دنیا بھر سے بھارت سے سیکھنے کی ضرورت ہے

بھارت میں پارلیمانی اراکین پرلاگو ہے کہ وہ اپنےحلقہ سےایک گاؤں منتخب کریں اورسال 2016 تک ایک ماڈل گاؤں کےطورپرابھاریں۔


جاہد احمد November 18, 2014
ایک طرف ہم ہے جو ابھی تک اِسی بات پر بحث کررہے ہیں کہ ہم پر حکمرانی والے جائز طریقے سے آئے ہیں یا ناجائز طریقے سے اور ایک طرف بھارت ہے جس نے عملی طور پر نئے بھارت کی بنیاد رکھ دی ہے جس میں حکومت کے مخالفین بھی شامل ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

خبر گرم ہے کہ ریکارڈ ساز عظیم بھارتی بلے باز سچن ٹنڈولکر نے 'پوتم راجوری کاندریکا' نامی آندھرا پردیش نیلور ڈسٹرکٹ کے ایک انتہائی پچھڑے ہوئے گاؤں کی تعمیر و ترقی و بہبود کی ذمہ داری اٹھا لی ہے اور اسی ضمن میں اس گاؤں کا دورہ کرتے ہوئے دو کروڑ اناسی لاکھ روپے کی لاگت کے ترقیاتی منصوبوں کا سنگِ بنیاد بھی رکھ دیا گیا۔

پہلے مرحلے میں گاؤں میں ایک عدد کمیونیٹی سنٹر، آنگن وادی کے نام سے خواتین و بچوں کا مرکز اور ایک اسکول بشمول کھیل کے میدان، ہال، باورچی خانہ اور بیت الخلاء تعمیر کیے جائیں گے۔ دوسرے مرحلے میں سچن ٹنڈولکر اس گاؤں کی مزید تعمیر و ترقی کے لئے دو کروڑ اکیس لاکھ روپے خرچ کریں گے۔ یوں ایک سال کے اندر اندر سچن کی جانب سے اس گاؤں کے لئے کل ترقیاتی اخراجات پانچ کروڑ بھارتی روپے کے ہوں گے اور یہ گاؤں بھارت میں ایک ماڈل گاؤں کے طور پر اپنی شناخت قائم کرے گا۔ سچن کے نام کے باعث اس کام کی پوری دنیا میں خوب تشہیر ہوئی ہے لیکن پاکستان کے لئے تفصیلاًاس کارِ خیر کے محرکات کا ذکر کیا جانا اور انہیں سمجھنا ازحد ضروری ہے کیونکہ یہ منصوبہ سچن ٹنڈولکر کا نہیں بلکہ دیہی علاقہ جات کی ترقی کا مربوط اور جامع بھارتی حکومت کا منصوبہ ہے ۔

سچن ٹنڈولکر نے جون2012 میں بھارتی راجیہ سبھا یا ایوانِ بالا کے نامزد رکن کے طور پر حلف اٹھایا۔ بھارتی قانون کے مطابق راجیہ سبھا کے اراکین کی تعداد 250 ہوتی ہے جس میں سے 12 ارکان نامزدگی کی بنیاد پر راجیہ سبھا کا حصہ بنتے ہیں ۔ ان اراکین کے انتخاب اور نامزدگی کا اختیار بھارتی صدر کو حاصل ہے۔ بھارتی صدر زندگی کے مختلف شعبوں مثلاًسائنس، آرٹس،کھیل، فلاحی و رفاحی کاموں سے منسلک ایسے افراد کو منتخب کر سکتے ہیں جو پارلیمان کی فعالیت اور افادیت میں اضافے کا سبب بن سکیں۔ اسی بنیاد پر سچن ٹنڈولکر کو 2012 میں بھارتی صدر پراتیبھا پاٹیل نے منتخب کیا اور یوں سچن حلف اٹھانے کے بعد بھارتی پارلیمان کا حصہ بن گئے۔ پارلیمان کے اراکین کو ہر مالی سال کے لئے پانچ کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈ مہیا کیے جاتے ہیں تاکہ یہ اراکین اپنے حلقہ میں عوام کی ضروریات کے پیش نظر عوامی نوعیت کے ترقیاتی منصوبے تعمیر کروا سکیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سچن نے پہلے دو بھارتی مالی سالوں میں ایک روپیہ بھی نہ کسی منصوبے پر خرچ کیا اور نہ ہی کسی منصوبے پر کام کرنے کی سفارش پارلیمان میں پیش کی۔ اس طرح دو سالوں میں وہ دس کروڑ روپیہ جو ممبئی کے حلقہ میں عوامی فلاحی اور ترقیاتی کاموں پر خرچ کیا جانا چاہیے تھا خرچ نہ ہوسکا اور اسی سبب سچن کو بھارتی پارلیمان کے اراکین اور سیاسی تجزیہ کاروں کی طرف سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

آگے بڑھیئے! بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 11 اکتوبر2014 کو 'جیاپرکاش نارائین' کے یومِ پیدائش کے موقع پر بھارتی دیہی علاقہ جات کی تعمیر و ترقی اور صفائی ستھرائی سے جڑے پروگرام 'سنسد آدرش گرم یوجنا' کا اعلان کیا۔ اس حکومتی منصوبے کا مقصد دیہی علاقہ جات کی تعمیر و ترقی، کلچر کا فروغ، دیہی آبادی کے درمیان بھائی چارے اورامن و محبت کی فضا پیدا کرنا، کمیونیٹی کے نظریہ کو ابھارتے ہوئے باہمی مدد اور درپیش مسائل کو آپس میں مل جل کر حل کرنے کے جذبے کومضبوط و مربوط شکل میں وضع کرنا ہے۔اس کے علاوہ بچوں کی تعلیم کے لئے سکول، عوام کی صحت سے متعلق بنیادی سہولیات کی فراہمی،خوراک اور خصوصاًپینے کے صاف پانی کی دستیابی، صفائی ستھرائی اور تمام افراد بالخصوص مرد حضرات کو شراب و سگریٹ نوشی سے دور رکھنے کے اقدامات بھی اس منصوبے کا حصہ ہیں۔

