شام شعر یاراں

جن کے بال نہیں جھڑتے ان کے لیے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ انھیں اپنے سر کے بال نوچنے تک کی اجازت بھی نہیں ملتی۔

umerkazi555@yahoo.com

KARACHI:
عمر کے اداس موڑ پر ایسی مسکراہٹ بکھیرتی ہوئی تحریر صرف مشتاق یوسفی کی ہو سکتی ہے۔ جن کی تازہ کتاب ''شام شعر یاراں'' سے ان الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے کہ ''مجھے اس کا احساس اور اندازہ ہے کہ مشاعرے سے پہلے لمبا خطبہ صدارت سامعین اور شعرائے کرام کو اتنا ہی گراں گزرتا ہے جتنا کہ بے صبر دولہا کو قاضی کا طول طویل خبطہ نکاح''۔ اس بات میں کوئی ادبیت نہیں۔ نہ کوئی فکر ہے اور نہ فلسفہ مگر پھر بھی کتنا اچھا لگتا ہے ان واقعات کا یاد آنا، جن میں ہم ''بے صبر دولہا'' کو دیکھنے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ دولہا جسے سارے مہمان اور میزبان بے حد فضول محسوس ہوتے ہیں۔

اس کے دل اور دماغ پر اس دلہن کا خیال محو گردش رہتا ہے جو ریشمی اور رنگین لباس میں لپٹی اس کی منتظر ہوتی ہے۔ وہ دولہا جو بقول سندھی مزاحیہ نگار حلیم بروہی کے ''شادی کے دن اپنے سارے دوستوں کے ساتھ بڑے شوق سے تصاویر کھنچواتا ہے۔ کیونکہ شادی کے بعد ان سے ملنا تو دور انھیں دیکھنے کی بھی اجازت حاصل نہیں کر پاتا۔'' حلیم بروہی نے یہ بھی لکھا تھا کہ شادی کے بعد اکثر مرد بہت جلد گنجے ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ شوہر کے سر پر دو سوال مسلسل محو پرواز رہتے ہیں۔ ایک یہ کہ کہاں جا رہے ہو؟ اور دوسرا یہ کہ کہاں سے آ رہے ہو؟

پہلے تو مرد مذاق اور بعد میں مسکراہٹ اور اس کے بعد جھوٹ کے ذریعے ان سوالات کو ٹالتا رہتا ہے مگر یہ سوالات اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے اور بالآخر اس کی حالت ایسی ہو جاتی ہے کہ جب بھی اس سے اپنی بیگم پوچھتی ہے کہ کہاں جا رہے ہو اور کہاں سے آ رہے ہو تو وہ جواب دینے کے بجائے اپنے بال نوچنے لگتا ہے اور اس طرح آہستہ آہستہ اس کے بال کم ہوتے جاتے ہیں۔ میری اس بات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صرف گنجے مرد بیوی کے ظلم کا شکار ہوتے ہیں مگر جن کے بال نہیں جھڑتے ان کے لیے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ انھیں اپنے سر کے بال نوچنے تک کی اجازت بھی نہیں ملتی۔

مشتاق یوسفی نے اپنی نئی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ''تصویروں کے عکس دیکھے تو دیکھتا رہ گیا۔ اور یہ تک پوچھنا بھول گیا کہ آپ ہنوز کنوارے ہیں یا پچھتا رہے ہیں؟ یہ ایسی خوبصورت تصویریں بناتے ہیں اور بظاہر عام سے چہرے کو یوں کیمرائز کرتے ہیں کہ اگر فقط ان کی بنائی ہوئی تصویر دیکھ کر شادی طے کر لی تو رونمائی کے وقت ہی طلاق ہو جائے۔'' ایسا کمال ہر فوٹوگرافر کو حاصل نہیں ہوتا۔ مگر ہر شخص اپنی زندگی میں ایک ایسے فوٹوگرافر کو جانتا ہے جس کی کھنچی تصویر کو دیکھ کر اسے محسوس ہوتا ہے کہ میں اصل میں ایسا ہوں۔ صرف دنیا نے مجھے بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

میری زندگی میں ایسا فوٹوگرافر میرا وہ دوست ہے جس نے حیدرآباد میں ''ٹائم'' کے نام سے وقت کے لمحات کو کیمرا کی آنکھ میں محفوظ کرنے کی کوشش کی مگر وقت ایسی ظالم چیز ہے کہ وہ حسینوں پر بھی ترس نہیں کھاتا۔ اس لیے میں اپنے دور کی کلاس فیلوز سے ملنے سے کتراتا ہوں، کیونکہ ان سے ملنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ انسان وقت کی پشت پر سوار نہیں بلکہ اس کے پیروں میں روندتی ہوئی زمین کی طرح ہے۔ ہم وقت پر سفر نہیں کرتے مگر وقت ہم پر مشق مسافری کرتا ہے۔

مشتاق یوسفی نے اپنی نئی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ''حقی صاحب ہم سے وقتاً فوقتاً اصلاح لیتے رہے ہیں۔ ان کی اصلاح اب تک صرف تحریر و گفتار تک محدود رہی ہے۔ جو ہمیں تو کردار کی اصلاح سے زیادہ دشوار اور صبر آزما معلوم ہوتی ہے۔ وہ ہر گناہ ہر لغزش معاف کر سکتے ہیں سوائے غلط تلفظ، غلط املا اور غلط روزمرہ کے۔''

ہر ادب سے شغف رکھنے والے شخص کی زندگی میں ایک حقی صاحب ہوا کرتے ہیں، جو اپنی قابلیت دنیا پر نہیں بلکہ دوستوں پر ثابت کرنے کی کوشش میں کبھی کامیاب نہیں ہو پاتا۔ وہ یہ بات نہیں جانتا کہ ہر شخص کے لیے زبان کا تلفظ ایک سا نہیں ہوتا۔ وہ اپنے علم اور ادب سے آشنائی اس طرح بیان کرتا ہے جس طرح عاشق مزاج افراد پردہ نشینوں سے مراسم بیان کرتے ہیں۔ ادب سے عشق کرنا ایسا ہی ہے جیسا اپنی عمر سے بڑی عورت کے ساتھ مشق معاشقہ کرنا۔ اس دوران یہ بات بھول جانا کہ وہ مرد کی کمزوریوں کو پہلی نظر میں پہچان لیتی ہے۔


مشتاق یوسفی اردو ادب میں مزاح کے حوالے سے جانے جاتے ہیں مگر یہ ان کا کمال ہے کہ وہ مزاح کے دوران ایک ایسی سنجیدہ بات ہمارے ذہن کے گال پر رسید کر جاتے ہیں جس کا نشان ایک عرصے تک مٹنے کا نام نہیں لیتا۔ ان کی یہ بات بھی کچھ ایسی ہے جو انھوں نے قائداعظم کے بارے میں لکھی ہے ۔ یوسفی صاحب نے لکھا ہے کہ: ''قائداعظم نے اندازاً پچیس منٹ تک انگریزی میں تقریر کی۔

اس تقریر کا ایک جملہ ابھی تک کانوں میں گونج رہا ہے کہ You were a crowd. I made you a nation اس میں کوئی شک نہیں کہ برصغیر میں بکھرے ہوئے مسلمانوں کو قوم کی صورت دینے والے پہلے شخص قائداعظم اور ایک عرصے کے بعد اس مشن کو آگے بڑھانے والے وہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جن کے نام کو اپنے مفادات کے لیے بے دردی سے استعمال کرنے والے زرداری اور ان کے دوست ابھی تک نہ صرف ہم جیسے بوڑھے لوگوں بلکہ ہمارے بچوں کے ذہنوں سے بھی بھٹو صاحب کے ساحرانہ اثر کو زائل نہیں کر پائے۔

اس وقت ہماری سیاست کیا ہے؟ اس صورت حال کی بہترین تصویر کشی کرتے ہوئے مشتاق یوسفی نے کیا غضب کی بات کی ہے کہ: ''کڑھا ہوا سیاستدان ''ناں'' اور ''نہیں'' کو کبھی حرف آخر نہیں سمجھتا، بلکہ ''ناں'' کو ''ہاں'' کی شرماتی، لجاتی شکل جان کر جو کرنا ہے کر گزرتا ہے۔ اور پہلے یہ بات ہم صرف پڑھا کرتے تھے مگر اب ٹی وی چینلوں نے اس حقیقت کو اس قدر عیاں کر کے رکھ دیا ہے کہ اس پر زیادہ بات کرنا وقت کا زیان محسوس ہوتا ہے۔ ہماری سیاست اس وقت ایک فلرٹ بھی نہیں جب کہ کبھی یہ عشق ہوا کرتی تھی۔ اس بات کی حقیقت کو محسوس تو سب کرتے ہیں مگر کوئی کس دل سے کہے کہ ہمارے سیاستدان ان بے رحم اور نالائق حکیموں کی طرح ہیں جن کے لیے فیض احمد فیض نے کیا غضب کی بات کہی تھی کہ:

کچھ چارہ گروں کو اپنی چارہ گری سے گریز تھا

ورنہ ہمیں جو درد تھے بہت لادوا نہ تھے

اس میں کوئی شک نہیں کہ مشتاق یوسفی نہ صرف ذہین مردوں بلکہ حسین عورتوں کے بھی آئیڈیل رائٹر رہے ہیں، اس لیے انھوں نے اپنی کامیاب تحریری زندگی کے تجربے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ: ''میں اکثر کہتا ہوں کہ مصنف کو صرف کتاب کے آئینے میں دیکھنا چاہیے۔ اس اور قاری کے درمیان ایک محتاط فاصلہ یعنی کتاب بھر کا فاصلہ بہت ضروری ہے اور اگر قاری یا فین خاتون ہیں تو اس کے اور مصنف کے درمیان شوہر بھر کا فاصلہ رہنا چاہیے۔''

ہم اصولی طور پر تو یوسفی صاحب کے ساتھ اس بات پر اختلاف رکھنے کی ہمت نہیں کر سکتے مگر ایک ادیب کا دل عام مردوں کے مقابلے میں زیادہ لالچی ہوا کرتا ہے اس کے لیے حسین صورتیں اتنی پرکشش ہوا کرتی ہیں کہ وہ ایک سنجیدہ تحریر کے دوران بھی کہیں نہ کہیں ایسا شگفتہ جال بچھانے کا خیال دماغ سے نہیں نکال پاتا جس میں اس کے خیال کے مطابق کوئی باذوق اور خوب صورت عورت پھنس جائے گی، حالانکہ یوسفی صاحب بھی ہم سے اس بات پر اتفاق کریں گے کہ مرد وہ واحد شکار ہے جو اپنے آپ کو شکاری سمجھتا ہے۔
Load Next Story