بات کچھ اِدھر اُدھر کی سروے کا جھنجھنا

یہ طریقہ جھوٹ کو فروغ دیتا ہےاور میڈیا کے ذریعے ان سرویز کو اچھال کے معاشرے میں انتشارکی بنیادرکھنے کی کوشش کیجاتی ہے۔


آخر دنیا بھر میں ہونے والے ان سرویز کا طریقہ کار کیا ہے؟ اور آبادی کے کس حصے کے لوگوں سے لیا جاتا ہے۔ کہ میں اب تک کئی بہاریں دیکھ چکا ہوں لیکن آج تک کوئی سروے کرنے والا میرے پاس تو نہیں آیا۔۔۔کیا آپ کے پاس آیا ہے؟ فوٹو: ایکسپریس

ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر دس میں سے پانچ خواتین کے سروں میں جوئیں پائی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے سروے کے مطابق عورتوں کے مقابلے میں مرد چٹخارے دار مسالوں کے شوقین ہوتے ہیں۔ ہر پانچ میں سے چار مرد چٹخاروں کو پسند کرتے ہیں۔ جبکہ ایک مزید ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر دس میں سے آٹھ نوجوانوں کا پسندیدہ کھیل فٹ بال ہے لیکن کھیلتے کرکٹ ہیں۔ یہ اور اس قسم کے بیسیوں اوٹ پٹانگ سروے آپ پڑھتے رہے ہوں گے۔

سمجھ نہیں آتا کہ دھوکہ دہی کی اس قسم کو ہم کیسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور کس دھڑلے کے ساتھ کرتے ہیں۔ اگر سروے کسی سیاسی جماعت کے حوالے سے ہو تو جس کی حمایت میں سروے آجائے تو مؤقر ترین سروے کہلاتا ہے۔ کسی کے خلاف آجائے تو جھوٹ کا پلندہ۔۔۔

ان سرویز کا طریقہ کار کیا ہے؟ اور آبادی کے کس حصے کے لوگوں سے لیا جاتا ہے؟۔ یہ ایک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ یقیناًسروے کرنے والے اداروں نے اس کے کچھ جوابات بھی تیار رکھے ہوں گے لیکن اس جوابات پر بھی بہت سارے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ تازہ ترین بی بی سی کا سروے ہے کہ بھارت میں ہر دس میں سے چھ افراد اپنی بیویوں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔۔۔ اور اگر یہ سروے پاکستان میں ہوتا تو شاید تعداد 6 سے بڑھ کر 8 یا 9 ہوتی۔ لیکن بالفرض آپ یہ سمجھ لیں کہ یہ سروے پاکستان میں ہوا ہے تو پھر یقیناً ہم یہ ہی رائے رکھتے۔

میرے بھارت کے ایک ساتھی ''شرما'' نے کہا کہ یہ دس لوگ کون تھے جن سے سروے کیا گیا؟۔ اس نے کہا کہ بالفرض سروے کرنے والا مجھ سے ملتا تو میں کہتا کہ میں تو اپنی بیگم کو نہیں مارتا۔ اس طرح 6 میں 5 افراد ہوجاتے اور اگر دو تین مزید ایسے افراد مل جاتے تو بیگم کو مارنے والے افراد مزید کم ہوجاتے۔ بالفرض سروے کرنے والے ادارہ کہے کہ ہم نے آبادی کے 10 ہزار لوگوں سے پوچھا اور اس میں سے ایک اوسط تعداد نکال کر سامنے رکھی کہ 10 میں سے 6 افراد کی تعداد میں مرد اپنی بیگمات کو مارتے ہیں لیکن 17 کروڑ نوے لاکھ اور نوے ہزار لوگوں کی رائے کہاں گئی یا یہ رائے ان پر بھی تھوپ دی جائے گی۔

یہ طریقہ جھوٹ اور مسلسل جھوٹ کو فروغ دیتا ہے۔ پروپیگنڈے کی قوت کو تقویت ملتی ہے اور میڈیا کے ذریعے ان سرویز کو اچھال کے معاشرے میں انتشار،ا فراتفری اور طوائف الملوکی کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ جس شخص کو بانس پر چڑھانا ہو اس کے ذریعے باآسانی ممکن ہے؟ اور اگر کسی کو نظروں سے گرانا ہو اس کے خلاف ایک سروے کروالیا جائے اس کی برسوں کی عزت یک لخت مٹی میں مل جائے گی ۔

یا تو جمہوریت کی روایت کو فروغ دیتے ہوئے پوری قوم سے سوال پوچھا جائے اور آنے والے جوابات کی روشنی میں تجزیہ کیا جائے۔ ورنہ آمریت والا طریقہ کار اختیار کرکے کسی قوم کی بے جاحمایت یا مخالفت کرنا شریفوں اور عزت والوں کے لیے مناسب راستہ نہیں۔ جھوٹ پر جھوٹ کی اس روایت کو ختم کرنا ناگزیر ہے۔ ورنہ سب سے گھٹیا چیز کو سروے کے ذریعے اچھا اور اچھی چیز بے کار اور تعفن زدہ بناکر پیش کی جاتی رہے گی اور ہم پاگلوں کی طرح یقین کر کے اس سے محفوظ بھی ہوں گے۔

ویسے اب تک کئی بہاریں دیکھ چکا ہوں لیکن آج تک کوئی سروے کرنے والا میرے پاس تو نہیں آیا۔۔۔کیا آپ کے پاس آیا ہے؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں