ایم کیوایم سے بطور اتحادی ہم ایک دوسرے کی توقعات پورے نہیں کرسکے آصف زرداری

گورنر سندھ کے ذریعے متحدہ سے رابطے میں تھے اور اب بھی ان کے لیے دروازے کھلے ہیں، شریک چیرمین پیپلزپارٹی

شہید بے نظیر بھٹو نے دہشت گردوں کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی، آصف زرداری، فوٹو: فائل

PARIS:
پیپلزپارٹی کے شریک چیرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہےکہ ایم کیوایم سے بطور اتحادی ہم ایک دوسرے کی توقعات پورے نہیں کرسکے تاہم متحدہ کے لیے ہمارے دروازے اب بھی کھلے ہیں۔

لندن میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ بلاول نے جلسوں میں اپنی رائے کا اظہار کیا اس پر ایم کیو ایم کو ناراض نہیں ہونا چاہیے جبکہ ایم کیوایم سے گورنر سندھ کے ذریعے رابطے میں تھے اور اگر اب بھی ان کی قیادت لندن میں مجھ سے ملنا چاہئے تو انہیں میرا ایڈریس پتا ہے کیونکہ ہمارے دروازے ایم کیوایم کے لیے اب بھی کھلے ہیں اور بطور اتحادی ہم ایک دوسرے کی توقعات پوری نہیں کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم وزیراعظم نوازشریف کی نہیں بلکہ جمہوری نظام کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرے جبکہ عمران خان بہت نامناسب زبان استعمال کررہے ہیں ہم ان جیسی زبان استعمال نہیں کرسکتے اس طرح کی زبان عمران خان کی شخصیت اور ان کے مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتی ہے۔


آصف زرداری کا کہنا تھا کہ شہید بے نظیر بھٹو نے دہشت گردوں کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی ہم آج ان کا مشن مکمل کررہے ہیں، ہم نے بڑی قربانیوں کے بعد جمہوریت کو حاصل کیا اور 10 سال آمر کے خلاف جہدوجہد کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ذہنوں کی جنگ ہے ہمیں دہشت گردی کے مائنڈ سیٹ کا مقابلہ کرنا ہوگا اور اس کے خلاف جنگ میں شکست کا آپشن نہیں ہمیں یہ جنگ ہر صورت جیتنا ہوگی جبکہ دور صدارت میں بھی ہمیشہ دنیا کو باور کرایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد کی ضرورت ہے اگر اس میں ہماری مدد نہ کی گئی تو دہشت گرد جیت سکتے ہیں۔

سابق صدر نے کہا کہ القاعدہ اور دیگر شدت پسندوں کے خطرات پر دنیا نے پہلے کوئی کان نہیں دھرے، داعش جیسے خطرات سے متعلق یورپی اور مغربی ممالک کو بتانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں، بھارت سے تنازعات کے حل کے لیے بات کی مگر مثبت جواب نہیں ملا جبکہ سرکریک پر بھی بھارت سے معاہدہ کرنا چاہتے تھے مگر بھارت تیار نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ اہمیت کا حامل ہے جسے اجاگر کرنا چاہتے ہیں جبکہ کشمیر کے آئندہ ہونے والے انتخابات پر بھی تشویش ہے۔
Load Next Story