سب خرابیوں کی جڑ لا محدود ملکیت
ہر قوم و معاشرے میں خوبصورت چہروں کی تعداد محدود ہوتی ہے چاہے یہ مرد ہوں یا عورت۔ اکثریت بس گزارا ہوتے ہیں۔
لاہور:
لگتا ہے کہ جب پاکستان کی پیدائش ہوئی اس وقت ستارے سعد حالت میں نہیں تھے۔ ستاروں کی مختلف پوزیشنیں ہوتی ہیں۔ اچھی کے علاوہ یہ کبھی حالت غروب میں ہوتے ہیں یا حالت مقابلہ میں یا حالت ہبوط میں۔ یہ ساری پوزیشنیں انتہائی ناقص ہوتی ہیں اگر کسی فرد قوم یا ملک کا اس سے واسطہ پڑ جائے تو اسے زندگی کا ایک بڑا حصہ آزمائشوں میں گزارنا پڑتا ہے۔
یہاں ایک پرانی بحث بھی سامنے آتی ہے کہ انسانی زندگی میں تدبیر کی اہمیت ہے یا تقدیر کی، کیا سب چیزیں تقدیر کے تابع ہیں یا تدبیر کے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ انسان اپنی تدبیر میں مکمل خود مختار ہے اور وہ اپنی تقدیر خود بناتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں جب سب انسان پیدا ہوتے ہیں تو ایک جیسی خوبیوں کے مالک نہیں ہوتے۔ کوئی شکل و شباہت میں حسین ہوتا ہے تو کسی کی شکل بس واجبی ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حسن بھی قدرت کی طرف سے نایاب تحفہ ہے جو ہر کسی کو عطا نہیں ہوتا۔ ہر قوم و معاشرے میں خوبصورت چہروں کی تعداد محدود ہوتی ہے چاہے یہ مرد ہوں یا عورت۔ اکثریت بس گزارا ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک تعداد بدصورتوں کی بھی ہے۔ پوری دنیا میں قدرت کا یہی فارمولہ رائج ہے لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ خوبصورت لوگ عام طور پر اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک نہیں ہوتے۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو شکل و صورت کے لحاظ سے اوسط درجے کے مالک ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جب پوچھا گیا (حضرت علیؓ سے) کہ ہم اپنے افعال میں کتنے خود مختار اور پابند ہیں تو انھوں نے سوال کرنے والے سے پوچھا اپنی ایک ٹانگ اٹھائو اس نے اٹھا لی۔ انھوں نے کہا دوسری بھی اٹھائو تو اس نے جواب دیا یہ تو ناممکن ہے تو انھوں نے فرمایا کہ ہم اپنی زندگیوں کے حوالے سے بس اتنے ہی آزاد اور پابند ہیں۔
جدید سائنس نے ہمیں جنیٹک کوڈ سے روشناس کرایا ہے۔ ہمیں ورثے میں ملتا ہے جس میں یہ پہلے سے متعین ہوتا ہے کہ ہماری شکل و صورت قد ہماری سوچ ہمارے رویے، ہماری آنکھوں بالوں کا رنگ اور ہماری ذہنی استعداد کتنی ہو گی۔ اگر کوئی شخص طویل عمر سو سال کی زندگی پاتا ہے تو اس میں اس کا کوئی کمال نہیں۔ کیوں کہ پیدائش سے پہلے اس کے جنیٹک کوڈ میں درج ہو چکا ہوتا ہے۔ اسی طرح موت کا وقت بھی اس کوڈ میں معین ہوتا ہے کہ کس عمر میں موت آئے گی۔ یہ اور بات کہ زندگی کے اختتام کی وجوہات مختلف ہوں۔ یعنی موت کا ایک دن معین ہے۔
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی، یعنی ہم سب اپنے اپنے جنیٹک کوڈ کے قیدی ہیں۔ کچھ لوگ یہاں تک کہتے ہیں اور ان سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ ہم سے جو اچھے یا برے افعال سرزد ہوتے ہیں کہ اس میں بھی ہم مجبور محض ہیں کیونکہ مخصوص حالات و واقعات کے اثرات میں آ کر ہم سے یہ افعال سرزد ہوتے ہیں۔ پھر یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اچھائی و برائی کیا ہے۔ جزا و سزا کیا ہے۔ انسان خیر و شر کا مجموعہ ہے۔ انسان کے شر سے دوسرے انسان محفوظ رہیں۔ اس لیے مذاہب نے جنت و جہنم کا تصور پیش کیا۔
