چوہے بلی کا کھیل…

چند دہشت گرد جنھیں ہم مٹھی بھر دہشت گرد کہتے ہیں ہنستے مسکراتے چہروں کو خون میں رنگ دیتے ہیں۔

آنسوؤں کے سمندر میں زخموں کی ناؤ پھر سے ہچکولے کھا رہی ہے۔پھر سے فضا میں آہوں، سسکیوں کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ پھر کوئی عورت اپنے ہاتھ کی چوڑیاں توڑ رہی ہے، اسپتال زخمیوں سے بھر گئے۔ ٹی وی پر اچانک بریکنگ نیوز نے پتا نہیں کتنے لوگوں کے نروس بریک ڈاؤن کیے ہوں گے۔

محرم کی آٹھ تاریخ جب امت مسلمہ غم حسین منا رہی تھی کہ اچانک شام کے وقت ٹی وی پر خبر نشر ہوئی کہ واہگہ بارڈر پر ایک خودکش حملہ ہوا جس میں 52 سے زائد لوگ ہلاک اور 150 سے زائد زخمی ہوئے، پھر سے کربلا برپا ہوگیا، لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں واہگہ بارڈر کی طرف بھاگنے لگے ان مرنے والوں میں معصوم بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے شہر لاہور میں دہشت گرد اپنی کارروائی کرگئے اور حکومت کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ایک خودکش نے اپنے ساتھ نصف سے زائد لوگوں کو ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سلا دیا۔

اس طرح ان گھرانوں میں صف ماتم بچھ گئی اچھائی اور برائی کی یہ جنگ صدیوں سے چلی آرہی ہے لیکن جس بربریت کا مظاہرہ ہمارے ملک میں ہوتا ہے شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں ہوتا ہو۔ چند دہشت گرد جنھیں ہم مٹھی بھر دہشت گرد کہتے ہیں ہنستے مسکراتے چہروں کو خون میں رنگ دیتے ہیں۔ لاتعداد ایسی بھی خبریں سننے میں آتی ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بروقت کارروائی کرکے دہشت گردی کا منصوبہ ناکام بنادیا اور دہشت گردی میں استعمال ہونے والے اسلحے کے بڑے ذخیرے کو اپنی تحویل میں لے لیا لیکن پھر بھی دہشت گرد کہیں نہ کہیں اپنی کارروائیوں میں معصوم افراد کو لقمہ اجل بنا دیتے ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے سیکیورٹی اداروں اور دہشت گردوں کے درمیان چوہے بلی کا کھیل جاری ہے جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل رہا ہے۔ جب کہ عوام ہی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ واہگہ بارڈر پر ڈی جی رینجرز لاہور نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سیکیورٹی ہی تو تھی کہ دہشت گرد پریڈ ایونیو تک نہیں جاسکا ورنہ وہاں زیادہ نقصان ہوتا۔

واہگہ بارڈر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک سرحدی علاقہ ہے جہاں ہر شام پرچم اتارنے کی رسم ادا کی جاتی ہے جسے دیکھنے ہزاروں لوگ آتے ہیں جب کہ اس کے ساتھ ساتھ وہاں پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت بھی ہوتی ہے جس کی وجہ سے آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اس لیے ایسے علاقے میں دہشت گردی کی کارروائی کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے وہاں پر سیکیورٹی سخت ہونی چاہیے ایسے میں خودکش حملہ سیکیورٹی حکام کے لیے بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔

آٹھ محرم کے سانحے نے پوری قوم کو سوگوار کردیا، جب کہ اس موقع پر پوری قوم نواسہ رسول کا غم منا رہی تھی 52 سے زائد افراد کی المناک ہلاکت نے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہر آنکھ اشکبار ہے۔ سانحہ بارہ ربیع الاول 2005 سے لے کر آج تک ہم پتا نہیں کتنے لاشے اٹھا چکے ہیں۔ لیکن آج تک نہ تو کسی مجرم کو عوام کے سامنے لایا گیا اور نہ ہی کسی کو سزائے موت دی، ہاں البتہ خاندان کے خاندان موت کے کی نیند سوگئے۔ ہر سانحہ دوسرے سانحے سے زیادہ دل دہلا دینے والا ہوتا ہے۔ حکومتی حکام سے لے کر سیکیورٹی حکام تک صرف رپورٹ طلب کرنے کے علاوہ شاید ہی کوئی کارروائی عمل میں آئی ہو۔


ابھی چند روز پہلے کراچی میں نیلوفر طوفان نے صرف 650 کلومیٹر دور سے اپنا رستہ تبدیل کردیا شاید قدرت جانتی تھی کہ یہ لوگ خود اپنی موت مر رہے ہیں ان کو کسی طوفان سے مارنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم اخلاقی طور پر تباہ ہوچکے ہیں کسی بھی شعبے کو دیکھیں وہ دیوالیہ ہو رہا ہے، ہر طرف افراتفری ہے ایوان مچھلی بازار بن گئے۔ وہاں حکومت بچاؤ، مفاد بچاؤ کے سوا کوئی کام نہیں ہوتا۔ کسی کو یہ پرواہ نہیں کہ پاکستان اسٹیل کی چمنی سے دھواں کیوں نہیں نکل رہا ہے۔ PIAکیوں دیوالیہ ہو رہا ہے، اپوزیشن یا حکومتی ارکان میں سے کسی نے ان اہم قومی اداروں کی زبوں حالی پر زبان کھولی یا ایوان میں کوئی تحریک جمع کروائی، آپ کو اس کا جواب نفی میں ملے گا۔

آج بین الاقوامی دنیا میں ہمارا تشخص بگاڑ کا شکار ہے ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں اب تو وہ ممالک بھی جو ترقی پذیر ہیں ہمیں دہشت گردی کی نظر سے دیکھتے ہیں جو خودکش جیکٹیں پہن کر دوسروں کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہوں گے۔ اب ہمارے نوجوانوں کے لیے دنیا کی درسگاہوں کے دروازے بھی بند کیے جا رہے ہیں کسی کو بھی احساس نہیں کہ ہم نے انجانے میں یا جان بوجھ کر اپنی قوم کے ساتھ کیا سلوک کیا۔

جس طرح ہم نے اپنی تاریخ کو مسخ کرکے حقائق کو نصاب سے نکال دیا اور سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر ان علما اور اہل قلم کو آگے لایا گیا جو اپنے نظریات کو ہی حقیقت سمجھتے تھے اس طرح ہماری پوری قوم کی سوچ کا محور تبدیل کردیا گیا اور یہی اب سوچ اس ملک کی اصل مالک بن بیٹھی ہے۔ اہل اور قابل لوگوں کا راستہ روکنے کے لیے میرٹ کو قتل کردیا گیا جس کی وجہ سے وطن عزیز سے اکثریت یا تو دیار غیر منتقل ہوگئی یا خاموش ہوکر گمنامی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔

ہماری پہچان ہتھیار کی بنیاد پر تبدیلی لانے کا ذریعہ بنا دی گئی۔ جہاد کے مفہوم کو ہی تبدیل کردیا گیا، مضبوط معیشت، تعلیم، سائنس کے وسیع میدان کو چھوڑ کر منفی راستوں پر ڈال دیا گیا جس سے ایسی سوچ کا غلبہ ہوگیا جو دلیل سے قاصر تھی۔ اس سوچ نے پورے ملکی نظام کو اپنے کنٹرول میں لے لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ہماری شناخت صرف اور صرف دہشت گرد ہی رہ گئی ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ایک ملزم گلو بٹ کو گیارہ سال کی سزا سنادی لیکن سارا دن ٹی وی پر دکھائی جانے والی رپورٹ میں پولیس والے کس طرح معصوم عورتوں اور بچوں پر گولیاں برسا رہے تھے ان میں سے کسی ایک کو شناخت کرکے سزا نہیں سنائی گئی۔

دنیائے عالم کی نظر میں ہمارا امیج گلوبٹ جیسا ہوکر رہ گیا ہے جو تعلیم سے دور ہے جس کی سوچ صرف مار دھاڑ، توڑپھوڑ، قتل و غارت گری ہو۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے ہوا کہ یہاں ان لوگوں کو آگے لایا گیا جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری تھے۔

آج ہمارے ملک کے تمام اداروں کے نوٹس بورڈ پر نہ نظر آنے والی تحریر آویزاں ہے جس میں لکھا ہے کہ اگر آپ میں سچ بولنے، ایمانداری، ملی جذبہ، سوچنے کی صلاحیت اور قابلیت کے پانچ عنصر یا خوبیوں میں سے کوئی ایک پائی جاتی ہے تو آپ مجرم ہیں اس لیے اس ادارے میں آپ کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسے مجرم کی سزا صرف موت ہے یا پھر...زندگی بھر کی رسوائی۔
Load Next Story