چار مہینے
چشم پوشی کے چار مہینوں میں چار مضبوط ترین حکومتیں چشم زدن میں چاروں شانے چت ہو چکی ہیں۔
نواز شریف اور عمران کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دو لاہوری ایک دوسرے سے ٹکرا گئے ہیں۔ ملک کی دو مقبول ترین شخصیات کا آپس میں الجھنا پہلے بھی ملک کے دو ٹکڑے کر چکا ہے۔ وزیر اعظم کے استعفے کو لے کر انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کو ایماندارانہ بنانے کی بات عمران نے کہی۔ اب وہ یہ مطالبہ سپریم کورٹ سے ثابت ہونے تک لے گئے ہیں۔ یہ ایک قدم پیچھے ہٹنا ہے۔ اب اس موقع پر مسلم لیگ دانشمندی دکھا کر جلد از جلد پرسکون کیفیت پیدا کرے گی یا نادانی دکھا کر تلخی کو بڑھائے گی؟
یہ سوال آنے والے دنوں میں آج کے حکمرانوں کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔ 14 اگست کو شروع ہونے والے دھرنے کو دسمبر کے دوسرے ہفتے میں چار ماہ مکمل ہو جائیں گے۔ چار ماہ کی پاکستان کی تاریخ میں کیا اہمیت ہے؟ چشم پوشی کے چار مہینوں میں چار مضبوط ترین حکومتیں چشم زدن میں چاروں شانے چت ہو چکی ہیں۔ ایک ہفتے قبل برسوں اور عشروں تک حکمرانی کی پلاننگ کرنے والے دھڑام سے ایوان سے خاندان یا زندان میں پہنچا دیے گئے ہیں۔ احتجاج کو چٹکیوں میں ختم کرنے کے چاپلوس دعوے دار چوکیداروں کے ہاتھوں چپ چاپ چار دانگ عالم میں چابک کھاتے تخت سے تختے تک جاتے دیکھے گئے ہیں۔
وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے سے ہٹ جانے پر اب گیند نواز شریف کی کورٹ میں ہے۔ پنجاب میں درجن بھر جلسوں کے درمیان لاڑکانہ کے جلسے کا پروگرام سب کے سامنے ہے۔ اس دن سنچری ہو گی۔ یعنی دھرنا سو دن کا ہوچکا ہوگا۔ 30 نومبر کو عمران کی اسلام آباد والی کال میں ابھی دو ہفتے باقی ہیں۔ اس کے بعد بھی حکومت کے پاس ایک آدھ ہفتہ ہوگا۔
تاریخ کہتی ہے کہ ایک سو بیس دن بعد مہلت عمل ختم ہو جاتی ہے۔ وقت کی لگام کھینچ لی جاتی ہے۔ ایوب، یحییٰ، بھٹو اور شریف جیسے چار طاقتور حکمران ان چار مہینوں کے ختم ہونے اور اقتدار کے خاتمے کے بعد نہ صرف نظربند، گرفتار اور جلا وطن کیے گئے بلکہ تختہ دار تک پہنچا دیے گئے۔ چار حکمران اور چار ماہ۔ قارئین! آج صرف ہسٹری نہ پڑھیں بلکہ ڈیٹس یعنی ماہ و سال بھی ذہن میں رکھیں۔ صرف تاریخ نہ پڑھیں بلکہ تاریخ یاد بھی رکھیں چاروں واقعات کی۔
دسمبر 68ء میں ایوب کابینہ کے ذہن سے دس سالہ جشن کا خمار بھی نہیں اترا تھا کہ احتجاجی تحریک شروع ہو گئی۔ ملک کو ترقی دینے اور صنعتوں کا جال بچھا دینے والے کو توقع تھی کہ عوام اس کے آگے اگلے عشرے میں بھی بچھے رہیں گے۔ صدارتی انتخاب میں عوام کا مینڈیٹ چرانے والے کے خلاف عوام باہر نکل آئے۔ صحافی، طلبا، وکلا اور مزدور اس تحریک کا ہر اول دستہ تھے۔
