کراچی منظم منصوبہ بندی کے تحت تاریخی ورثہ کے حامل 6 سینما نذرآتش

کراچی کے تاریخی حیثیت کے حامل خوبصورت اور یاد گار سینما چندگھنٹوں میں ملبہ کا ڈھیر بن گئے

سینما لکان کا کہنا ہے سینما ئوں کو جلانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی،آگ لگانے اور تباہی پھیلانے والے گھروں سے تیاری کرکے آئے تھے۔فوٹو: اشرف میمن

21ستمبر2012ء کو ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی یوم عشق رسولﷺ سرکاری طور پر منایا گیا۔

اس موقع پر ملک بھر میںعام تعطیل کی گئی اور عاشقان رسولﷺ نے ریلیاں اور جلوس نکال کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، لیکن چند مفاد پرستوں اور شرپسندوں نے اپنی شیطانی عمل سے اس احتجاج کو پرتشدد بنا دیا اور جلائو گھیرائو سے پوری دنیا میں پاکستان اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی جو سازش کی اس سے کوئی اچھا پیغام نہیں گیا،اس احتجاج کے موقع پر تخریب کاروں اور شرپسندوں نے املاک کو زبردست نقصان پہنچایا، بہت سے لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ،احتجاجی ریلی اور جلوس میں موجود شرپسندوں نے کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر واقع سنیمائوں کو آگ لگاکر اپنا غصہ ان پر نکالا۔

ایم اے جناح روڈ پر کیپری، پرنس، نشاط اور گارڈن روڈ پر بمبینو سنیما،نیپئر روڈ پر نگار اور لانڈھی میں گلستان سینما کوجلا کر راکھ کردیا ۔ کراچی کے تاریخی حیثیت کے حامل خوبصورت اور یاد گار سینما چندگھنٹوں میں ملبہ کا ڈھیر بن گئے،ان سینمائوں کے مالکان اپنے سینمائوں کو جلتا دیکھ کر بے بسی کی تصویر بنے رہے، کروڑوں روپے کی املاک کو جس طرح جلایا گیا، سینما لکان کا کہنا ہے سینما ئوں کو جلانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی،آگ لگانے اور تباہی پھیلانے والے گھروں سے تیاری کرکے آئے تھے۔

ان کا مشن اور مقصد یہ تھا کہ وہ ان سینما ئوں کو جلا کر لوٹ مار کریں گے، شرپسند اپنے ساتھ لوہا کاٹنے کے کٹر، لوہے کے راڈاور دیگراوزار، آگ لگانے کے لیے پیٹرول اور کیمیکل ساتھ لائے تھے، سینما ئوں میںایک طویل عرصہ سے حفاظتی انتظامات کے طور پر مضبوط لوہے کی گرل، کنکریٹ کی دیواریں بنائی گئی تھیں، لیکن شرپسند کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی، سینما ئوں کو آگ لگانے سے پہلے لوٹ مار کی، سینما ئوں میں موجود تجوری سے رقم، بجلی کے پنکھے، اے سی، نلکوں کی ٹوٹیاں، جو چیز ہاتھ لگی لوٹ کر فرار ہوگئے۔

سینما مالکان کا کہنا ہے کراچی کی یہ شاہراہ حساس ہے۔ آئے دن جلوس اور ریلیاں یہاں سے نکلتی ہیں، ان سینما ئوں پر اس سے پہلے بھی متعدد بار حملے کیے گئے لیکن اس مرتبہ شرپسند اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے، سینما مالکان کا کہنا ہے جب ان شرپسندوں کو جو مسلح تھے روکنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے بندوقیں تان لیں اور سینمائوں کے ملازمین کو تشدد کا نشانہ بنایا، فائر بریگیڈ کو آنے نہیں دیا گیا، قانون نافذ کرنے والے لوگ بھی املاک کو بچانے نہیں آئے اور شرپسند بہت سکون اور اطمینان سے کاروائی میںمصروف رہے۔

