انصاف کا محتاج نہیں ہوتا تھا اسے بھی یہ فکر ستاتی تھی کہ وہ اپنی رعایا کی بہتری کے لیے کچھ نہ کچھ کرتا رہے لیکن ہمارے منتخب حکمرانوں کا المیہ یہ ہے کہ 67 سال گزر گئے وہ عوام کے مسائل کم نہ کرسکے بلکہ ان میں اضافہ کرتے رہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے ہر شہری کو سیاست میں حصہ لینے اور حکومت کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچنے کا حق حاصل ہے لیکن اگر کوئی ملک جمہوری ہونے کا دعویدار ہے تو پھر اسے جمہوری اصولوں، جمہوری روایات کا پاس کرتے ہوئے سیاست میں حصہ لینا اور اعلیٰ حکومتی عہدوں تک پہنچنے کی کوشش کرنا چاہیے، ترقی یافتہ ملکوں میں اقتدار کے راستے کی پہلی سیڑھی بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں۔

بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر اور کامیاب ہوکر اپنے علاقے کے عوام کی معینہ مدت تک خدمت کرنے کے بعد ہی پارٹی اسے آگے کے مرحلوں کے لیے ٹکٹ دیتی ہے۔ بلدیاتی اداروں میں علاقائی عوام کی خدمت در اصل سیاسی میدان میں پیش رفت کا سرٹیفکیٹ ہوتی ہے ان اداروں میں اچھی کارکردگی اگلے مرحلوں کے لیے خود بخود عوام کی حمایت میں بدل جاتی ہے اور یہ سرٹیفکیٹ جس کے پاس ہوتا ہے اسے آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

لیکن رونا یہ ہے کہ اس ابتدائی لازمی سرٹیفکیٹ کے بغیر خاندانی حوالوں اور دولت کے بے تحاشا استعمال سے ولی عہد ٹارزن کی طرح سیاست اور اقتدار کی منزلوں پر چھلانگ لگاکر نچلے اور درمیانے طبقات کے اس حق کو پامال اور اس سرٹیفکیٹ کو کاغذ کے بیکار پرزے میں بدل دیتے ہیں جو علاقائی عوام کی خدمت سے وہ حاصل کرتے ہیں۔ 67 سال کی خودغرضی اور بے حسی کے بعد اب عوام کسی مفادپرست کو قیادت اور حکومت تک رسائی دینے کے لیے تیار ہیں نہ ولی عہدی نظام کو کسی قیمت پر برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں