الطاف حسین کا پنجابی سرائیکی قوم سے خطاب آخری حصہ
ملک میں جمہوریت جمہوریت کے ترانے گانے والے یہ لوکل کونسل سسٹم، لوکل باڈی سسٹم ملک میں کیوں نہیں نافذ کرتے؟
PESHAWAR:
(متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے گزشتہ دنوں لال قلعہ گرائونڈ عزیزآباد میں پنجابی اور سرائیکی ذمے داران و کارکنان سے خطاب کیا، جس کا متن قارئین ایکسپریس کی خدمت میں پیش ہے)
اور جو غریبوں کی بات کرتے ہیں وہ ٹکٹ دیتے ہیں تو کیا غریبوں کو ٹکٹ دیتے ہیں یا امیروں کو ٹکٹ دیتے ہیں؟ لوگ قرآن اٹھاتے، لو گ قبریں کھودتے ہیں، کلمے پڑھتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اگر ہم انقلاب نہیں لائے تو ہم اس قبر میں چلے جائیں گے لیکن وہ قبر میں تو نہیں جاتے... واپس کہیں اور چلے جاتے ہیں۔
آپ کے سامنے یہ واقعات نہیں ہیں کیا؟ آپ کے سامنے غریب عوام کی بات کرنے والے، ان کے اسٹیج پر چاروں طرف غریب کارکن ہوتے ہیں یا دولت مند ہوتے ہیں؟ تو میرے بھائیو، کیا یہ اکیلا الطاف حسین سمجھائے گا؟... آپ اگر الطاف حسین کو قائد مانتے ہیں تو آپ کا فرض ہے کہ آپ پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور اندرون سندھ جاکر سب کو سمجھائیں... اے پنجابیوں، پختونوں، سرائیکیوں، آپ لوگ یہ نہیں سوچتے ہو کہ یہ ریڑھی چلانے والے کو، رکشا چلانے والے کو الطاف حسین نے اسمبلی میں بھجوادیا... الطاف حسین آج تک خود سینیٹ کا، قومی اسمبلی کا، صوبائی اسمبلی کا رکن کیوں منتخب نہیں ہوا، خود الیکشن میں حصہ لے کر وزیر کیوں نہیں بنا۔
میرا خیال ہے سمجھ میں نہیں آئی آپ کے بات؟ میرے بھائیوں باتیں Important ہیں، سن لیجیے... نمبر ایک بھاولپور ریاست تھی... صوبہ تھا ملتان کی علیحدہ صوبائی حیثیت تھی... سرائیکی علاقوں میں آج جنوبی پنجاب میں جو صورتحال غربت کی ہے ایسی کبھی نہیں تھی... میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، ایم کیوایم کی اگر کل حکومت آجائے تو میں سب سے پہلے سرائیکی صوبہ بنانے کا اعلان کروں گا... اور اب میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں... آپ سب سوچیں، پھر اس کا جواب دیجیے... 1973 میں بھٹو صاحب نے صرف صوبہ سندھ میں دیہی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے یہ جواز دیا کہ وہ غریب علاقے ہیں... وہ شہری علاقوں سے دور ہیں... لہٰذا دس سال کے لیے دیہی علاقوں کو کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے بعد ساٹھ فیصد حصہ دیا جائے... اور شہری علاقوں کو 40 فیصد ملے گا۔
یہ کب نافذ کیا تھا؟ 1973 میں... اور آج کیا ہے 2014۔ خدا کی قسم، آج بھی یہ نظام بڑھا بڑھا کے نافذ کر رکھا ہے۔ کیا یہ انصاف ہے؟ ابھی بھی نافذ ہے۔ ایک طر ف میرے پنجابی سرائیکی بھائیوں، یہ کہا جاتا ہے کہ سندھی اور اردو بولنے والے برابر ہیں لیکن اردو بولنے والے کو چیف منسٹر بنانا شجرۂ ممنوعہ ہے۔ چیف منسٹر اردو بولنے والا بن ہی نہیں سکتا۔ یہ زیادتی ہے یا نہیں؟ اب شہری آبادی میں صرف اردو بولنے والے نہیں، پختون بھی ہیں، سرائیکی بھی ہیں، ہزاروال بھی ہیں، بلوچ بھی ہیں، سارے لوگ ہیں۔