یہ ایک وحشیانہ عمل تھا ان سینما ئوں میں اہل کراچی روزانہ تفریح کے لیے آتے تھے اور دن بھر کے کام کاج کے بعد سکون حاصل کرتے تھے، ان سے تفریح کا یہ حق بھی چھین لیا گیا' پاکستان کی فلم انڈسٹری جو گزشتہ کئی سال سے شدید بحران سے گزررہی تھی' فلمیں بننا بند ہوچکی تھیں۔ بھارتی فلموں کی نمائش کے بعد پاکستانی فلموں کو سینما کا حصول نہ ممکن ہوگیا تھا کراچی کے یہ چھ سینما پاکستانی فلمی صنعت کے لیے بہت بڑا سہارا تھے لیکن ان سینما ئوں کے جل جانے کے بعد پاکستانی فلموں کا مستقبل کیا ہو گا؟ یہ ایک سوال ہے کیا پاکستان میںفلم سازی کا عمل رک جائے گا؟

پاکستان کی تاریخی ورثہ کی حیثیت رکھنے والے نشاط سینما کا افتتاح محترمہ فاطمہ جناح نے 25دسمبر 1947ء کیا تھا،اس سینما کو 1972ء میں سینما ا سکوپ کیا گیا تھا ۔1988ء میں سینما کو جدید سائونڈ سسٹم سے آراستہ کیا گیا بھارتی فلم مغل اعظم کی نمائش کے موقع پرڈیجیٹل سائونڈ سسٹم کے علاوہ دوبارہ تزئین و آرائش کی گئی '1972ء سے سینما پر اردو فلموں کی نمائش ہوتی رہی پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد سنیما پر زیادہ تر انگریزی فلموں کی نمائش کی گئی، نشاط سینما مکمل طور تباہ ہوگیا،اس سینماکو نئے سے سرے سے تعمیر کیا جائے گا، کراچی کا ایک اور عمدہ اور معیاری سینماکیپری بہترین فلموں کی نمائش کے لے شہرت رکھتا ہے ایم اے جناح پر واقع اس سینماکو بھی شدید نقصان پہنچا یہ سینماتقریبا پچاس فیصد تباہ ہوگیا۔


کراچی کا سینماپرنس اردو اور انگریزی فلموں کے حوالے سے ایک بہترین سینمارہا ہے لیکن یہ سینماملکیت کے حوالے سے گزشتہ نو ماہ سے تنازعہ کی وجہ سے بند تھا۔ عدالت میں اس کا کیس چل رہا ہے، جسے عدالت نے اپنی تحویل میں لیا ہوا تھا، ماضی میں اس سینمامیں بہت سی یاد گار فلموں کی نمائش کی گئی لیکن اس سینماکو بھی جلا دیا گیا یہ سینمابھی مکمل طور پر جل کر تباہ ہو گیا جسے دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔

گارڈن روڈ پر واقع سینمابمبینو تاریخ اہمیت کا حامل تھا اس کا افتتاح سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا جبکہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری (مرحوم) نے قائم کیا تھا۔ سینماپر بھی ملک کی نامور شخصیات نے آکر فلم دیکھی کراچی کے بہترین سینمائوں میںاس کاشمار ہوتا تھا، کراچی کے نگار اور گلستان سینمائوں کا شمار سائیڈ کے سینمائوں میں ہوتا تھا،ان سینمائوں میں بھی بہت سی یادگار فلموں کی نمائش کی گئی،کراچی میں جلائے گئے ان سینمائوں کی وجہ سے کراچی میں سینمائوں کی تعداد مزید کم ہوگی۔

شہر کراچی میںتقسیم ہند سے قبل 20سنیما تھے قیام پاکستان کے بعد کراچی میں دو سنیما جوبلی اور نشاط کا قیام عمل میں آیا 1955ء سے 1960ء کے درمیان کراچی میں سنیمائوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا، پاکستان کی فلم انڈسٹری جوں جوں ترقی کی منزلیں طے کرتی رہی سنیما بنتے چلے گئے۔ ماضی میں کراچی میں سنیمائوں کی تعداد106تھی لیکن پاکستان میں بھارتی ویڈیو فلموں نے پاکستانی فلموں کو بہت نقصان پہنچایا اور لوگوں نے سنیما کا رخ کرنا کم کردیا اور سنیما ئوں کا کاروبار ختم ہونا شروع ہوگیا سنیما مالکان نے نقصان سے بچنے کے لیے اپنے سنیما فروخت کرنا شروع کردیئے اور وہاں شاپنگ پلازہ اور رہائشی فلیٹ تعمیر ہونا شروع ہوگئے،آج کراچی میں سنیمائوں کی تعداد صرف 30رہ گئی۔

تمام تر سنگین صورتحال کے باوجود فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ اب سال میں اردو، پنجابی اور پشتوں فلمیں 15 سے 20 بن رہی ہیں اردو فلمیں سال میں اب دو ہی بن سکیں ہیں، پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت ملنے بعد پاکستانی فلموں کا مستقبل تاریک ہوگیا، رہی سہی کسر کراچی میں جلائے گئے سنیمائوں سے پوری ہوگئی۔

پاکستانی فلمیں بنانے والوں کو اب سنیمائوں کی کمی کا شدت سے احساس ہوگا، کراچی میں جلائے جانے والے سنیما فلم انڈسٹری کے لیے ایک بہت بڑاجھٹکا ہے، جلائے جانے والے سنیما مالکان نے گزشتہ دنوں کراچی میں پریس کانفرنس میں سنیمائوں کو جلانے کی پرزور الفاظ میں مذمت کی ان کا کہنا ہے ان سنیمائوں کی تاریخی حیثیت تھی اب ان سنیما ئوں کو از سر نو تعمیر ایک بہت بڑا چیلنج ہے کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے ہم تین سال سے اپنے سنیمائوں کو اس لیے قائم رکھے ہوئے تھے کہ کسی طرح کراچی میںفلم بینوں کو اچھے ماحول میں تفریح ملتی رہے لیکن سنیمائوں کو جلنے کے بعد جس صدمہ سے ہم دوچار ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہے۔

حکومت جلائے جانے والے سنیمائوں کی از سر نو تعمیر میں ہمارے ساتھ تعاون کرے ہمیںمعاوضہ دیا جائے، ایک کمیشن بنایا جائے جواس سانحہ کی تحقیقات کرے اور اس کی رپورٹ براہ راست صدر مملکت اور وزیر اعظم کو پیش کی جائے، تاکہ اس پر فوری طور پر عملدرآمد ہوسکے۔

ہم عوام سے بھی اپیل کریں گے کہ وہ فیصلہ کریں کہ کیاوہ ان سنیمائوں کی تعمیر چاہتے ہیں،ہم آج بھی پرعزم ہیں کہ عوام کو ان سنیمائوں سے تفریح ملے ، اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ اگر یہ سنیما دوبارہ تعمیر ہوجائیں تو ان کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ حکومت ایم اے جناح روڈ پر تمام جلوس اور ریلیوں پر پابندی عائد کرے تاکہ نجی املاک کو نقصان نہ پہنچے۔ نشاط سنیما کے مالک ندیم مانڈوی والا،کیپری سنیما کے مالک فرخ چوہدری، بمبینو سنیما کے مالک عدیل امتیاز، پرنس سنیما کے نمائندے سہیل، مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ کے ڈائریکٹر نواب حسن صدیقی اور دیگر نے ایک ہنگامی اجلاس میں آئیندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا اس سلسلے میں جلد حکومت سے مذاکرات کیے جائیں گے اور حکومت سے نقصان کی تلافی کے لیے درخواست کی جائے گی۔
Load Next Story