مہرباں کیسے کیسے…
بقول علامہ اقبال کہ ’’جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی، اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو۔‘‘
اس بار ملاقات میں میاں علم دین خاصے متوحش نظر آرہے تھے، ان کی حرکات و سکنات میں ایک عجیب سا خوف و ہراس کا عنصر نمایاں تھا۔ استفسار کرنے پہ معلوم ہوا کہ وہ آج کل ایک ابھرتے ہوئے لیڈر کے بارے میں اظہار خیال کرنا چاہتے تھے کہ جس نے حکومت کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیے ہیں اور عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگیا ہے کہ بقول علامہ اقبال کہ ''جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی، اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو۔''
بات دھرنوں سے شروع ہوکر سول نافرمانی تک پہنچ گئی ۔ ان حالات میں جب کہ آزادی اظہار کے بلند بانگ دعوے کرنے والا ابلاغ عامہ بھی مکمل طور پر اس خوف سے پیچھا نہیں چھڑا سکا ہے تو علم دین کا خوف زدہ ہونا کوئی انوکھی بات نہ تھی۔ میں نے ان کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا۔ یار! ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے، ہم ٹھہرے عوام اور عوام کی باتیں گدھے کی لاتیں برابر ہیں۔ کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہماری باتوں پہ غور کرنے کے لیے وقت نکالے۔
ہاں مگر اسی ملک میں جہاں گھوم پھر کے جنگل کے قانون کا نفاذ ہوتا رہتا ہے، ناکردہ گناہ کی پاداش میں سزا کے خوف سے جان چھڑانا ہر کس و ناکس کے بس کی بات پھر بھی نہیں۔ فی زمانہ موقع محل دیکھے بغیر سچ بات کہنے کی عادت کا شمار بری عادتوں میں ہوتا ہے۔ کہنے کو یہ عام سا پارک ہے مگر نظریہ ضرورت کے تحت کچھ وقت کے لیے اسے ہائیڈ پارک سمجھنے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔ کہہ ڈالیں جو کچھ کہنا ہے میرے سینے میں جہاں آپ کے بہت سارے راز دفن ہیں وہاں ایک اور سہی۔
انھوں نے الو کی طرح دیدے گھما کر ایک بار پھر اردگرد کا جائزہ لیا پھر بڑی دھیمی آواز میں پوچھا یار! یہ آخر لندن پلان کیا ہے۔ اور بے ساختہ میرے منہ سے قہقہہ پھوٹ پڑا۔ بمشکل خود پہ قابو پانے کے بعد عرض کی حضور بات صرف اتنی سی ہے کہ جھوٹ اتنی بار اور اتنے تسلسل سے بولو کہ سچ لگنے لگے۔ پہلی بات تو یہ کہ اتنی پرانی دوستی کے باوجود بھی میں آپ کی نجی مصروفیات کی ٹوہ لینا شروع کردوں تو آپ کو بھی جواب دینے میں الجھن اور بعد میں ہتک محسوس ہونے لگے گی۔ یا تو آپ سرے سے انکاری ہوجائیں گے یا پھر ماتھے پہ آنکھیں رکھ کر مجھے اپنے کام سے کام رکھنے کا مشورہ دیں گے۔
سو لندن پلان کی یہی کچھ حقیقت ہے اس سے سوا کچھ نہیں۔ کوئی انوکھی بات نہ تھی کہ دیار غیر میں مقیم آپ کے ہم وطنوں نے آپ کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک کو ایسی صورتحال کا سامنا رہتا ہے۔ ایک جمہوری طرز عمل ہے اور جمہوری انداز میں ہی اس کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا جاتا ہے۔ ایک دفعہ باریک بینی سے آستین کے سانپوں کو پہچاننا ہوگا ان کا سر کچلنا ہوگا۔ خودستائی اور خودغرضی کے حصار سے باہر نکل کر اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، پھر دیکھئے کہ یہی بپھرے ہوئے عوام آپ کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں کہ نہیں۔ آپ کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کے عزم کی بازگشت سنائی دے رہی ہے مگر ان تمام تر خوش کن سپنوں کو تعبیر جب ملے گی جب آپ انتہائی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرینگے۔
دوران خطابت میری تمام تر توجہ میاں علم دین پہ مرکوز رہی، مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ لمحہ بہ لمحہ فلیٹ ہوتے جا رہے ہوں۔ اس سے پہلے کہ ان کے غبارے سے تمام تر ہوا خارج ہوجاتی اور وہ چھیچھڑے کی مانند میرے ہاتھوں میں لٹکتے رہ جاتے، میں نے لگامیں کھینچ لیں۔ ان کے کاندھے پہ تھپکی دیتے ہوئے بولا، امید ہے آپ میری بات سمجھ گئے ہوں گے۔ حالانکہ میرے پوچھنے سے پہلے سے ہی ان کا سر جس تیزی سے اثباتی انداز میں متحرک تھا اس میں پوچھنے نہ پوچھنے سے کچھ ایسا زیادہ فرق بھی نہ پڑا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ پوری طرح میری باتوں سے متفق ہیں۔
پارک کی رونقیں مانند پڑنا شروع ہوگئی تھیں سو ہم نے ان کو نشست برخاست کرنے کا مشورہ دیا جو مان لیا گیا۔ ہم پارک سے باہر نکل آئے۔ گھر واپسی پہ غیر محسوس طریقے سے ہم نے علم دین کو اس راستے پہ ڈال دیا جو بابا کڑے نامی پشاوری ہوٹل سے ہوکر گزرتا تھا۔ چپلی کبابوں کی اشتہا انگیز خوشبو آنی شروع ہوگئی تھی اور اسی نسبت سے میاں علم دین کی چال میں بھی تیزی آگئی تھی اور پھر وہی ہوا جو بظاہر نہ چاہتے ہوئے بھی ہم چاہتے تھے۔ پشاوری ہوٹل کا آنا، کھلے آسمان تلے ایک الگ تھلگ نشست پہ قبضہ جمانا، آرڈر پلیس کرنا سب کچھ پلک جھپکتے میں ہوگیا۔
ہم نے بیٹھنے سے پہلے بوکھلاہٹ میں جیبوں پہ ہاتھ مار کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ گویا ہم بٹوا گھر پر ہی بھول آئے ہیں اور نتیجہ اس کا بھی ہماری توقعات کے عین مطابق آیا، یعنی علم دین ہاتھ پکڑ کر مجھے بٹھاتے ہوئے بولے بھائی جان! آپ کو کتنی بار کہا ہے کہ جب بھائی ساتھ ہو تو آپ بل ول کی فکر نہ کیا کریں۔ مجھے کیا پتا تھا کہ وہ بل ول کی فکروں سے آزاد کرکے مجھے ایک اور فکر میں مبتلا کرنے والے تھے یعنی ایک اور سوال کرکے۔ اس بار سوال ان کا خاصا دھانسو تھا۔ فرمانے لگے یہ اخبار کے کالم نویس ودیگر لکھاری یا ٹیلی ویژن کے تجزیہ نگار و اینکرز واقعی نیوٹرل یا غیر جانبدار ہوتے ہیں۔
میرا بڑا سادہ سا اور مختصر سا جواب تھا ''نہیں''۔ ظاہر ہے اس مختصر سے جواب سے ان کی خاطر خواہ تسلی ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے، مثالیں پیش کرنا اور تشریح کرنا بھی ازبس ضروری تھا۔ میں نے 21 ستمبر کو شایع ہونے والے ایک نامی گرامی اخبار کے کہنہ مشق لکھاری اور ٹی وی کے سابق اینکر پرسن کی چند سطروں کی طرف توجہ دلائی۔ محترم زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھنے سے انکاری ہیں لیکن ولی کامل کی طرح جس چیز کا کوئی وجود ہی نہیں ہے یعنی ''لندن پلان'' ازخود ہی اخذ کر بیٹھے ہیں کہ سب کو اس کی تفصیلات کا علم ہوگیا ہے۔
ایک اور کالم نویس کا تجزیہ کہ دیومالائی کردار کی طرح سیاسی افق پہ ابھرنے والے کی تمام باتیں چونکہ اپر مڈل کلاس کے سفید پوش اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے سے میل کھاتی تھیں، سو یہی ایک طبقہ سنجیدگی کے ساتھ نہیں محض اسٹیٹس و فیشن سمبل کی بنا پر اس کے ساتھ ہے اور ان کی طرف سے 76 لاکھ ووٹ اسی دیومالائی کردار کے حق میں پڑے، وہ بھی اس لیے کہ ان کے ساتھ کوئی ہاتھ نہیں ہوسکتا تھا۔
مگر دھرنوں پہ نظر ڈالیں تو طبقہ اشرافیہ اور طبقہ محرومیہ کی ایک بہت بڑی تعداد اگر آپ آنکھیں کھولنا چاہیں تو آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ اسی طبقہ محرومیہ کے 75 لاکھ ووٹوں کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔ ہوگیا ہے کہ نہیں؟ یہی وہ حل طلب مخمصہ ہے جس کے لیے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ڈھائی تین ہزار اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچیس تیس ہزار دو ٹانگوں والی جیتی جاگتی مخلوق اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھی رہی۔
ویسے سمجھنے والے سب کچھ سمجھ رہے ہیں۔ میاں علم دین نے جو مجھے موقع فراہم کیا تھا کھانے کا اور بولنے کا، اس کا ہم بھرپور فائدہ اٹھا رہے تھے، ہم کباب کھاتے اور علم دین باقیات سے دل بہلاتے رہے۔ دودھ پتی چونکہ آداب ہوٹل کی ریت تھی، سو اس سے دو دو ہاتھ کرنے کے بعد ہم اٹھ کھڑے ہوئے، ہاتھ ملانے کے بجائے میاں علم دین سے باقاعدہ معانقہ کیا اور ان کو ہوٹل انتظامیہ کے بھروسے پہ چھوڑ کر گھر کی راہ لی۔