یہ طالب علموں سے سوال پوچھتا ہوں کہ دنیا بھر میں آبادی جب بڑھتی ہے تو وہاں کا انتظام بہتر سے بہتر بنانے کے لیے پوری دنیا میں نئے نئے صوبے وجو د میں لائے جاتے ہیں یا نہیں؟ تو پاکستان میں گناہ کیوں ہے؟ میرے بھائی ہزاروال کے لوگ رو رہے ہیں، صوبہ بنانے کے لیے کوئی سننے والا نہیں ہے۔
آپ کے ملک کی آبادی 20 کروڑ ہوگئی ہے، ایک کروڑ پر ایک صوبہ ہونا ضروی ہے۔ اچھی حکمرانی چلانے کے لیے امن عامہ کے بہتر قیام کے لیے، انصاف گھر گھر پہنچانے کے لیے۔ تو انھیں برا کیوں لگتا ہے؟ میں طالب علموں چاہے وہ کالج کے ہوں، اسکول کے ہوں، یا وہ یونیورسٹی کے ہوں، میں انھیں بتانا چاہتا ہوں کہ بہتر نظام حکومت چلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ صوبے بنانا ملک اور ملک کے عوام کے مفاد میں ہوتا ہے۔
اور ملک میں جمہوریت جمہوریت کے ترانے گانے والے یہ لوکل کونسل سسٹم، لوکل باڈی سسٹم ملک میں کیوں نہیں نافذ کرتے؟ تاریخ اٹھاکر دیکھ لو طالب علموں، جہاں جہاں لوکل باڈی سسٹم آیا، جہاں جہاں نئے صوبے بنے، وہاں وہاں جاگیردارانہ، وڈیرانہ، سرمایہ دارانہ نظام اپنی موت آپ مرگیا۔ میں یہاں طالب علموں سے ایک سوال اور کرتا ہوں کہ آپ نے پرائمری کلاس کے بغیرکیا براہ راست کالج میں داخلہ لے لیا؟ تو جمہوریت کی پہلی سیڑھی جمہوریت کی لوکل باڈیز کا نظام ہے، Primary Democracy کا نظام ہے، جب تک یہ پاس نہیں کریں گے، دوسری کلاس میں نہیں جاسکتے، کالج میں نہیں جاسکتے۔
میں آج آپ کو ایک ایسی بات بتارہا ہوں جو آپ کے علم میں تو ہوگی لیکن شاید بہت سے لوگوں کے علم میں نہیں ہوگی... آج شاعر مشرق علامہ اقبال کا یوم پیدائش ہے، علامہ اقبال مذہبی رواداری پر یقین رکھتے تھے... وہ کسی بھی مذہب یا اس کے ماننے والوں سے نفر ت نہیں کیا کرتے تھے... اگر میری بات پر یقین نہ ہو تو علامہ اقبال کے دیوان حاصل کرو... علامہ اقبال نے رام کے احترام میں نظم لکھی ہے، گرونانک کے احترام میں نظم لکھی ہے۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بھی واضح طور پر کہا تھا کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں... لیکن میرے بھائیوں، پاکستان میں آج ہندوئوں کو، عیسائیوں کو، سکھوں کو اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ابھی آپ کو معلوم ہے کہ رادھا کشن پنجاب میں عیسائی میاں بیوی کو مذہب کی آڑ لے کر زندہ جلادیا گیا۔ میں اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ یہ اسلام کی تعلیمات میں نہیں ہے، بلکہ اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف عمل ہے، کھلی خلاف ورزی ہے۔
آپ پوچھیں گے کہ سندھ کی حکومت کے وزرا کیسے مزے مزے کی زندگی گزار رہے ہیں، ان کی حفاظت کے لیے سو سو کاریں ہوتی ہیں، جبکہ تھر میں پانی نہیں ہے، کھانا نہیں ہے، معصوم بچے فاقے اور بیماری سے جاں بحق ہورہے ہیں، حکومت کہاں ہے؟ آج 50 صحافیوں کے ہمراہ ایم کیوایم نے میڈیکل ٹیم دوائیوں، خشک اجناس اور ضروریات زندگی کے دیگر سامان کے ساتھ ایم کیوایم کے فلاحی ادارے خدمت خلق فاؤنڈیشن کے رضاکاروں پر مشتمل ٹیم تھر اور مٹھی میں روانہ کردیے ہیں...
