پٹرولیم نرخوں پر ’’دھرنے‘‘ کا زبردست اثر
ہمارے اندر ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو ایک نقائص ہونے کے باوجود ایک بہت بڑی خوبی بھی ہے۔
ہمارے اندر ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو ایک نقائص ہونے کے باوجود ایک بہت بڑی خوبی بھی ہے جو بالکل جناب زرداری کی طرح سارے نقائص پر بھاری ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے ''پیشہ وروں'' سے انتہائی پیار ہے اگرچہ یہ ''پیار'' قطعی ون وے ٹریفک ہے۔ اپنے بھائی بندوں بلکہ بہنوں آپاؤں کو معلوم بھی نہیں ہے کہ ہمیں ان سے کتنا پیار ہے اور ہم نے کبھی اس کا اظہار بھی نہیں کیا ہے کیونکہ ''محبت'' ہی جو نہ سمجھے وہ ظالم ''پیار'' کیا جانے۔
ان کا جو کام ہے وہ ''اہل صحافت'' جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمارا اشارہ اپنی ''صحافتی برادری'' کی طرف ہے، خاص طور پر ان میں سے جو سیاست میں بھی قدم رنجہ فرما دیتے ہیں، دراصل آپ سے کیا پردہ کہ جب بھی ہمارا کوئی پیشہ و ہم مشرب، سیاست جوائن کر لیتا ہے، ہم اسی وقت یہ توقع باندھ لیتے ہیں کہ یہ حضرت یا حضرتہ آیندہ کی وزیر اطلاعات یا وزیرہ اطلاعات تو ضرور ہوں گی پھر ہو سکتا ہے کہ کبھی یہ ''خانہ برانداز'' کچھ تو ''ادھر بھی'' کر دیں، یہ الگ بات ہے کہ آج تک یہ ''ادھر بھی'' کا مقابلہ ''پنپ'' نہیں پایا کیونکہ ایک تو وزیر یا وزیرہ بن جانے کے بعد ان کی آنکھیں ماتھے کے بجائے کھوپڑی میں منتقل ہو جاتی ہیں اور نیچے کے بجائے اوپر ہی اوپر لگی ہوئی ہوتی ہیں اور دوسرے ہم اتنے کوتاہ قامت ہیں کہ جتنے فلموں میں ''جنات'' کے مقابل انسان دکھائے جاتے ہیں یا گلیور کے سفرنامے میں پائے جاتے ہیں یعنی
ہرچہ ہست از قامت ناساز کوتاہ من است
ورنہ تشریفے تو بر بالائے کس کو تاہ نیست
یعنی جو کچھ بھی مجھ پر خدا کی مار ہے، میرے ٹیڑھے میڑھے اور کوتاہ قامتی کی وجہ سے ہے ورنہ آپ کی ذات والا صفات تو سب سے بالا ہے، بہت زمانہ پہلے کی بات ہے جب ہمارے ہی قبیلے کے جناب مولانا کوثر نیازی سے امیدیں بندھ گئی تھیں لیکن ان شجر وزارت سے ہمیں جو میوہ ملا اس کی مٹھاس آج تک رگ و پے میں دوڑ رہی ہے، پشتو کا ایک ٹپہ ہے کہ
ستا یارانے خواگہ را نہ کڑل
حلق بہ مے تریخ تر زنکدنہ پورے وینہ
یعنی تمہاری یاری نے مجھے مٹھاس کے بجائے اتنی کڑواہٹ دے دی ہے کہ میرا حلق آخری سانس تک کڑوا ہی رہے گا، پھر جب ان زخموں پر تھوڑا بہت انگور آنے والا تھا ایک اور صاحب صوبائی وزیراطلاعات بنے جو ہمارے صحافت کے قبیلے سے تو نہ تھے لیکن صحافیوں کے بڑے قددران تھے ،کم از کم وزارت سے پہلے لیکن جب ''وقت'' آیا تو وہی سلسلہ ہوا جو رحمان بابا نے اورنگزیب کے بارے میں بیاں کیا ہے کہ اورنگزیب بھی ایک درویش تھا جو درویشی ٹوپی پہنتا تھا لیکن جب وقت ہاتھ میں آیا تو اپنے بھائیوں کے سر اور اپنی قلندرانہ ٹوپی ایک ساتھ اتار ڈالے اور ''خرم'' کے گھرانے کو باری باری ''بے سر'' کر ڈالا، ابھی کچھ ہی دنوں کی بات ہے کہ جب انصاف کی ہوا چلی پھر وہ آندھی میں بدلی اور طوفان ہوئی تو ہمارے قبیلے سے بھی ایک فرد کو بھی صحافت کے خار زار سے اڑا کر اقتدار کے گلستان میں پہنچا دیا۔
پھل دار درخت بھی چڑھا لیکن آیئے پہلے ایک لطیفہ سنئے، ایک باغ میں ایک شخص پھل کے لیے ایک درخت پر چڑھا ہوا تھا۔ باغ کے مالک نے اسے دیکھ کر کہا کہ تم میرے باغ میں کیوں گھس آئے ہو، لڑکے نے کہا نہیں میں چوری کرنے نہیں آیا ہوں، وہ تو بڑی سخت آندھی آئی تھی جس نے مجھے اڑا کر تمہارے باغ میں لاپھینکا۔
مالک نے کہا ٹھیک ہے کہ باغ کے اندر تو آندھی لے آئی لیکن درخت پر کیسے چڑھے اور کیوں؟ چور لڑکے نے اوپر سے کہا اسی پر تو مجھے بھی حیرت ہے کہ آخر میں اس درخت پر کیسے چڑھا اور کیوں، قبیلہ صحافت کے اس بے چارے کو تو انصاف کی آندھی اٹھا کر باغ اقتدار میں لے آئی تھی لیکن بے چارے کی ''حیرت'' اس لڑکے سے دہری تھی اس کی سمجھ میں تو یہ نہیں آرہا تھا کہ درخت پر کیسے چڑھا، لیکن اس بے چارے انصاف کی آندھی کو اڑا کرلانے والے صحافی کو حیرت ایک دوسری بات پر تھی کہ اگر چڑھانا تھا تو مجھے ''اطلاعات'' کے درخت پر چڑھا دیتے، یہ غلط درخت پرکیوں چڑھا دیا۔
خیر ہمیں تو خوشی تھی کہ چلو کسی نہ کسی ''پیڑ'' پر چڑھا تو دیا گیا لیکن کسی پیڑ پر چڑھنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے کیونکہ کوئی درخت ''خالی'' ہے ہی نہیں، ہر درخت اور اور شاخ پر ''کوئی نہ کوئی'' بیٹھا ہوا ہے، یہ سارا قصہ دراصل ایک تمہید تھا کیونکہ پاکستان میں تازہ ترین ''ہلچل'' سے ایک مرتبہ پھر توقع بندھی ہے کہ شاید کہ بہار آئے، اگر جناب عمران خان وزیراعظم بنتے ہیں تو لازم ہے کہ ایک محترمہ یقیناً وزیرہ اطلاعات بنیں گی۔
چھوڑی اسد نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سائل ہوئے تو عاشق اہل کرم ہوئے
اب تک آپ سمجھ گئے ہوں کہ ہمارا اشارہ کس طرف ہے خوشی اس بات کی ہے کہ حالات بھی ہمارے حق میں بڑے سازگار ہوتے جارہے ہیں، ایک تو یہ جناب عمران خان نے پکی پیش گوئی کی ہے کہ اکتوبر نہ سہی نومبر میں سہی، سوبمئر ضرور رچے گا اور ''مچھلی کی آنکھ'' اب بھی میرے نشانے پر ہے۔ سو آج ہی سے اس نیک کام کی ابتدا کرتے ہیں کیونکہ ''قسمت'' بھی شاید پہلی مرتبہ ہمارا ساتھ دینے پر مائل ہوئی ہے، کیونکہ محترمہ کا ایک بیان ایسا آیا ہے جس پر ہم اپنی عمارت کی نیو رکھ سکتے ہیں۔
بیان میں محترمہ نے کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ''کمی'' ہمارے بابرکت دھرنے کا پہلا پھل ہے، انھوں نے تو خیر سیدھی سادی زبان میں کہا ہے کہ دھرنے کی برکت سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوئی ہیں لیکن ہم اگر اس میں حسب ضرورت کچھ شاعرانہ چاشنی ڈالیں تو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ۔۔۔۔ دھرنے کے ''ثمرات'' ملنا شروع ہو گئے ہیں، محترمہ نے بالکل ہی ٹھیک کہا ہے یہ دھرنے کی برکات و ثمرات ہی ہیں کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم کر دیے ہیں۔
اس سلسلے میں منفی تنقیدیے لوگ بین الاقوامی نرخوں وغیرہ کے حوالے دیں گے اور سعودی امریکن کاروباری پنترا بازی وغیرہ کا ذکر کریں گے لیکن یہ محض مفروضیات ہیں اصل بات وہی ہے کہ جو محترمہ نے فرمائی ہے۔ پٹرولیم نرخوں میں کمی صرف اور صرف دھرنے کا ثمر ہے بلکہ اب ''ثمرات'' کا ایک پورا پیکیج آنے والا ہے ہو سکتا ہے اس مرتبہ گندم کی کاشت اور پیداوار بھی بڑھ جائے، ٹماٹر، آلو، پیاز بھی بندے کے بچے بن جائیں اور بروقت بارشیں بھی شروع ہو جائیں ۔۔۔ کیوں کہ دھرنا دھرنا اور پھر دھرنا۔