بھٹو، بھاشانی، مودودی، ولی، مجیب، قیوم، دولتانہ اس دور کے سیاستدان تھے۔ گول میز کانفرنس طلب کی گئی۔ ایوب اگلا صدارتی انتخاب نہ لڑنے پر بھی آمادہ تھے۔ عوام کا مطالبہ وفاقی و پارلیمانی نظام اور ون مین ون ووٹ کا تھا۔ وہ ون یونٹ کا خاتمہ چاہتے تھے۔ دسمبر ختم ہوا تو اگلے سال مارچ تک چار مہینے ہنگاموں اور مذاکرات کی نذر ہو گئے۔ صدر نے قوم سے خطاب کیا اور رخصت ہوئے۔ چار ماہ میں فیلڈ مارشل کی چار ہزار ایام والی حکومت چار سیکنڈ میں دستخط سے ختم ہو گئی۔
یہ اگست71ء ہے۔ یحییٰ دور کے انتخابات میں آٹھ ماہ قبل مشرقی پاکستان سے مجیب کامیاب ہوئے تھے۔ اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہونے سے بنگالی بھڑک اٹھے۔ فوج نے آپریشن شروع کیا اور حالات پر قابو پا لیا۔ اب سیاسی عمل شروع کرنے کی بات ہونی چاہیے تھی۔ عوامی لیگ سے مذاکرات کر کے راستہ نکالا جانا چاہیے تھا۔ یہ اگست ہی تھا جب یحییٰ خان حالات پر قابو پا چکے تھے۔
سعودی عرب، امریکا اور چین اب بات چیت کا مشورہ دے رہے تھے۔ یہ اگست ہی تھا جب روس اور بھارت میں پکی دوستی کا معاہدہ ہوا۔ اسی مہینے میں بھارتی طیارہ دو کشمیری طلبا اغوا کر کے پاکستان لے آئے اور تباہ کر دیا۔ یحییٰ اقتدار کے گھوڑے پر سوار تھے۔ وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا تھا۔ نومبر میں بھارت کی حملہ کرنے کی پلاننگ کامیاب ہو چکی تھی۔ پاک فوج گھیرے میں آ گئی اور 16 دسمبر آ گیا۔ اب بھی یحییٰ خان اگلے برسوں تک حکمرانی کے خواب دیکھ رہے تھے۔
سقوط ڈھاکا کے تین روز بعد ان کے نئے آئین کا مسودہ اخبارات کے ٹیلی پرنٹرز کو موصول ہو رہا تھا۔ حکمرانی کی خوش فہمی اس وقت ختم ہوئی جب ایک جلوس لاہور سے گزر رہا تھا۔ عوام اور فوجی جوان شکست پر مشتعل تھے۔ یحییٰ نے جنرل عتیق سے پوچھا کہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ فوجی گورنر نے جواب دیا کہ ''سر! یہ آپ کا سر چاہتے ہیں۔'' اگست تک مضبوط حکومت دسمبر میں اپنے انجام کو پہنچی۔ چار ماہ میں طاقتور ترین حکمرانی کا بستر لپیٹ دیا جاتا ہے اور نادانوں کو چار گھنٹے پہلے بھی احساس نہیں ہوتا کہ پیروں سے زمین چٹخ چکی ہے۔
مارچ 77ء میں بھٹو نے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی۔ نو پارٹیوں کے پاکستان قومی اتحاد کو تین درجن نشستیں ملیں۔ اصغر خان، بیگم نسیم اور پروفیسر غفور دو حلقوں سے کامیاب ہوئے تھے۔ دو دن بعد صوبائی انتخابات کا پی این اے نے بائیکاٹ کر دیا۔ احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ پہلے اور دوسرے درجے کی قیادت گرفتار کر لی گئی۔ پھر مذاکرات شروع کرنے کے لیے لیڈروں کو رہا کیا گیا۔
اپریل کے بعد مئی آ گیا۔ بھٹو ایک ہفتے کے پانچ غیر ملکی دورے پر روانہ ہو گئے۔ جون گزرا اور جولائی شروع ہو گیا۔ نہ بھٹو استعفی دینے کو تیار تھے اور نہ عبوری حکومت کی شکل سامنے آئی تھی۔ نہ سیاسی قیدیوں کو چھوڑا گیا اور نہ چیف الیکشن کمشنر کے نام پر اتفاق ہو سکا۔ نہ نگراں صوبائی حکومتوں کے معاملات طے ہوئے تھے اور نہ حیدرآباد ٹریبونل کے خاتمے کی کوئی بات نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ کچھ نہ ہوا لیکن مصطفیٰ کھر دوبارہ بھٹو سے آن ملے۔
قومی اتحاد کا سڑکوں پر مقابلہ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کو تیار کیا گیا۔ کراچی، حیدرآباد، لاہور اور ملتان میں نیم مارشل لا لگ چکا تھا۔ تین بریگیڈیئرز عوام پر گولی چلانے کے حکم سے انکار پر معطل ہو چکے تھے۔ مارچ کے پہلے ہفتے سے جولائی کا پہلا ہفتہ آ گیا۔ 120 دن پورے ہوئے اور جنرل ضیا نے مارشل لا لگا دیا۔ عوامی مینڈیٹ چرانے کا صرف الزام تھا۔ معاملات جلد طے نہ کر کے پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت کے خاتمے اور اپنے لیڈر کی جان گنوا کر ٹریجڈی پیدا کی۔
یہ جون 99ء کی بات ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو کارگل پر پاک بھارت جنگ کی اطلاع ان کے بھارتی ہم منصب اٹل بہاری واجپائی نے دی۔ آرمی چیف مشرف کی وزیر اعظم سے تلخی پیدا ہوئی۔ جولائی کے پہلے ہفتے میں وزیر اعظم کو امریکی صدر سے ملاقات کے لیے واشنگٹن جانا پڑا۔ بل کلنٹن نے جشن آزادی چھوڑ کر دو ایٹمی ممالک میں تصفیہ کروایا۔ کارگل کا ذمے دار کون؟ وزیر اعظم نواز شریف یا آرمی چیف پرویز مشرف۔ اس تلخی نے تلخی کو مزید گہرا کر دیا۔ نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں۔ میاں محمد شریف کی ملاقات آرمی چیف سے ہوئی۔ انھوں نے مشرف کو اپنا چوتھا بیٹا قرار دیا۔
معاملات ابھی تک نازک تھے۔ چوہدری نثار اور شہباز شریف امریکا گئے۔ مشرف کو آرمی چیف کے ساتھ چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ دے کر خوش کرنے کی کوشش کی گئی۔ جنرل مشرف سری لنکا گئے تو واپسی پر ان کے طیارے کو کراچی ایئرپورٹ پر اترنے نہیں دیا گیا۔ جنرل بٹ کو آرمی چیف بنا دیا گیا۔ فوج نے اسے قبول نہ کیا اور نواز حکومت ختم کر دی گئی۔ جون کے دوسرے ہفتے میں دو تہائی اکثریت والی مضبوط حکومت اکتوبر میں گھر بھیج دی گئی۔ نواز شریف گرفتار ہو گئے اور پھر کئی مقدمے چلنے کے بعد جلا وطن ہوئے۔ بھٹو کے بعد ایک اور منتخب وزیر اعظم سے المناکی۔
چار مہینوں قبل کی مضبوط ترین حکومتیں اپنے غلط فیصلوں اور خوش فہمیوں کی بدولت چار مرتبہ ختم ہو چکی ہیں۔ اگست میں نکلنے والا دھرنا دسمبر کے دوسرے ہفتے میں چار ماہ مکمل کر لے گا۔ عمران کی پیش کش کو سنجیدگی سے لینے یا مذاق میں اڑا دینے کا فیصلہ پاکستان اور اس کے حکمرانوں کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔
کیا نواز شریف کے چار ساتھی چار دیواری میں چار کونوں کی میز پر بیٹھ کر چار حکومتوں کے خاتمے پر سوچ بچار کریں گے؟ کس طرح حکمرانوں نے جائز چارہ جوئی کو نظرانداز کیا۔ پھر کس طرح انھوں نے عوامی مینڈیٹ کھو جانے کی اہمیت کو نہ سمجھا۔ یوں کتنے مہنگے ثابت ہوئے ان کے لیے اور قوم کے لیے لاپرواہی اور غلط فیصلوں کے یہ چار مہینے۔