ایم کیوایم کی دعوت پر تھر کے دورے پر جو اینکر پرسن، کیمرہ مین، فوٹوگرافرز، ٹیکنیشن، رپورٹرز اور صحافی بھائی پہنچے ہیں، میں دل کی گہرائیوں سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں... تمام پرنٹ والیکٹرونک میڈیا کے جو لوگ وہاں پہنچے میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں مخیر حضرات سے اپیل کرتا ہوں کہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے... لہٰذا آپ براہ مہربانی قطرہ قطرہ کرکے تھر کے فاقہ زدہ لوگوں، مٹھی کے فاقہ زدہ لوگوں کی امداد کریں، اﷲ حکومت کو بھی توفیق دے، ورنہ ایسی حکومت سے اے اﷲ ہمیں چھٹکارا دلوا دے...
سرائیکی اور پنجابی بھائیوں، آج یہ طے ہوگیا کہ آپ کا جلسہ جلد بہت بڑا جس میں آپ ہی کو لے کر آنا ہے اور آپ کو ثابت کرنا ہے... سرائیکی اور پنجابی بھائیوں، جب جناح گراؤنڈ میں آپ جلسہ کریں تو ذرا مقابلہ پختون بھائیوں سے بھی ہوجائے، ان سے بڑا جلسہ کرکے دکھائیں... آپ تمام حاضرین سرائیکی، پنجابی اور دیگر قومیتوں کے افراد جو آج کے اجلاس میں تشریف لائے، ان کا بہت بہت شکریہ اور انھیں زبردست خراج تحسین اور پنجابی اور سرائیکی کمیٹی کو بہت بہت شاباش... اور جیڑا پنجابی پرا اور سرائیکی بھائیوں تسی سن لو، اے جیڑا الطاف دا نعرہ ہے... اے جیڑا پنجابی اور سرائیکی دا بھی نعرہ ہے... جاگیرداروں، وڈیروں، لٹیروں، چوروں، اچکوں اب انقلاب کا وقت آرہا ہے اور ہم تمھیں بتادیں گے، جو ہم پر ظلم کرتے رہے ہو، اب ہم بتائیں گے... اب ہم بتائیں گے کہ
کیا عشق نے سمجھا ہے، کیا حسن نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
(متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے گزشتہ دنوں لال قلعہ گرائونڈ عزیزآباد میں پنجابی اور سرائیکی ذمے داران و کارکنان سے خطاب کیا، جس کا متن قارئین ایکسپریس کی خدمت میں پیش ہے)
اور جو غریبوں کی بات کرتے ہیں وہ ٹکٹ دیتے ہیں تو کیا غریبوں کو ٹکٹ دیتے ہیں یا امیروں کو ٹکٹ دیتے ہیں؟ لوگ قرآن اٹھاتے، لو گ قبریں کھودتے ہیں، کلمے پڑھتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اگر ہم انقلاب نہیں لائے تو ہم اس قبر میں چلے جائیں گے لیکن وہ قبر میں تو نہیں جاتے... واپس کہیں اور چلے جاتے ہیں۔
آپ کے سامنے یہ واقعات نہیں ہیں کیا؟ آپ کے سامنے غریب عوام کی بات کرنے والے، ان کے اسٹیج پر چاروں طرف غریب کارکن ہوتے ہیں یا دولت مند ہوتے ہیں؟ تو میرے بھائیو، کیا یہ اکیلا الطاف حسین سمجھائے گا؟... آپ اگر الطاف حسین کو قائد مانتے ہیں تو آپ کا فرض ہے کہ آپ پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور اندرون سندھ جاکر سب کو سمجھائیں... اے پنجابیوں، پختونوں، سرائیکیوں، آپ لوگ یہ نہیں سوچتے ہو کہ یہ ریڑھی چلانے والے کو، رکشا چلانے والے کو الطاف حسین نے اسمبلی میں بھجوادیا... الطاف حسین آج تک خود سینیٹ کا، قومی اسمبلی کا، صوبائی اسمبلی کا رکن کیوں منتخب نہیں ہوا، خود الیکشن میں حصہ لے کر وزیر کیوں نہیں بنا۔