تاریخ انسانی یہ بتاتی ہے کہ بیشتر قومیں جب اپنی قوت اختیار کی بلندی پر پہنچیں تو انھوں نے اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے دوسری قوموں پر بے پناہ ظلم کیے کیونکہ استحصال بالادستی ان کی مجبوری بن گئی۔ اس سلسلے میں انھوں نے کسی بھی قسم کی اخلاقی انسانی اقدار کا لحاظ نہیں رکھا بلکہ مکمل طور پر فراموش کر دیا۔ آج بھی یہی صورت حال ہے بلکہ پہلے سے بھی بدتر ہے۔ تہذیب، تمدن، تعلیم نے انسان کا کچھ بھی نہیں بگاڑا۔ انسان آج بھی اپنی وحشت میں زمانہ قدیم کے ''انسان'' کی طرح ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی ظلم و بربریت کے نمونے ہمیں روزانہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
دور کیوں جائیے عراق شام میں داعش ہی اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ لگتا ہے کہ انسان نے دوسری ترقیوں کے ساتھ جو ترقی کی وہ یہ ہے کہ انسانوں کو کم سے کم وقت میں کتنی بڑی تعداد میں مارا جا سکتا ہے۔ جدید ترین اسلحے کے باوجود ایک وقت میں صرف چند سو یا ہزار ہی مارے جا سکتے ہیں۔ اب کیا جائے تو کیا کیا جائے جب کہ دنیا کی آبادی سات ارب سے زائد ہو چکی ہے۔ ایٹم بم کے ذریعے بھی چند منٹوں میں صرف چند لاکھ افراد ہی مارے جا سکتے ہیں۔ یہ تجربہ بھی سات دہائیاں پہلے ہو چکا ہے۔ انسان کو جب بھی موقعہ ملتا ہے چنگیز خان کے ریکارڈ توڑتے ہوئے نئی تاریخ رقم کر ڈالتا ہے۔
انسان کی اس وحشت کے خاتمے کے لیے انبیائے کرام، رسول اور بزرگان دین آئے کہ تربیت کے ذریعے اس کی وحشت کا خاتمہ کرتے ہوئے انسان کے اندر کے حیوان کو لگام ڈال کر حقیقی معنوں میں اس کو انسان بنا سکیں لیکن ہائے افسوس سب محنتیں اکارت گئیں۔ ہزاروں سال سے پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ انسان کے ظلم زیادتی، خود غرضی، استحصال، لالچ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ہاں مستثنیات اپنی جگہ ہیں لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں جن کی کاوشیں بھی انسانیت کی راہ میں آخرکار رائیگاں چلی جاتی ہیں آخری نتیجے میں۔
انسان کی اس وحشت و بربریت کی اصل جڑیں لامحدود ذاتی ملکیت کی ہوس میں پوشیدہ ہیں۔ اس لامحدود ملکیت کے ذریعے دولت و طاقت کا حصول کیا جاتا ہے جس کے ذریعے پوری دنیا کے لوگوں کو اپنا غلام بنایا جا سکتا ہے۔ لامحدود ملکیت اس لیے ضروری ہے کہ اس لامحدود ملکیت کے تحفظ کے لیے ان پر ''اپنی سوچ اور اپنا نظام'' نافذ کیا جاسکے۔
انسان کے انسان پر ظلم و استحصال کا خاتمہ صرف اس صورت ہی ممکن ہے جب لامحدود ملکیت کو محدود ملکیت میں بدل دیا جائے۔ یعنی وہ سب کے لیے دوسرے اس کے لیے ہوں۔ اس ارشاد پر عمل کیا جائے یعنی اس کی ضرورت سے زائد اشیاء و دولت دوسروں کے کام آئے۔ صرف یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے تمام انسانوں کے لیے دنیا میں ہی جنت کا حصول ممکن ہے ورنہ ہزاروں سال کی انسانی تاریخ میں دنیا کو جنت بنانے کی ہر کوشش تو اب تک ناکام ہو چکی ہے۔
انسان کی ہوس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ دنیا کے 85 امیر ترین افراد کے پاس ساڑھے تین ارب لوگوں سے زیادہ دولت ہے اور ان لوگوں کی دولت میں ہر منٹ میں 5 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جب کہ دنیا کے اربوں افراد کو دو وقت کی روٹی نہیں ملتی۔ خود برصغیر میں ایک ارب سے زائد افراد بھوک کا شکار ہیں۔ اس لمحہ موجود میں غربت اور استحصال اپنی انتہا پر ہے جس کا انسانی تاریخ نے اس سے پہلے کبھی نظارہ نہیں کیا۔
انسان کو انسان سے شیطان لامحدود ملکیت ہی بناتی ہے۔ کسی بھی انسان کو زندگی میں دو وقت کی روٹی اور مرنے پر 6 فٹ قبر ہی تو چاہیے ہوتی ہے... پھر اتنی دولت کا ڈھیر لگانے کا فائدہ۔
آپریشن ضرب عضب کب تکمیل کو پہنچے گا۔ اس کا پتہ نومبر دسمبر کے آخر میں چلے گا۔
سیل فون: 0346-4527997