پاکستان ایک نظر میں اگلے حادثے کا انتظار
ایک بس میں تیس سےپچاس افراد سوار ہوتے ہیں اورجس لمحےیہ سوار ہوتےہیں انکی زندگی اورموت کےدرمیان کا فاصلہ کم رہ جاتا ہے۔
وطنِ عزیز کی حالت دیکھیں تو ہر آنے والا دن جانے والے سے بُرا نظر آ رہا ہے، یوں لگتا ہے کہ موت کسی بھی سمت سے آسکتی ہے اور جب وہ آتی ہے تو درجنوں شہریوں کو پلک جھپکتے ہمیشہ کی نیند سلا دیتی ہے۔ یہ کہا تو جاتا ہے کہ دھرتی ماں ہوتی ہے مگر ماں کی کوکھ میں مرتے ان شہریوں کا پرسانِ حال کوئی کیوں نہیں؟ کیا اشرف المخلوقات کی اتنی بے توقیری ریاست چلانے والوں کو ہوش کے ناخون لینے پر مجبور نہیں کررہی؟
ابھی سانحہ واہگہ بارڈر کے آنسو خشک نہیں ہوئے تھے کہ خیرپور میں ٹریفک حادثے میں 60 اور گھرانے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانےپر مجبور ہو گئے۔ موت کا ایک عجیب رقص جاری ہے اور یوں لگتا ہے کہ میڈیا کی بریکنگ نیوز اور لال ٹیکرز میں انسانی جان کی قیمت روز بروز گھٹتی جا رہی ہے
یہ ملک کم اور بے سرو پا بھاگتا اور اِک دوسرے میں ٹکرا کر گرتا ہجوم زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ ہم سب پاکستانی مرنے کے لیے چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ آپ کراچی میں ہیں تو نہ معلوم افراد کی گولی کسی بھی وقت آپکی زندگی کا چراغ گل کرنے کو سر پر منڈلا رہی ہے، آپ لاہور میں ہیں تو حکمرانوں کا بے وقت کا غصّہ کسی بھی وقت آپکی چلتی سانس کو روک سکتا ہے، آپ بلوچستان میں ہیں تو ریاست اور غیر ریاستی عناصر کی لڑائی آپکی قربانی لے سکتی ہے اور اگر آپ پشاور میں ہیں تو آپ سب سے زیادہ خطرے میں ہیں اور اگر آپ ان سب سے بچ نکلتے ہیں تو تو کوئی حادثہ، کوئی ذاتی دشمنی آپکو لے ڈوبے گا۔
ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ کیا یہی ہمارا مقدّر ہے؟ اور پھر خودی جواب بھی دے دیتے ہیں کہ اس 'دیس' میں ایسے 'بھیس' ہی چلتے ہیں۔ ہمارے تمام مسائل اور ان پر حکمرانوں کی غفلت پر لکھا جائے تو وقت کم اور قلم خشک پڑ سکتا ہے اسی لیے میرا موضوع ملک میں بڑھتے ہوئے حادثات اور ان پر ماضی کی اور موجودہ کی حکومت کی خاموشی تک محدود ہے۔
میرے سامنے حکومتی ادارے 'پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس' کی 2004 سے 2013 تک کی رپورٹ پڑی ہے جس میں وہ حادثات درج ہیں جو رجسٹرڈ ہوئے یا جن کا ریکارڈ حکومت کے پاس ہے۔
2004سے لیکر 2013 تک ان نو سالوں میں پاکستان میں کل 97640 ٹریفک حادثات ہوئے جن میں 51525 افراد جاں بحق اور 1 لاکھ13 ہزار 8 سو چالیس افراد شدید یا معمولی زخمی ہوئے۔ ان میں سے 39342 پنجاب میں، 9639 سندھ میں، 9494 خیبر پختونخواہ میں اور 2250 لوگ بلوچستان میں جاں بحق ہوئے۔ جی ہاں یہ اعداد شمار کم و بیش اتنے ہی ہیں جتنے ہم پچھلے دس سال میں دہشتگردی میں گنوا چکے ہیں.
مگر حیرت ہے کہ دور دور تک بھی ٹریفک کا مسئلہ یا روڈ ایکسیڈنٹ ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ آپ جس بھی حکومتی نمائندے سے بات کریں آپکو ایک ہی جواب ملے گا کہ ملک دہشتگردی کا شکار ہے۔حیرت ہے کہ ملک دہشتگردی کا شکار ہو تو کیا سب کام روک دینے چاہیے؟یہاں میٹرو بھی بنتی ہے، انڈر پاسز بھی بنتے ہیں، عوام میں گاڑیاں اور ٹیکسیاں بھی تقسیم ہو رہی ہیں مگر عوام کو شعور کس نے دینا ہے؟ ہر ہائی وے اور موٹر وے پر کوئیک رسپانس ریسکیو کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ تو وہ حادثات ہیں جو رپورٹ ہوئے ان سے بھی کہیں زیادہ ہوئے ہوں گے جو بس لوگوں کی یادداشت میں ہی محفوظ ہیں۔
ایک بس یا کوسٹر میں تیس سے پچاس افراد سوار ہوتے ہیں اور جس لمحے یہ سوار ہوتے ہیں ان کی زندگی اور موت کے درمیان کا فاصلہ اور کم ہو جاتا ہے اور یہ الله کی آس اور مجبوری کے تحت سفر کر رہے ہوتے ہیں. ان ویگنوں میں سرِعام گیس کے بڑے بڑے سلینڈر لگے ہوتے ہیں جوان مسافروں کے درمیان میں پڑے کسی بھی وقت موت کا شور مچا سکتے ہیں۔ یہ بلوچستان میں چاغی کے دور دراز علاقے کی نہیں بلکہ پاکستان کے بڑے شہروں کراچی اور لاہور کی بات ہے کہ اسّی فیصد سیلنڈر خراب اور ایکسپائر ہوتے ہیں مگر ڈرائیور حضرات اسکی بلکل بھی پرواہ نہیں کرتے کیونکہ انکی پہلے سے بات پکّی ہوتی ہے لہٰذا انھیں کون روکے اور کون پوچھے سو یہ موت کا کھیل ہر لمحے ہمارے ملک کی گلیوں اور سڑکوں پر دن رات کھیلا جا رہا ہے۔
سب سے بڑا فرض ماں باپ کا ہے، ہمارے یہاں بچہ جوان بعد میں ہوتا ہے اور نام نہاد 'ڈرائیور' پہلے بن چکا ہوتا ہے۔ اگر باہر سے کوئی شکایت لگائے کہ آپکا بچہ بہت تیز ڈرائیو کرتا ہے تو اکثر اوقات لاڈ پیار میں اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، پھربعد میں وہی بچہ نہ صرف اپنے ماں باپ کا سکون تباہ کرتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ دوسرے کئی گھروں کو بھی تباہ کر دیتا ہے۔
محکمہ ٹریفک میں کرپشن اور سفارش کے کلچر نے ہر ایک کو'لائسنس شدہ قاتل' بنا دیا ہے۔ تھوڑے سے پیسے اور اندر کے تعلقات لڑا کر گھر بیٹھے لائسنس لے لیا جاتا ہے اور اگر کوئی حادثہ ہوجائے تو اسی لائسنس کی بنیاد پر ضمانت بھی ہو جاتی ہے۔