میرا خیال ہے سمجھ میں نہیں آئی آپ کے بات؟ میرے بھائیوں باتیں Important ہیں، سن لیجیے... نمبر ایک بھاولپور ریاست تھی... صوبہ تھا ملتان کی علیحدہ صوبائی حیثیت تھی... سرائیکی علاقوں میں آج جنوبی پنجاب میں جو صورتحال غربت کی ہے ایسی کبھی نہیں تھی... میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، ایم کیوایم کی اگر کل حکومت آجائے تو میں سب سے پہلے سرائیکی صوبہ بنانے کا اعلان کروں گا... اور اب میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں... آپ سب سوچیں، پھر اس کا جواب دیجیے... 1973 میں بھٹو صاحب نے صرف صوبہ سندھ میں دیہی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے یہ جواز دیا کہ وہ غریب علاقے ہیں... وہ شہری علاقوں سے دور ہیں... لہٰذا دس سال کے لیے دیہی علاقوں کو کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے بعد ساٹھ فیصد حصہ دیا جائے... اور شہری علاقوں کو 40 فیصد ملے گا۔
یہ کب نافذ کیا تھا؟ 1973 میں... اور آج کیا ہے 2014۔ خدا کی قسم، آج بھی یہ نظام بڑھا بڑھا کے نافذ کر رکھا ہے۔ کیا یہ انصاف ہے؟ ابھی بھی نافذ ہے۔ ایک طر ف میرے پنجابی سرائیکی بھائیوں، یہ کہا جاتا ہے کہ سندھی اور اردو بولنے والے برابر ہیں لیکن اردو بولنے والے کو چیف منسٹر بنانا شجرۂ ممنوعہ ہے۔ چیف منسٹر اردو بولنے والا بن ہی نہیں سکتا۔ یہ زیادتی ہے یا نہیں؟ اب شہری آبادی میں صرف اردو بولنے والے نہیں، پختون بھی ہیں، سرائیکی بھی ہیں، ہزاروال بھی ہیں، بلوچ بھی ہیں، سارے لوگ ہیں۔
یہ طالب علموں سے سوال پوچھتا ہوں کہ دنیا بھر میں آبادی جب بڑھتی ہے تو وہاں کا انتظام بہتر سے بہتر بنانے کے لیے پوری دنیا میں نئے نئے صوبے وجو د میں لائے جاتے ہیں یا نہیں؟ تو پاکستان میں گناہ کیوں ہے؟ میرے بھائی ہزاروال کے لوگ رو رہے ہیں، صوبہ بنانے کے لیے کوئی سننے والا نہیں ہے۔
آپ کے ملک کی آبادی 20 کروڑ ہوگئی ہے، ایک کروڑ پر ایک صوبہ ہونا ضروی ہے۔ اچھی حکمرانی چلانے کے لیے امن عامہ کے بہتر قیام کے لیے، انصاف گھر گھر پہنچانے کے لیے۔ تو انھیں برا کیوں لگتا ہے؟ میں طالب علموں چاہے وہ کالج کے ہوں، اسکول کے ہوں، یا وہ یونیورسٹی کے ہوں، میں انھیں بتانا چاہتا ہوں کہ بہتر نظام حکومت چلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ صوبے بنانا ملک اور ملک کے عوام کے مفاد میں ہوتا ہے۔
اور ملک میں جمہوریت جمہوریت کے ترانے گانے والے یہ لوکل کونسل سسٹم، لوکل باڈی سسٹم ملک میں کیوں نہیں نافذ کرتے؟ تاریخ اٹھاکر دیکھ لو طالب علموں، جہاں جہاں لوکل باڈی سسٹم آیا، جہاں جہاں نئے صوبے بنے، وہاں وہاں جاگیردارانہ، وڈیرانہ، سرمایہ دارانہ نظام اپنی موت آپ مرگیا۔ میں یہاں طالب علموں سے ایک سوال اور کرتا ہوں کہ آپ نے پرائمری کلاس کے بغیرکیا براہ راست کالج میں داخلہ لے لیا؟ تو جمہوریت کی پہلی سیڑھی جمہوریت کی لوکل باڈیز کا نظام ہے، Primary Democracy کا نظام ہے، جب تک یہ پاس نہیں کریں گے، دوسری کلاس میں نہیں جاسکتے، کالج میں نہیں جاسکتے۔
میں آج آپ کو ایک ایسی بات بتارہا ہوں جو آپ کے علم میں تو ہوگی لیکن شاید بہت سے لوگوں کے علم میں نہیں ہوگی... آج شاعر مشرق علامہ اقبال کا یوم پیدائش ہے، علامہ اقبال مذہبی رواداری پر یقین رکھتے تھے... وہ کسی بھی مذہب یا اس کے ماننے والوں سے نفر ت نہیں کیا کرتے تھے... اگر میری بات پر یقین نہ ہو تو علامہ اقبال کے دیوان حاصل کرو... علامہ اقبال نے رام کے احترام میں نظم لکھی ہے، گرونانک کے احترام میں نظم لکھی ہے۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بھی واضح طور پر کہا تھا کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں... لیکن میرے بھائیوں، پاکستان میں آج ہندوئوں کو، عیسائیوں کو، سکھوں کو اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ابھی آپ کو معلوم ہے کہ رادھا کشن پنجاب میں عیسائی میاں بیوی کو مذہب کی آڑ لے کر زندہ جلادیا گیا۔ میں اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ یہ اسلام کی تعلیمات میں نہیں ہے، بلکہ اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف عمل ہے، کھلی خلاف ورزی ہے۔
آپ پوچھیں گے کہ سندھ کی حکومت کے وزرا کیسے مزے مزے کی زندگی گزار رہے ہیں، ان کی حفاظت کے لیے سو سو کاریں ہوتی ہیں، جبکہ تھر میں پانی نہیں ہے، کھانا نہیں ہے، معصوم بچے فاقے اور بیماری سے جاں بحق ہورہے ہیں، حکومت کہاں ہے؟ آج 50 صحافیوں کے ہمراہ ایم کیوایم نے میڈیکل ٹیم دوائیوں، خشک اجناس اور ضروریات زندگی کے دیگر سامان کے ساتھ ایم کیوایم کے فلاحی ادارے خدمت خلق فاؤنڈیشن کے رضاکاروں پر مشتمل ٹیم تھر اور مٹھی میں روانہ کردیے ہیں...
ایم کیوایم کی دعوت پر تھر کے دورے پر جو اینکر پرسن، کیمرہ مین، فوٹوگرافرز، ٹیکنیشن، رپورٹرز اور صحافی بھائی پہنچے ہیں، میں دل کی گہرائیوں سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں... تمام پرنٹ والیکٹرونک میڈیا کے جو لوگ وہاں پہنچے میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں مخیر حضرات سے اپیل کرتا ہوں کہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے... لہٰذا آپ براہ مہربانی قطرہ قطرہ کرکے تھر کے فاقہ زدہ لوگوں، مٹھی کے فاقہ زدہ لوگوں کی امداد کریں، اﷲ حکومت کو بھی توفیق دے، ورنہ ایسی حکومت سے اے اﷲ ہمیں چھٹکارا دلوا دے...
سرائیکی اور پنجابی بھائیوں، آج یہ طے ہوگیا کہ آپ کا جلسہ جلد بہت بڑا جس میں آپ ہی کو لے کر آنا ہے اور آپ کو ثابت کرنا ہے... سرائیکی اور پنجابی بھائیوں، جب جناح گراؤنڈ میں آپ جلسہ کریں تو ذرا مقابلہ پختون بھائیوں سے بھی ہوجائے، ان سے بڑا جلسہ کرکے دکھائیں... آپ تمام حاضرین سرائیکی، پنجابی اور دیگر قومیتوں کے افراد جو آج کے اجلاس میں تشریف لائے، ان کا بہت بہت شکریہ اور انھیں زبردست خراج تحسین اور پنجابی اور سرائیکی کمیٹی کو بہت بہت شاباش... اور جیڑا پنجابی پرا اور سرائیکی بھائیوں تسی سن لو، اے جیڑا الطاف دا نعرہ ہے... اے جیڑا پنجابی اور سرائیکی دا بھی نعرہ ہے... جاگیرداروں، وڈیروں، لٹیروں، چوروں، اچکوں اب انقلاب کا وقت آرہا ہے اور ہم تمھیں بتادیں گے، جو ہم پر ظلم کرتے رہے ہو، اب ہم بتائیں گے... اب ہم بتائیں گے کہ
کیا عشق نے سمجھا ہے، کیا حسن نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے