بات کچھ اِدھر اُدھر کی ’’خدا کی رحمت ‘‘
'' گھر کسے پیارا نہیں ہوتا اور جب گھر میں پریوں جیسی بیٹیاں ہوں تو پھر رونقیں دو چند ہو جاتی ہیں بیٹیوں کی چہکار سے ہی گھر ، گھر لگنے لگتا ہے''
رات سے بلیاں رو رہی تھیں ،اس کی ماں اکثر کہتی تھی کہ اللہ خیر کرے کوئی بری بات ہو گی بلیوں کا رونا اچھا نہیں ہوتا، وہ ماں کو سمجھاتی کہ یہ سب دقیانوسی باتیں ہیں بلیوں کے رونے سے کچھ نہیں ہوتا ، اچھا یا برا ہر بات میں اللہ کی رضا ہوتی ہے آج پھر اُس کے گھر میں تاریکیوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ سارا گھرانہ ، رشتہ دار افسردہ تھے۔ آس پاس بلیوں کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں لیکن اُس کا ذہن اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھا، مگر جب گھر کے ماحول کو دیکھتی تو کلیجہ منہ کو آجاتا، بہت افسوس ہوا کاش خدا ایک بیٹا دے دیتا تووہ باپ کا سہارا بنتا، چلو کوئی بات نہیں آئندہ خدا ضرور سنے گا ،پہلے ہی اتنی بیٹیاں دے دیں ( انہوں نے خاموش بیٹھی تینوں بیٹیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) یہ کچھ الفاظ ہیں جو ایک خاتون دوسری خاتون سے کہہ رہی تھیں اور ماں باپ ایسے سر جھکائے بیٹھے تھے جیسے کوئی گناہ سر زد ہوگیا ہو۔رشتہ داروں کی ناک بھنویں چڑھی ہوئی تھیں سسرال والوں نے الگ رو رو کے بُرا حال کر لیا تھا۔ محلے کی عورتیں افسوس کے لئے آرہیں تھیں جیسے خداناخواستہ کسی کا انتقال ہو گیا ہو ۔
آجکل اس طرح کا ماحول صرف غریب یا کم تعلیم یافتہ لوگوں میں نہیں بلکہ پڑھے لکھے طبقے میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ اسپتال میں والدین اپنی ایک کی بیٹی چھوڑ کر رات کے اندھیروں میں غائب ہو گئے ، (کیونکہ ان کے گھر چوتھی بیٹی پیدا ہوئی تھی) اورپھروہ بچی لاوارثوں کی طرح ایدھی ہوم پہنچ گئی ، کچھ روز پہلے ہی کی خبر ہے کہ ملتان میں ماں باپ اپنی 2 بیٹیاں نہر کے کنارے چھوڑ گئے،کوئی خدا ترس اسے ہسپتال میں چھوڑ گیا، کیا ان لوگوں کو خدا کا خوف نہیں کیا ، نظرنہیں آرہا کہ آج کل کے حالات خدا کے قہر کو آواز دے رہے ہیں، آخر کب تک اللہ تعالیٰ رسی ڈھیلی چھوڑئیں گے ؟کب تک؟
ہمارے مذہب میں بیٹی کا دُنیا میں پہلا رُوپ ہی رحمت ہے جب بچی، بیٹی و بہن کے روپ میں جلوہ افروز ہوئی تو والد اور بھائیوں کو جنت میں لے جانے اور حضورؐ کی رفاقت دلوانے کا سبب قرار پائی، جب بیوی کا روپ اختیار کیا تو شوہر کا آدھا ایمان مکمل کرنے والی قرار دی گئی اور جب ماں بنی تو اللہ نے جنت اُس کے قدموں میں ڈال دی۔ لہذا ہمارے لئے بیٹی کی پیدائش بھی اسی قدر مسرت کا باعث ہونا چاہیے جس قدر لڑکے کی پیدائش ، بیٹیاں تو گھر کی رونق ہیں اللہ کی رحمت ہیں ان سے گھر میں بر کت ہوتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ایک ترقی پزیر ممالک کی طرح نئے دور میں داخل ہو گئے ہیں پرانے رسم و رواج ختم ہو گئے ہیں ۔ لیکن یہ سوچتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ ہم آج بھی پستی کی طرف جارہے ہیں خیالات اتنے بلند ہیں کہ لگتا ہے کہ آسما ن کی وسعتوں کو چھو لیں گے ، مگر عملی دنیا میں ہم سب صفرہیں ۔
یہ بات درست ہے کہ آجکل خواتین تقریباً ہر شعبے میں نمایاں ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ یہ سب کچھ ایک مخصوص حد تک ہی ہے، تعلیم یافتہ ہونے کے باوجودآ ج بھی وسیع الذہین لوگوں کی کمی ہے ۔ پاکستان کے ہر شہر کا تجزیہ کریں تو حالات بہت حد تک غیر مطمئن ہیں ، گاؤں اور اندرونی علاقوں کی تو بات چھوڑئیے شہروں میں بھی متعدد گھرانوں میں بیٹیوں کو صرف زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کی حد تک قابل قدر سمجھا جاتا ہے اور ان کی تمام صلاحیتیں پوشیدہ رکھی جاتی ہیں۔
تمام بچے چاہے وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں مساوی محبت اور سلوک کے مستحق ہیں لڑکیاں کا رہن ،سہن، غذات و اور بھی بہتر ہونی چاہیے لڑکی کی پیدائش پر لوگ جس قسم کا اظہار کرتے ہیں پھر یہی بچی آگے چل کے احساس کمتری میں مبتلا ہو کر اپنی شخصیت تباہ کر لیتی ہے ،وہ جب ایسے ہی ماحول میں پل کر بڑی ہوتی ہے جہاں اُس کے ساتھ چونکہ ایسا غیر مساوی سلوک ہوچکا ہوتا ہے تو پھر وہ اپنی آنے والی نسل کے ساتھ بھی اس قسم کا غیر مساوانہ رویہ رکھ سکتی ہے ۔ والدین چاہیں تو ماحول بہتر بنا سکتے ہیں بچی کو بتاتے رہیں کہ ان کے کون سے حقوق ہیں اور انہیں کتنا مخلصانہ رویہ رکھنا چاہیے تاکہ اُن کے اندر اعتماد پیدا ہو وہ اپنا دفاع کر سکیں۔ آپ کا یہ اعتبار ہی ان کو زندگی کی حقیقتوں سے آشنا کرائے گا۔
بچیوں کی شخصیت کو سنوارنا آپ کی ذمہ داری ہے شخصیت کے منفی پہلو آپ ہی دور کر سکتے ہیں کیونکہ یہ آپ کے گھر کی رونق ہیں، عزت و فخر کا باعث ہیں یہ اُس وقت ممکن ہے جب آپ کی ذات کا اعتماد اوربھروسہ ان کے ساتھ ہو گا جب اُ ن کی ذات، تعلیم و تربیت پر بھرپور دلچسپی اور توجہ دیں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے آبگینوں کی حفاظت ان خطوط پر کریں جو رب العالمین نے ہمیں بتائے ہیں۔ خدا ہر بیٹی کو سلامت رکھے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