جنرل راحیل شریف کا دورہ امریکا
آرمی چیف کا امریکا کا یہ دورہ پاک امریکافوجی تعلقات،بھارت اورافغان معاملات کےحوالے سےانتہائی اہمیت کاحامل ہے۔
پاک فوج کے سربراہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اگلے روز امریکا کے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل لائیڈ آسٹن سے ملاقات کی اورعلاقائی سلامتی اور کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت سمیت دیگر ایشوز پر تبادلہ کیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باوجوہ نے ٹویٹ کی ہے کہ جنرل راحیل شریف امریکا کے سنٹرل کمانڈ کے ہیڈ کوارٹرز پہنچے توجنرل لائیڈ آسٹن نے ان کا ذاتی طور پر استقبال کیا اور اس موقعے پر انھیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔
بعد ازاں جنرل راحیل شریف کی جنرل آسٹن سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں جنرل راحیل شریف نے علاقائی سلامتی پر پاکستانی موقف سے آگاہ کیاجب کہ ملاقات کے دوران بڑھتے ہوئے پاک افغان ملٹری تعلقات اور کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت بھی زیر غورآئی۔ ملاقات کے دوران علاقائی سلامتی اور استحکام پر زیادہ فوکس رہا۔جنرل آسٹن نے دہشتگردی کے خلاف جاری ضرب عضب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پاک فوج کے عزم، پیشہ وارانہ امور اور کامیابیوں کی تعریف کی۔
دو روزہ مذاکرات ریاست فلوریڈا کے شہر ٹیمپا میں واقع ''سینیٹ کام'' یا مرکزی کمان کے ہیڈ کوارٹر میں منعقد ہوئے۔ ان کے اختتام کے بعد جنرل راحیل شریف اور ان کا وفد مزید مذاکرات کے لیے واشنگٹن روانہ ہو گیا۔ یہ مذاکرات دونوں ممالک کی فوجی قیادت میں پورے ہفتے کے صلاح مشورے کے سلسلے کی کڑی ہیں۔ جنرل راحیل نے اپنے دورے کے دوسرے مرحلے میں امریکی وزیر دفاع چک ہیگل اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی کے ساتھ واشنگٹن میں ملاقات کریں گے۔ وہ وائٹ ہاؤس نیشنل سیکیورٹی کے سینئر حکام سے بھی ملاقات کریں گے۔
جنرل راحیل کا بطور آرمی چیف امریکا کا یہ اولین دورہ ہے۔ یہ دورہ پاک امریکا فوجی تعلقات'بھارت اور افغان معاملات کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دورے کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔جنوبی ایشیا میں اس وقت نئی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ بھارت میں کانگریس کی حکومت ختم ہو چکی ہے اور اس کی جگہ بی جے پی برسراقتدار آ چکی ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی پالیسی جارحانہ ہے اور امریکا کے پالیسی ساز بھی اس سے آگاہ ہیں۔ ادھر افغانستان میں بھی نئی انتظامیہ آ چکی ہے۔افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امریکا کے انتہائی قریب آدمی ہیں۔
انھوں نے حالیہ دنوں میں عوامی جمہوریہ چین کا بھی دورہ کیا اور اس کے بعد وہ پاکستان بھی تشریف لائے۔ پاکستان کے دورے میں انھوں نے جی ایچ کیو کا دورہ کیا اور پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے بھی تفصیلی ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد پاک فوج کے سربراہ امریکا روانہ ہوئے۔ ان تبدیلیوں کو سامنے رکھا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پاک فوج کے سربراہ کا یہ دورہ غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا اور پاکستان نے اعتماد سازی کے مذاکرات کی پہلی اسٹیج مکمل کر لی ہے۔ اس وقت پاکستان شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہا ہے۔ اس آپریشن کے حوالے سے بھی بعض حلقے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ شاید اس آپریشن میں بھی کچھ لوگوں کو بچایا جا رہا ہے۔ اس قسم کے پروپیگنڈے کا مقصد پاک فوج پر دباؤ ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
شمالی وزیرستان سے جو اطلاعات مل رہی ہیں اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپریشن ضرب عضب بغیر کسی امتیاز کے تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف ہو رہا ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ جنرل لائیڈ آسٹن نے آپریشن ضرب عضب اور پاک فوج کے عزم کی تعریف کی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکا کے فوجی حلقے سمجھتے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب درست سمت میں جاری ہے۔ پاک فوج بھی متعدد بار یہ واضح کر چکی ہے کہ شمالی وزیرستان میں تمام گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جا رہی ہے۔ حقانی نیٹ ورک اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ آپریشن ضرب عضب سے پہلے دہشت گردوں کو فرار کا راستہ دینے کا تاثر بھی غلط ہے۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف اور امریکی اعلیٰ حکام کے درمیان مذاکرات میں پاک بھارت سرحدی معاملات بھی لازماً زیر بحث آئیں گے۔ امریکی دفاعی ذمے داروں کو اس صورت حال سے آگاہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ افغانستان میں سابق انتظامیہ پاکستان کے حوالے سے مسلسل غلط پروپیگنڈا کرتی چلی آئی ہے۔ بھارتی لابی بھی امریکا میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتی رہی ہے اور اس کا رویہ اب بھی وہی ہے۔ ایسے حالات میں امریکی فیصلہ سازوں کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ افغانستان کے نئے صدر فی الحال نرم رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
افغان انتظامیہ کو بھی زمینی حقائق سامنے رکھ کر اپنی پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر ملک اپنی اپنی مرضی سے نہیں لڑ سکتا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ افغانستان کی حکومت پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو پناہ دے اور الٹا پاکستان پر الزام تراشی بھی کرے۔ اسی طرح بھارتی عنصر کو بھی سامنے رکھا جانا انتہائی ضروری ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف کے اس دورے سے امریکی پالیسی سازوں کو حقائق سے آگاہی ہو گی اور پاک امریکا تعلقات میں زیادہ بہتری آئے گی۔
بعد ازاں جنرل راحیل شریف کی جنرل آسٹن سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں جنرل راحیل شریف نے علاقائی سلامتی پر پاکستانی موقف سے آگاہ کیاجب کہ ملاقات کے دوران بڑھتے ہوئے پاک افغان ملٹری تعلقات اور کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت بھی زیر غورآئی۔ ملاقات کے دوران علاقائی سلامتی اور استحکام پر زیادہ فوکس رہا۔جنرل آسٹن نے دہشتگردی کے خلاف جاری ضرب عضب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پاک فوج کے عزم، پیشہ وارانہ امور اور کامیابیوں کی تعریف کی۔
دو روزہ مذاکرات ریاست فلوریڈا کے شہر ٹیمپا میں واقع ''سینیٹ کام'' یا مرکزی کمان کے ہیڈ کوارٹر میں منعقد ہوئے۔ ان کے اختتام کے بعد جنرل راحیل شریف اور ان کا وفد مزید مذاکرات کے لیے واشنگٹن روانہ ہو گیا۔ یہ مذاکرات دونوں ممالک کی فوجی قیادت میں پورے ہفتے کے صلاح مشورے کے سلسلے کی کڑی ہیں۔ جنرل راحیل نے اپنے دورے کے دوسرے مرحلے میں امریکی وزیر دفاع چک ہیگل اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی کے ساتھ واشنگٹن میں ملاقات کریں گے۔ وہ وائٹ ہاؤس نیشنل سیکیورٹی کے سینئر حکام سے بھی ملاقات کریں گے۔
جنرل راحیل کا بطور آرمی چیف امریکا کا یہ اولین دورہ ہے۔ یہ دورہ پاک امریکا فوجی تعلقات'بھارت اور افغان معاملات کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دورے کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔جنوبی ایشیا میں اس وقت نئی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ بھارت میں کانگریس کی حکومت ختم ہو چکی ہے اور اس کی جگہ بی جے پی برسراقتدار آ چکی ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی پالیسی جارحانہ ہے اور امریکا کے پالیسی ساز بھی اس سے آگاہ ہیں۔ ادھر افغانستان میں بھی نئی انتظامیہ آ چکی ہے۔افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امریکا کے انتہائی قریب آدمی ہیں۔
انھوں نے حالیہ دنوں میں عوامی جمہوریہ چین کا بھی دورہ کیا اور اس کے بعد وہ پاکستان بھی تشریف لائے۔ پاکستان کے دورے میں انھوں نے جی ایچ کیو کا دورہ کیا اور پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے بھی تفصیلی ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد پاک فوج کے سربراہ امریکا روانہ ہوئے۔ ان تبدیلیوں کو سامنے رکھا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پاک فوج کے سربراہ کا یہ دورہ غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا اور پاکستان نے اعتماد سازی کے مذاکرات کی پہلی اسٹیج مکمل کر لی ہے۔ اس وقت پاکستان شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہا ہے۔ اس آپریشن کے حوالے سے بھی بعض حلقے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ شاید اس آپریشن میں بھی کچھ لوگوں کو بچایا جا رہا ہے۔ اس قسم کے پروپیگنڈے کا مقصد پاک فوج پر دباؤ ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
شمالی وزیرستان سے جو اطلاعات مل رہی ہیں اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپریشن ضرب عضب بغیر کسی امتیاز کے تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف ہو رہا ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ جنرل لائیڈ آسٹن نے آپریشن ضرب عضب اور پاک فوج کے عزم کی تعریف کی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکا کے فوجی حلقے سمجھتے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب درست سمت میں جاری ہے۔ پاک فوج بھی متعدد بار یہ واضح کر چکی ہے کہ شمالی وزیرستان میں تمام گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جا رہی ہے۔ حقانی نیٹ ورک اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ آپریشن ضرب عضب سے پہلے دہشت گردوں کو فرار کا راستہ دینے کا تاثر بھی غلط ہے۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف اور امریکی اعلیٰ حکام کے درمیان مذاکرات میں پاک بھارت سرحدی معاملات بھی لازماً زیر بحث آئیں گے۔ امریکی دفاعی ذمے داروں کو اس صورت حال سے آگاہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ افغانستان میں سابق انتظامیہ پاکستان کے حوالے سے مسلسل غلط پروپیگنڈا کرتی چلی آئی ہے۔ بھارتی لابی بھی امریکا میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتی رہی ہے اور اس کا رویہ اب بھی وہی ہے۔ ایسے حالات میں امریکی فیصلہ سازوں کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ افغانستان کے نئے صدر فی الحال نرم رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
افغان انتظامیہ کو بھی زمینی حقائق سامنے رکھ کر اپنی پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر ملک اپنی اپنی مرضی سے نہیں لڑ سکتا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ افغانستان کی حکومت پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو پناہ دے اور الٹا پاکستان پر الزام تراشی بھی کرے۔ اسی طرح بھارتی عنصر کو بھی سامنے رکھا جانا انتہائی ضروری ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف کے اس دورے سے امریکی پالیسی سازوں کو حقائق سے آگاہی ہو گی اور پاک امریکا تعلقات میں زیادہ بہتری آئے گی۔