ہم میں سے کتنوں کو وہ ٹیچر یاد ہے جس نے اپنی جان دے کر بچوں کو بچایا تھا؟ ہمیں تو تازہ حادثہ بھولتے ہوئے بھی وقت نہیں لگتا۔ ہماری یادداشت کا دارومدار اب بس میڈیا کی جانب سے دکھائی جانے والی بریکنگ نیوز تک محدود ہوگیا ہے۔ بس یہاں بریکنگ نیوز چلی ہم نے اُسے دیکھا افسوس کیا اور ابھی افسوس ہی کررہے تھے کہ چینلز کسی جلسے کی کوریج کی کوریج پر پہنچ گئے اور ہمارا افسوس اور رنج اُسے کے ساتھ ساتھ جلسے کی رعنائیوں کی زینت بن گیا ۔۔۔ تو یہ تحریر پڑھیے اور اگر ہوسکے تو افسوس کیجیے کہ پھر آپ اور ہمیں اور بھی کام ہیں افسوس کے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ابھی سانحہ واہگہ بارڈر کے آنسو خشک نہیں ہوئے تھے کہ خیرپور میں ٹریفک حادثے میں 60 اور گھرانے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانےپر مجبور ہو گئے۔ موت کا ایک عجیب رقص جاری ہے اور یوں لگتا ہے کہ میڈیا کی بریکنگ نیوز اور لال ٹیکرز میں انسانی جان کی قیمت روز بروز گھٹتی جا رہی ہے
یہ ملک کم اور بے سرو پا بھاگتا اور اِک دوسرے میں ٹکرا کر گرتا ہجوم زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ ہم سب پاکستانی مرنے کے لیے چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ آپ کراچی میں ہیں تو نہ معلوم افراد کی گولی کسی بھی وقت آپکی زندگی کا چراغ گل کرنے کو سر پر منڈلا رہی ہے، آپ لاہور میں ہیں تو حکمرانوں کا بے وقت کا غصّہ کسی بھی وقت آپکی چلتی سانس کو روک سکتا ہے، آپ بلوچستان میں ہیں تو ریاست اور غیر ریاستی عناصر کی لڑائی آپکی قربانی لے سکتی ہے اور اگر آپ پشاور میں ہیں تو آپ سب سے زیادہ خطرے میں ہیں اور اگر آپ ان سب سے بچ نکلتے ہیں تو تو کوئی حادثہ، کوئی ذاتی دشمنی آپکو لے ڈوبے گا۔
ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ کیا یہی ہمارا مقدّر ہے؟ اور پھر خودی جواب بھی دے دیتے ہیں کہ اس 'دیس' میں ایسے 'بھیس' ہی چلتے ہیں۔ ہمارے تمام مسائل اور ان پر حکمرانوں کی غفلت پر لکھا جائے تو وقت کم اور قلم خشک پڑ سکتا ہے اسی لیے میرا موضوع ملک میں بڑھتے ہوئے حادثات اور ان پر ماضی کی اور موجودہ کی حکومت کی خاموشی تک محدود ہے۔
میرے سامنے حکومتی ادارے 'پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس' کی 2004 سے 2013 تک کی رپورٹ پڑی ہے جس میں وہ حادثات درج ہیں جو رجسٹرڈ ہوئے یا جن کا ریکارڈ حکومت کے پاس ہے۔
2004سے لیکر 2013 تک ان نو سالوں میں پاکستان میں کل 97640 ٹریفک حادثات ہوئے جن میں 51525 افراد جاں بحق اور 1 لاکھ13 ہزار 8 سو چالیس افراد شدید یا معمولی زخمی ہوئے۔ ان میں سے 39342 پنجاب میں، 9639 سندھ میں، 9494 خیبر پختونخواہ میں اور 2250 لوگ بلوچستان میں جاں بحق ہوئے۔ جی ہاں یہ اعداد شمار کم و بیش اتنے ہی ہیں جتنے ہم پچھلے دس سال میں دہشتگردی میں گنوا چکے ہیں.
مگر حیرت ہے کہ دور دور تک بھی ٹریفک کا مسئلہ یا روڈ ایکسیڈنٹ ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ آپ جس بھی حکومتی نمائندے سے بات کریں آپکو ایک ہی جواب ملے گا کہ ملک دہشتگردی کا شکار ہے۔حیرت ہے کہ ملک دہشتگردی کا شکار ہو تو کیا سب کام روک دینے چاہیے؟یہاں میٹرو بھی بنتی ہے، انڈر پاسز بھی بنتے ہیں، عوام میں گاڑیاں اور ٹیکسیاں بھی تقسیم ہو رہی ہیں مگر عوام کو شعور کس نے دینا ہے؟ ہر ہائی وے اور موٹر وے پر کوئیک رسپانس ریسکیو کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ تو وہ حادثات ہیں جو رپورٹ ہوئے ان سے بھی کہیں زیادہ ہوئے ہوں گے جو بس لوگوں کی یادداشت میں ہی محفوظ ہیں۔
ایک بس یا کوسٹر میں تیس سے پچاس افراد سوار ہوتے ہیں اور جس لمحے یہ سوار ہوتے ہیں ان کی زندگی اور موت کے درمیان کا فاصلہ اور کم ہو جاتا ہے اور یہ الله کی آس اور مجبوری کے تحت سفر کر رہے ہوتے ہیں. ان ویگنوں میں سرِعام گیس کے بڑے بڑے سلینڈر لگے ہوتے ہیں جوان مسافروں کے درمیان میں پڑے کسی بھی وقت موت کا شور مچا سکتے ہیں۔ یہ بلوچستان میں چاغی کے دور دراز علاقے کی نہیں بلکہ پاکستان کے بڑے شہروں کراچی اور لاہور کی بات ہے کہ اسّی فیصد سیلنڈر خراب اور ایکسپائر ہوتے ہیں مگر ڈرائیور حضرات اسکی بلکل بھی پرواہ نہیں کرتے کیونکہ انکی پہلے سے بات پکّی ہوتی ہے لہٰذا انھیں کون روکے اور کون پوچھے سو یہ موت کا کھیل ہر لمحے ہمارے ملک کی گلیوں اور سڑکوں پر دن رات کھیلا جا رہا ہے۔
سب سے بڑا فرض ماں باپ کا ہے، ہمارے یہاں بچہ جوان بعد میں ہوتا ہے اور نام نہاد 'ڈرائیور' پہلے بن چکا ہوتا ہے۔ اگر باہر سے کوئی شکایت لگائے کہ آپکا بچہ بہت تیز ڈرائیو کرتا ہے تو اکثر اوقات لاڈ پیار میں اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، پھربعد میں وہی بچہ نہ صرف اپنے ماں باپ کا سکون تباہ کرتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ دوسرے کئی گھروں کو بھی تباہ کر دیتا ہے۔
محکمہ ٹریفک میں کرپشن اور سفارش کے کلچر نے ہر ایک کو'لائسنس شدہ قاتل' بنا دیا ہے۔ تھوڑے سے پیسے اور اندر کے تعلقات لڑا کر گھر بیٹھے لائسنس لے لیا جاتا ہے اور اگر کوئی حادثہ ہوجائے تو اسی لائسنس کی بنیاد پر ضمانت بھی ہو جاتی ہے۔
ہم میں سے کتنوں کو وہ ٹیچر یاد ہے جس نے اپنی جان دے کر بچوں کو بچایا تھا؟ ہمیں تو تازہ حادثہ بھولتے ہوئے بھی وقت نہیں لگتا۔ ہماری یادداشت کا دارومدار اب بس میڈیا کی جانب سے دکھائی جانے والی بریکنگ نیوز تک محدود ہوگیا ہے۔ بس یہاں بریکنگ نیوز چلی ہم نے اُسے دیکھا افسوس کیا اور ابھی افسوس ہی کررہے تھے کہ چینلز کسی جلسے کی کوریج کی کوریج پر پہنچ گئے اور ہمارا افسوس اور رنج اُسے کے ساتھ ساتھ جلسے کی رعنائیوں کی زینت بن گیا ۔۔۔ تو یہ تحریر پڑھیے اور اگر ہوسکے تو افسوس کیجیے کہ پھر آپ اور ہمیں اور بھی کام ہیں افسوس کے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