تیل نکلنے سے پہلے اہل عرب سمندر سے موتی ڈھونڈتے تھے

مئی اور ستمبر میں کشتیاں بحیرہ عرب کے سفر پر نکلتیں اور لوگ ہفتوں سمندر میں رہتے

صرف بحرین کا کاروبار عروج پر رہا، 1950 میں تیل نکلا تو عرب کی قسمت بدل گئی۔ فوٹو: فائل

RAJANPUR:
آج کی عرب دنیا کا تصور کیا جائے تو تیل سے مالامال ایک مالدار خطے کا تصور ذہن میں آتا ہے لیکن ایک صدی سے بھی کم وقت قبل عرب ممالک میں ابھی تیل دریافت نہیں ہوا تھا۔

میتھیو ٹیلر لکھتے ہیں کہ یہ ایک غریب خطہ تھا اور یہاں کا ذریعہ معاش گہرے پانیوں میں موتی ڈھونڈنا تھا۔ سامراجی آقاؤں کی سختی اور آپس میں کاروباری مقابلے کے باعث قیمتیں کم ہونے سے موتی ڈھونڈنے کے اس کام کو کافی نقصان پہنچا تھا۔ 1920ء میں جاپان کے تیار کردہ مصنوعی موتی مارکیٹ میں آنا شروع ہو گئے تھے۔ ان کی کم قیمت اور خوبصورتی کے باعث بحریرہ عرب کے گرم پانیوں سے نکلنے والے موتیوں کی مارکیٹ کم ہوتی چلی گئی۔


موتیوں کی تلاش میں پانی میں جانا انتہائی دشوار اور مشکل عمل تھا۔ چھلانگ لگانے والا شخص پہلے اپنے پورے جسم پر تیل ملتا پھر اسے دونوں کانوں میں روئی ٹھونسنا پڑتی۔ اس کے علاوہ انھیں ہاتھوں کی انگلیوں اور پیروں کو تیز اور نوک دار چٹانوں سے بچانے کے لیے ربڑ سے ڈھانپنا پڑتا۔ مئی اور ستمبر کے درمیان کویت، بحرین، دوبئی اور ابوظہبی سے لکڑی کی بنی ہوئیں سیکڑوں کشتیاں موتی تلاش کرنے بحیرہ عرب کے سفر پر نکلتیں۔

ان میں غوطہ خور، انھیں کشتی سے کنٹرول کرنے والے اور ملاحوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی تھی۔ یہ لوگ انتہائی مشکل حالات میں ہفتوں سمندر میں وقت گزارتے۔ ان میں سے ہر کوئی مقروض ہی رہتا تھا۔ ہندوستان سے ان موتیوں کی مانگ نے اس کاروبار کو زندہ رکھا۔ 1865ء میں بحرین نے جسے موتیوں کے کاروبار کا مرکز سمجھا جاتا تھا دور جدید کے مطابق 3 کروڑ پاؤنڈز کا کاروبار کیا۔

1904ء میں یہ کاروبار اپنے عروج پر تھا اور اس کی مالیت 10کروڑ پاؤنڈز کے قریب تھی۔ اس کے باوجود تنخواہوں اور کام کرنے کے حالات بد ترین رہے کیونکہ حکمران خاندان اور سامراجی طاقت برطانیہ جدیدیت کے مخالف تھے۔ اس سلوک نے موتی ڈھونڈنے کے کاروبار کو عرب ممالک میں پنپنے نہیں دیا اور وہ جدید ٹیکنالوجی کے باعث باقی دنیا سے پیچھے رہ گئے۔ ان کی ایک پوری نسل نے انتہائی غربت میں وقت گزارا لیکن 1950ء میں بڑے پیمانے پر تیل کی دریافت نے عربوں کی زندگی اور قسمت ہی بدل ڈالی۔
Load Next Story