ڈاکوؤں کا دھرنہ…بس گھوٹکی میں کیوں
واقعی نیا پاکستان بن گیا، جب گھوٹکی کے ڈاکوؤں کو بھی زبان مل گئی ہے۔ اور وہ بھی مارکیٹ میں اپنا انقلاب بیچنےنکل آئے۔
KARACHI:
گدھوں کے سر پر دو نہیں پانچ سینگ نکل آئے، ہمیں کون سا اُسے ووٹ دے کر اپنے بال منڈوانے ہیں۔ اور نا ہی اس بات سے کوئی حیرت ہوتی ہے کہ شیر گھاس کھانے لگ جائے؟ نا ہی اس بات سے کوئی سروکار ہے کہ مرغی انڈے کو چھوڑ کر ڈائریکٹ بچہ دینے لگ جائے اور مجھے یقین ہی ہے کہ آپ میں سے کسی کی دلچسپی نہیں ہو گی کہ سانپ ایک پاؤں پر ناچنے لگ جائے اور بندر ڈگڈگی بجا رہا ہو۔
انسانوں کی بھی دم نکل آئے تو ہم اُسے ایک تحفہ سمجھ کر قبول کر لیں گے اور اپنے لیے ایک اور نجات کا راستہ سمجھ کر نعرے لگانے سڑک پر نکل آئیں گے ۔ لیکن جب ہماری دم پر کوئی پاؤں رکھ دے گا تو ہمیں اعتراض ہو گا کہ آخر یہ دم کیوں ہے؟ اس کی جگہ تو ہمارے منہ کے پاس ہونی چاہیے تھی ہاتھی کی طرح ہماری بھی سونڈ ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ یہاں ہر چیز کا شور صرف اُسی وقت ہوتا ہے جب کوئی دم پر پاؤں رکھتا ہے ۔ اور چیخ نکلتی ہے ۔ اگر کسی اور کی دم کو کوئی کاٹ کر بھی لے تو ہم چین کی بانسری بجا کر سو رہے ہوتے ہیں ۔ ہر جگہ لوٹ مار کا بازار گرم ہے لیکن جب کوئی ٹھگ ہمیں لوٹ کر لے جاتا ہے تو ہم ساری رات اسے گالیا ں سود سمیت دے رہے ہوتے ہیں ۔
کراچی کے ٹارگٹ کلر روز کی ایک خبر ہے لیکن جب اپنے گھر کا کوئی نشانہ بنتا ہے تو دل سے ایسی ایسی بددعائیں نکلتی ہے کہ بس ۔ یہاں غریبوں کو گھر دینے کے نام پر جمع پونجی لوٹ لی جاتی ہے لیکن جب اپنی جیب خالی ہوتی ہے تو دل چاہتا ہے کہ یہاں قانون نام کی بھی چڑیا ہونی چاہیے۔ نواز شریف صاحب کو یہ میڈیا اُس وقت بہت اچھا لگتا تھا جب یہ مشرف کے خلاف اپنی تلواروں کی اینٹینا کیے ہوا تھا۔ لیکن اُس وقت اُن کا دل شیر کی محبت سے گھائل ہو گیا جب انھوں نے دیکھا کی میڈیا کے پاس دکھانے کے لیے عمران اور طاہر القادری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اور اب عمران صاحب کو میڈیا کی کرپشن یاد آ گئی ہے۔
سب اچھا تھا اور سب اچھا ہے کا راگ الاپنے والے چیتے اب اپنے پنجوں کا رخ میڈیا کی طرف کر رہے ہیں۔ ماشااللہ سے عمران خان کے دھرنے میڈیا کے ذریعے اس قدر مشہور ہو گئے ہیں لوگ اُن کی اندھی تقلید کرنے لگ گئے ہیں۔ اور واقعی نیا پاکستان بن گیا، جب گھوٹکی کے ڈاکوؤں کو بھی زبان مل گئی ہے۔ اور وہ بھی مارکیٹ میں اپنا انقلاب بیچنے نکل آئے اور سندھ کی پولیس نے ان مظلوم ڈاکوؤں پر اُسی طرح سے جملہ کسا ہے جیسے پرویز رشید عمران کے ہر جلسے کے بعد دعائیں دیتے ہیں۔ اس ملک کا سیاسی، کاروباری نظام کیا ہے اُس کی واضح مثال صرف نام بدل کر دیکھی جائے تو وہ گھوٹکی کے ڈاکوؤں کا منفرد انداز ہے جس نے میڈیا کا بھرپور استعمال کر کے یہ ثابت کر دیا کہ آخر اس ملک میں دودھ کی نہریں کہاں کہاں سے نکلتی ہے اور نئے پاکستان میں ان کا بھی حصہ ہے۔
سندھ میں خاندانی اور برادری کی دشمنیاں بہت شدید ہیں۔ جس کی وجہ سے مخالف گروہ کے لوگوں پر قتل اور دیگر مقدمات درج ہوتے ہیں جسے بعد میں ڈاکو کی شکل دی جاتی ہے اور ان ڈاکوؤں کو بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ برادریوں کی آپس کی لڑائی ہے اور اُس کے پیچھے طاقت اور لوگوں کا ہاتھ موجود ہے، گزشتہ سال ان میں سے کئی لوگوں سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔
ان کا کہنا یہ تھا کہ انھیں جدید سے جدید اسلحہ پولیس ہی فراہم کرتی ہے۔ یہ لوگ میڈیا میں اکثر اپنا موقف دیتے ہیں اور پاکستان کے اردو چینلز میں تو بہت کم مگر سندھی میڈیا میں یہ باقاعدہ اپنا موقف دیتے ہیں۔ بظاہر ڈاکو نظر آنے والے ان لوگوں کے پیچھے کئی شرفاء کے چہرے ہوتے ہیں۔ سندھ میں ڈکیتی اور ڈاکوؤں کی کہانیاں کوئی نئی بات نہیں اور محمد بن قاسم کی آمد کی وجہ بھی ڈاکو ہی تھے۔
ہمارے یہاں محمد بن قاسم کو تو نصاب میں شامل کیا جاتا ہے لیکن کئی ایسے افراد کو شامل نہیں کیا جاتا جنھیں اُس وقت کی حکومت تو ڈاکو کہتی تھی لیکن وہ سندھ کے بہت بڑے ہیرو ہیں۔ سندھ کے ڈاکوؤں پر شاہ عبدللطیف بھٹائی یونیورسٹی کے پروفیسر امداد حسین اور امیر علی چانڈیو کے ساتھ بہاء الدین یونیورسٹی کے محمد فاروق نے تفصیلی تحقیق کی تھی اور اس تحقیق میں بھی یہ بات واضح تھی کہ مغل حکمرانوں کے خلاف ''بدامنی پنرو اور پوج راج'' نے آواز اٹھائی تھی جنھیں مغل سلطنت تو ڈاکو کہتی رہی لیکن وہ سندھ کے بہت بڑے ہیرو مانے جاتے ہیں-
اس وقت اگر نیا بر صغیر ہوتا تو انھیں بھی اسٹیج پر جگہ مل جاتی۔ اسی طرح وہاں موجود برادریوں کے تصادم میں بننے والے ڈاکوؤں کو باہر کے لوگ کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں مگر ''کچے '' میں ان کی حیثیت ہیرو کی ہے۔ اسی تحقیق میں یہ بات واضح طور پر لکھی ہوئی ہے کہ سندھ میں ڈاکووں کو اسلحے کی فراہمی اور سپورٹ پولیس کی ہوتی ہے۔
اگر آپ ان کے ٹی وی بیانات کو دیکھیں اور ان سے بات کریں تو یہ کھول کر بتاتے ہیں کہ ان کو جدید اسلحہ پولیس کس طرح فراہم کرتی ہے اور ساتھ ساتھ اغواء کے اکثر کیسز کے پیچھے پولیس ہوتی ہے۔ وہاں موجود ایک صاحب کے مطابق اغواء برائے تاوان کی ڈیل بھی پولیس کرتی ہے اور اس کا بڑا حصہ بھی پولیس رکھتی ہے۔ خیر یہ اُن لوگوں کا موقف ہے۔ اب اس میں کتنی سچائی ہے اس کو اُس علاقے کی اکثریت جانتی ہے مگر کیونکہ ہمارے یہاں شہروں اور دھرنوں سے ہی فرصت کم ملتی ہے تو سندھ کے اُن اضلاع تک آتے آتے صدیاں لگ جائیں گی۔
خیر بات یہ تھی کہ گھوٹکی میں ڈاکوؤں نے جو مظاہرہ کیا اُس سے آپ کو اس ملک کی ساری سیاست سمجھ آ جائے گی۔ گھوٹکی کے علاقے راونتی میں قبائل کے آپس کے بھی مسئلے ہیں مگر ڈاکوؤں بھی ہیں ان ڈاکوؤں کا کہنا تھا کہ پولیس ان کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ وہ ہی اسلحہ ہمیں فراہم کرتی ہے مگرآج کل ان کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے اور وہ زیادہ پیسے مانگنے لگی ہے۔ ڈاکوؤں کا کہنا تھا کہ پولیس کا آپریشن محض دکھاوا ہے اور وہ صرف اپنے ریٹ بڑھانے کے لیے کر رہی ہے۔ جب کہ پولیس افسروں کا کہنا کہ یہ اپنے قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے بندے اغواء کرتے ہیں۔ ان کے خلاف آپریشن شروع ہونا ہے تو وہ میڈیا کو شامل کر کے اپنے خلاف کارروائی رکوانا چاہتے ہیں۔
جب کہ اعلی پولیس افسر یہ فرماتے ہیں کہ یہاں آپریشن اس لیے نہیں ہو سکتا کہ یہاں کوئی جانے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ جب کہ قبائلیوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے اگر ایمانداری سے آپریشن کر دیا تو پولیس کی دکان بند ہو جائے گی۔ سمجھ یہ آیا کہ اب میڈیا کی طاقت کا ڈاکوؤں کو بھی اندازہ ہو گیا ہے اور وہ بھی سمجھ گئے ہیں کہ اگر اپنے ریٹ بڑھانے ہیں تو میڈیا کی سپورٹ ضروری ہے۔
ڈاکوؤں نے کہا کہ لوگ سیانے ہو گئے ہیں اور اب کوئی اغواء بھی نہیں ہو رہا ایسے میں جب دھندا کم ہے تو پولیس کا پیٹ کہاں سے بھریں۔ اب آپ خود سمجھ جائیں کہ ان بیچاروں کے پاس جب دھندا نہیں ہے تو یہ میڈیا میں آ کر اپنے ریٹ ہی بڑھایں گے نہ ۔۔۔ اور اس طرح آپریشن رک گیا ۔۔۔کیونکہ اب پولیس آپریشن کرے گی تو اُسے انتقام سمجھا جائے گا۔ اس لیے آرام کریں دسمبر بھی آ جائے گا اور 30 تاریخ بھی گزر جائے گی۔ بس گھوٹکی، لاڑکانہ، گوجرانوالہ اور اسلام آباد کے ساتھ امریکا کے دوروں کو بھی آنکھ ماریں۔