اس حکومتی منصوبے کے تحت تمام پارلیمانی اراکین پر لاگو کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ سے اپنی مرضی کا ایک گاؤں منتخب کریں اور سال 2016 تک سالانہ پانچ کروڑ خرچ کر کے اسے ایک ماڈل گاؤں کے طور پر ابھاریں۔ اگلے مرحلے میں اراکین چاہیں تو دو یا تین گاؤں اپنی مرضی سے منتخب کر کے 2019 تک اگلے عام انتخابات سے پہلے انہیں بھی ماڈل گاؤں میں تبدیل کر دیں۔

'سنسد آدرش گرم یوجنا' کے تحت نریندر مودی نے اپنے حلقے سے 'جے پور' گاؤں کا انتخاب کیا ہے، سونیا گاندھی نے اپنے حلقے سے 'ادوا' گاؤں چنا، راہول گاندھی نے 'دیہہ 'نامی گاؤں کی ذمہ داری اٹھائی جبکہ سچن ٹنڈولکر نے اپنے حلقے سے 'پوتم راجوری کاندریکا' کا ذمہ لیا ہے۔ سچن حکومتی پیسے و پلیٹ فارم سے راجیہ سبھا کے رکن کے طور پر اپنی حلف برداری کے دو سال بعد پہلی بار کسی عوامی منصوبے پر عمل پیرا ہوئے ہیں۔ لیکن سچن کے نام کا اپنی شہرت اور بھارت میں کسی دیوتا جیسی حیثیت اور اہمیت ہونے کے باعث کسی بھی حکومتی منصوبے سے جڑ جانا حکومت کے لئے بھی باعث فخر ہے اوردنیا بھر میں حکومتی اقدامات کی تشہیر اور توجہ حاصل کرنے کا آسان ترین ذریعہ بھی۔بھارت نے سچن کو شہرت، عزت، دولت، رتبہ، اعزازات اور وقار سب کچھ دیا ہے تو یقیناًسچن ٹنڈولکر کا ایسے عوامی حکومتی منصوبوں کو وقت دینا اس عظیم کھلاڑی کی جانب سے بھارتی عوام کو حقیقی معنوں میں کچھ لوٹا دینے کا عمل ہے اور بھارت کے پارلیمانی و جمہوری نظام میں ہر طبقے کے افراد کا اعتمادظاہر کرتا ہے۔ یہ بھارتی جمہوری نظام کے تسلسل سے چلتے رہنے کا ثمر ہے کہ بھارتی پارلیمانی نظام ہر طبقہ فکر اور سچن جیسے عالمی شہرت یافتہ افراد کو ساتھ ملا کر عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے منصوبوں پر کامیابی سے عمل درآمد کی مکمل اہلیت حاصل کر چکا ہے۔

پاکستان میں صورتحال ذرا مختلف ہے۔ یہاں پارلیمان، جمہوریت اور سیاسی نظام کمزور بھی ہے اور اس کی عزت و توقیر بھارت کی نسبت حد درجہ کم ہے۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ ہم اپنی حقیقی شناخت 'پاکستانیت' سے بھی کوسوں دور ہیں۔ انفرادی سطح پر ذاتی مفادات ہمہ وقت قومی مفادات کے آڑے آتے ہیں۔بالعموم اسی ملک سے تمام قسم کے فوائد حاصل کرنے والے وقت آنے پر ملکی نظام کو برا بھلا گردانتے ہوئے پاکستانی معاشرے کو کچھ لوٹانے کے بجائے ذاتیات کے حصار میں قیدرہتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہے کہ بھارت ہمارا دشمن ہے اور دشمن کو دشمن ہی سمجھنا چاہیے مگر جناب عقلمندی اور سمجھداری تو یہی ہے کہ اچھا کام جو کرے اُسے تسلیم کرتے ہوئے اُس پر عملدرآمد شروع کردینا چاہیے۔ بھارت میں سارے معاملات حکومت کے ہاتھ میں ہے اور وہ ذہنی طور پر مختص ہوتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کے لیے سنجیدہ ہوچکے ہیں۔ مگر ہم ابھی یہ طے کرنے میں مصروف ہیں کہ آیا حکومت جائز بھی ہے یا نہیں۔ ۔۔۔ کس اعلٰی قسم کی ذاتی عناد ہے کہ حکومت تمام تر نقصانات کے بجائے اپنی جگہ قائم ہے۔ یہ مسئلہ تو اپنی جگہ مگر ہمارے پاس ایسے بےشمار لوگ ہیں جن کو اِس ملک نے بے تحاشہ عزت اور مال و دولت سے نوازا ہے جو بغیر کسی ریاستی حمایت کے بغیر اپنی عوام کے لیے کام کرسکتے ہیں۔ اگر ایسا کچھ یہاں شروع ہوجائے تو شاید ہماری غربت میں دھنسی عوام کو فائدہ میسر آجائے وگرنہ اِس بات کا انتظار کرنا ہوگا کہ آیا حکومت جائز ہے یا پھر حکومتی مخالف دھرنا جائز۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں